"MIK" (space) message & send to 7575

’’ٹارزنز‘‘ کی واپسی

بُرا ہو کورونا وائرس کا کہ اُس نے بزرگوں کو بھی ''ناقابلِ برداشت‘‘ کے درجے میں رکھا۔ ملک بھر میں دفاتر اور کارخانوں سے وابستہ ساٹھ سال سے زائد عمر والے افراد کو کم و بیش پونے تین ماہ تک گھر بٹھایا گیا۔ ''گھر بٹھانا‘‘ بہت عجیب اصطلاح ہے جو بزرگوں کے لیے کسی صورت استعمال نہیں کی جانی چاہیے۔ جب کسی لڑکی کی سُسرال میں نہیں بنتی اور بات بگڑ جاتی ہے‘ تب وہ گھر بیٹھ جاتی ہے‘ یعنی میکے چلی آتی ہے۔ قوم کے بزرگوں کا ایسا معاملہ تو ہرگز نہیں تھا اس لیے اداروں نے اگر انہیں ڈھائی تین ماہ کیلئے گھر بھیج بھی دیا تھا تو اسے گھر بیٹھنا یا بٹھانا نہ کہا جائے تو اچھا ہو گا۔کورونا وائرس کی کہانی میں بھی جاسوسی ناولوں میں پیش کی جانے والی کہانیوں کی طرح غیر معمولی اور حیرت انگیز موڑ پائے گئے ہیں۔ اب‘ سمارٹ لاک ڈاؤن متعارف کراتے ہوئے معیشت کو بہت حد تک کھول کر رواں ہونے کا موقع دیا گیا ہے۔ وائرس کا شکار ہونے کا خدشہ یا خطرہ اپنی جگہ اور زندگی اپنی جگہ۔ بہت کچھ ہے‘ جو لازم کردیا گیا ہے۔ دل چاہے کہ چاہے‘ ایس او پی پر تو عمل کرنا ہی پڑے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک بھر میں دن بھر کاروباری سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ بازار کھلتے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں اُن کا رخ کرتے ہیں۔ تب‘ یعنی دن بھر کورونا وائرس آرام کر رہا ہوتا ہے اور لوگوں کو لاحق نہیں ہوتا! 
کورونا وائرس کے ہاتھوں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ ہم اس معاملے میں انوکھے واقع نہیں ہوئے۔ اس وائرس نے دنیا بھر میں لوگوں کو شدید پریشانی سے دوچار کیا ہے۔ طرزِ زندگی میں بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی تبدیلی نے بہت کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔ زندگی بسر کرنے کا عمومی انداز تبدیلی کی سمت ایسا چلا ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کے نام پر نافذ کیا جانے والا لاک ڈاؤن قیامت سی ڈھاگیا ہے۔ بھلا کیوں نہ ڈھاتا؟ یہ پورا ڈراما قیامت ڈھانے ہی کے لیے تو رچایا گیا ہے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم کہاں ٹِک کر بیٹھنے والے لوگ ہیں؟ ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ گھر میں رہیں اور کہیں نہ جائیں تو یہ عذاب ہی کی ایک صورت ہوئی۔ آپ مغالطے کا شکار نہ ہوں‘ ہم عذاب کا ذکر اہلِ خانہ کے نقطۂ نظر سے کر رہے ہیں! ہمارے احباب میں کئی ایسے ہیں کہ زیادہ دیر گھر میں بیٹھیں تو اہلِ خانہ کی جان پر بن آتی ہے۔ اُن کے مزاج اور عادات سے اہلِ خانہ پریشان رہتے ہیں۔ سوچا جاسکتا ہے کہ ڈھائی پونے تین ماہ تک ایسے لوگوں کا گھر میں بیٹھ رہنا اہلِ خانہ کے لیے کس نوعیت کے دردِ سر کا باعث بنا ہوگا۔ ہم ایسے تمام اہلِ خانہ کو یقین دلاتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے برداشت کیا ہے اُس کا صلہ آخرت میں طے ہے! اب ‘خیر سے لاک ڈاؤن کا معاملہ کچھ نرم پڑا ہے اور معیشت کے مختلف شعبوں کو رواں کرنے کی غرض سے افرادی قوت کو دوبارہ ڈھنگ سے اور کماحقہ بروئے کار لانے کی راہ ہموار کی گئی ہے تو گھر کی چار دیواری کو چائے کی پیالی سمجھ کر اُس میں طوفان اٹھانے والوں کے لیے گھر سے باہر کی فضاء میں کھل کر سانس لینے کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ غور کیجیے تو درحقیقت یہ گنجائش اِن کے اہلِ خانہ کے لیے ہے! دفاتر‘ کارخانوں‘ ہوٹلز‘ بازاروں اور دکانوں کو اُن کے ''سینئرز‘‘ واپس مل گئے ہیں۔ ڈھائی ماہ سے بھی زائد عرصہ مقامِ کار سے دور رہنے والے اب دوبارہ اپنے اپنے مقام پر رونق افروز ہیں۔ عوامی زبان میں اسے ''ٹارزنز‘‘ کی واپسی بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان میں چند ٹارزن ایسے بھی ہیں‘ جن کے دم سے جنگل میں رونق کم اور گڑبڑ زیادہ ہے! جنریشن گیپ کے باعث بزرگوں سے کوئی بات منوانا کام کرنے کی جگہ (ورک پلیس) پر بھی اُسی قدر دشوار ہے‘ جس قدر گھر میں دشوار ہے۔ کبھی کبھی تو ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ اونٹ کو رکشے میں بٹھانا شاید آسان ہو ‘مگر کسی سینئر سے کوئی نئی اور معقول بات منوانا مشکل ثابت ہوتا ہے! مگر خیر‘ یہ کوئی بہت زیادہ تشویش کی بات نہیں۔ سوچ جب ایک سانچے میں واضح طور پر ڈھل گئی ہو تو اُسے بدلنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ ہم لاک ڈاؤن میں پیدا کی جانے والی نرمی سے بہت خوش ہیں۔ ہمارے اپنے معمولات بھی لاک ڈاؤن کے نتیجے میں شدید متاثر ہوئے تھے۔ بعض معاملات میں تو اپنے آپ کو سمجھانا بھی دردِ سر میں تبدیل ہوگیا۔ مگر خیر‘ اس معاملے میں ہم انوکھے نہیں تھے‘جو حال ہمارا تھا وہی دوسروں کا بھی تھا۔ وہ بھی ہماری ہی طرح پریشان تھے۔ لاک ڈاؤن نرم کیا گیا تو ہمیں زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ معمولات بحال کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ جو سینئرز گھروں میں بند تھے‘ اُنہیں ذہنی سطح معمول پر لانے اور مزاج کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پھر موقع ملا اور ہمیں دوبارہ اُن کے درشن ہوئے۔ دفتر کی رونق کچھ تو بحال ہوئی۔ ویسے کورونا کی برکت سے اور بہت سے ٹارزنز کی بھی واپسی ہوئی ہے‘ جو لوگ الل ٹپ زندگی بسر کر رہے تھے وہ اب کسی حد تک معقول طرز کی زندگی بسر کرنے کی طرف واپس آئے ہیں۔ رات دن صرف اور صرف مال بنانے کی فکر میں غلطاں رہنے والوں نے اپنے ساتھ ساتھ متعلقین کو بھی ہلکان کر رکھا تھا۔ کورونا کی وبا کے ہاتھوں نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی برکت سے یہ لوگ کچھ ''ہلکے‘‘ ہوئے اور ان کا معقولیت کی طرف آنا بھی ''ٹارزن کی واپسی‘‘ ہی کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔ ٹیکس نیٹ کے حوالے سے بھی ٹارزن کی واپسی یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے‘ یعنی جو لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ‘انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جارہا ہے ‘اگر حکومت اس حوالے سے کامیاب ہوگئی تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی ٹارزن کی واپسی ہوگئی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں