دنیا بھر میں ''نیا معمول‘‘ کا غلغلہ ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے سے غیر معمولی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ معیشتی ڈھانچے کمزور پڑگئے ہیں۔ معاشرتی سطح پر بھی ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں‘ جن کی نظیر نہیں ملتی۔ بہت کوشش کرنے پر بھی کسی معاملے کا کوئی سِرا ہاتھ نہیں آرہا۔ دنیا بھر کی معیشتیں شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ معاشی الجھنوں نے معاشرتی پیچیدگیوں کو بھی بڑھادیا ہے۔ کمزور ریاستیں اور خطے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ان کے لیے ڈھنگ سے جینا پہلے ہی بہت مشکل تھا‘ اب یہ سمجھیے کہ تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ہے۔ پاکستان جیسے کمزور ممالک کورونا کی وبا کے شدید معاشی اور معاشرتی اثرات سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا یہ جھٹکا کسی نہ کسی طور جھیل ہی لے گی‘ کمزور ممالک اور خطوں کے لیے ایسا کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔
''نیا معمول‘‘ کیا ہے؟ چند بڑی طاقتوں (امریکا اور یورپ) نے مل کر طے کیا ہے کہ اب دنیا کو ایک نئی سمت لے جانا ہے۔ جینے کا ڈھنگ بدلنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ طرزِ زندگی بدلنے کی بھرپور کوشش شروع کردی گئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو باقی دنیا پر جو برتری حاصل ہوتی ہے ‘اُس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ کمزور ممالک اور خطوں پر یہ طاقتور ممالک اپنی مرضی تھوپ رہے ہیں۔ صحتِ عامہ کے نام پر لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ چند ایسی تبدیلیوں کو اپنائیں جن کی مدد سے یہ ممالک اپنے مقاصد آسانی سے حاصل کریں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر نیاکھیل کھیلا ہے ‘جس میں لاطینی امریکا‘ افریقا اور جنوبی ایشیا وغیرہ کے لیے کسی بھی طرح کا کوئی ایڈوانٹیج نہیں۔ بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ معاملات کو جلد از جلد اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ ''نیا معمول‘‘ متعارف کرانے کے نام پر کمزور ممالک کو چند نئی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی اجتماعیت پسندی کو دبوچنے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ ایک عشرے کے دوران کمزور ممالک میں عوامی جذبات تیزی سے ابھرے اور مشتعل ہوئے ہیں۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے نام پر جو تبدیلی آئی تھی‘ اُس نے دوسرے خطوں کو بھی کسی نہ کسی حد تک متاثر کیا۔ حقوق سے محروم عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی اشرافیہ سب کچھ بٹورنا چاہتی ہے‘ عوام کو کچھ دینا نہیں چاہتی۔ ترقی یافتہ ممالک اِن کمزور ممالک کی اشرافیہ کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب کوئی بھی ایسی تبدیلی رونما نہ ہو‘ جس کے ہاتھوں اُن کے مفادات داؤ پر لگیں۔ عوامی جذبات کو دبوچنے کی آڑ میں دراصل جمہوری کلچر کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکا اور یورپ کسی اور خطے میں حقیقی جمہوریت کا فروغ اور عروج دیکھنے کے موڈ میں نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر کمزور ملک پر اُن کے پٹھو راج کرتے رہیں اور عوامی حقوق کے لیے اٹھائی جانے والی ہر آواز کچل دی جائے۔ کورونا کی وبا پھیلاکر بہت کچھ ''سیدھا‘‘ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ بات اب عوامی سطح پر بھی محسوس کی جارہی ہے کہ کورونا کا جو ڈھول پیٹا گیا اور پھر لاک ڈاؤن کے ذریعے پوری دنیا کو ایک مقام پر روک دیا گیا وہ محض بیماری کی روک تھام کے لیے نہیں تھا۔ مقاصد کچھ اور تھے۔ بہت سے معاملات کا جائزہ لینا مقصود تھا۔ اور جائزہ لے لیا گیا ہے۔ اپنی طاقت میں تیزی سے رونما ہونے والی کمی کے پیش نظر مغربی طاقتیں چاہتی ہیں کہ باقی دنیا مزید الجھ جائے‘ کچھ الگ سے اور زیادہ کر دکھانے کے قابل نہ ہو پائے۔ چین اور اُس کے ہم نوا ممالک کو چُن چُن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ چین کی مدد سے چند ایک خطے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افریقا اور جنوبی و وسطی ایشیا سے چین کے مفادات زیادہ جُڑے ہوئے ہیں۔ کورونا کی وبا پھیلانے کے ساتھ ساتھ چین کو بدنام کرنے اور باقی دنیا کو اُس سے بدظن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے‘ تاکہ معاملات کو الجھایا جائے۔ مغرب کے ذرائعِ ابلاغ چین کے لیے معاملات کو زیادہ سے زیادہ الجھانا چاہتے ہیں۔ اُن کی توپوں کا رخ چین اور اُس کے ہم خیال ممالک کی طرف ہے۔ مغرب میں بھی لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب مغرب بند ہوگیا تو باقی دنیا کو بھی بند کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ مغربی معیشتیں منظم اور ''ویل ڈاکیومینٹیڈ‘‘ ہیں۔ ہر فرد پورے سسٹم سے جُڑا ہوا ہے۔ وہ ٹیکس بھی دیتا ہے اور فوائد بھی بٹورتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں لاک ڈاؤن کے دوران حقیقی نادار افراد کو تلاش کرنا اور اُن کی مدد کرنا ذرا بھی دشوار نہ تھا۔ وہاں ہر شعبہ اپنے حصے کا کام اچھی طرح کر رہا ہے۔ افریقا‘ جنوبی ایشیا‘ جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا میں ایسا نہیں۔ لاطینی امریکا میں بھی معیشتی ڈھانچے کمزور ہیں‘ تمام افراد سسٹم سے پوری طرح جُڑے ہوئے نہیں۔ مغربی دنیا کو دو تین ماہ تک بند رکھنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ان ممالک میں عوام کی نقل و حرکت یوں بھی محدود ہے۔ آن لائن کلچر اور ہوم ڈلیوری سسٹم اچھی طرح کام کر رہا ہے۔
عمومی سطح پر بھی مغرب کے باشندے 80 فیصد کی حد تک لاک ڈاؤن والی ہی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اجتماعات برائے نام ہوتے ہیں۔ لوگ ہوٹلنگ کے زیادہ عادی نہیں۔ گھر کی چار دیواری تک محدود رہنے کو عمومی سطح پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ہلاکتوں سے ہٹ کر اہلِ مغرب کے لیے کچھ بھی زیادہ نیا نہ تھا۔ کمزور خطوں کی شامت آگئی۔ عالمی معیشت کا پہیہ روک کر غیر منظم معیشتوں کی کھٹیا کھڑی کردی گئی ہے۔ اب ‘سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ یہاں سے آگے کیسے بڑھیں؟ پاکستان جیسے ممالک کو مجبور کیا جارہا ہے کہ ''نیا معمول‘‘ اپنائیں۔ صحتِ عامہ کے نام پر لوگوں کو ذہنی مریض بنادیا گیا ہے۔ صفائی کا اہتمام کرنے کی ذہنیت نے لوگوں کو انتہائی پیچیدگی سے دوچار کردیا ہے۔
''نیا معمول‘‘ کے نام پر جو کچھ ہم پر تھوپا جارہا ہے‘ اُس کے خلاف شعوری سطح پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے پوری دنیا کی طرزِ زندگی بدل کر اُس پر اپنی ثقافت تھوپنا چاہتا ہے۔ عالمی حکومت کا ایجنڈا کامیاب ہونے دیا گیا تو پوری دنیا مغرب کی طرح ''غیر شخصی‘‘ قسم کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگی۔ مغرب نے باقی دنیا کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو ٹھکانے کی ٹھان لی ہے۔ وہ سب کو ایک رنگ میں رنگنے نکلا ہے اور اس حوالے سے کوششیں زور پکڑتی جارہی ہیں۔ اس ریلے کے آگے بند باندھنا اور مغرب کے پٹھو حکمرانوں کو نکیل ڈالنا اب‘ لازم ٹھہرا۔