"MIK" (space) message & send to 7575

عمر کی تو کوئی قید نہیں

عمر کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ کوئی اس بنیاد پر کچھ نہیں کرتا کہ ابھی عمر ہی کیا ہے اور کوئی اس بنیاد پر کچھ کرنے سے گریز کرتا ہے کہ عمر تو ڈھل گئی‘ اب کیا ہوسکتا ہے! یہ بھی خوب نکتہ سرائی ہے۔ عمر کم ہو تو کچھ نہیں کرنا اور زیادہ ہو تب بھی کچھ نہیں کرنا۔ سیکھنے اور سیکھے ہوئے پر عمل کرنے کیلئے عمر کی قید کہیں بھی نہیں ہوتی۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ سیکھنے کے حوالے سے عمر کا معاملہ منطق کی حدود سے بالا ہے۔ انسان عجیب مخلوق ہے۔ اس پر کائنات کے اصولوں کا اطلاق ہو ہی نہیں پاتا۔ سوچنے کی صلاحیت اور عادت نے انسان کو تمام اصولوں سے بالا کردیا ہے۔جی‘ تو بات یہ ہو رہی تھی کہ سیکھنے کی کوئی عمر ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ معاملہ بہت حد تک ذہن کے اُلجھے یا سلجھے ہوئے ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کی جیسے ماحول میں تربیت ہوئی ہو وہ اُسی کے مطابق سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ اگر کسی بچے کے گرد منفی سوچ رکھنے والوں کی واضح اکثریت ہو تو وہ منفی انداز سے سوچنا سیکھے گا اور اُس سوچ کے مطابق ہی اُس کا عمل ہوگا۔ معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی کوئی بچہ اگر صاف ستھرے ذہن رکھنے والوں کے درمیان پروان چڑھا ہو تو اُسے مثبت انداز سے سوچنے کی تحریک ملتی ہوگی اور وہ خاصی بامعنی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکے گا۔ ہم زندگی بھر بعض عادتوں کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتی جاتی عادتیں ہمیں بہت سے معاملات میں سہولت اور تکلیف دیتی ہیں۔ ہر بُری عادت زیادہ سے زیادہ پختہ ہوکر زیادہ سے زیادہ پریشان کرتی ہے۔ بعض عادتیں اپنی اصل میں بُری نہیں ہوتیں مگر اُن کی نوعیت اور شدت معاملات کو بگاڑ دیتی ہے مثلاً مطالعے کی عادت کسی بھی اعتبار سے بُری نہیں‘ مگرکبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ بہت سے لوگ مطالعے کے بہت زیادہ عادی ہوکر شدید غیر متوازن زندگی بسر کرتے ہیں۔ مطالعے سے سیکھ کر کچھ کرنے کی تحریک پانا الگ بات ہے اور عمل کی دنیا سے دور رہنا الگ بات ہے۔کچھ سیکھنے سے گریز کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ بہت سی دوسری بُری عادتوں کی طرح کچھ نیا نہ سیکھنے اور کچھ نیا نہ کرنے کی عادت بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اصلاح کی شدید ضرورت محسوس کرنے پر بھی انسان خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور ہر موقع ضائع کرتا چلا جاتا ہے۔ ہر معاشرے میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ترجیحات میں شامل رکھتے ہیں۔ معاملہ کاروبار کا ہو یا پروفیشنل زندگی کا‘ وہی کامیاب ہوتے ہیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلتے ہیں۔ خود کو بدلنے کیلئے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا لازم ہے۔ یہ عمل شخصیت کی توسیع کا وسیلہ بنتا ہے۔ سیکھنا آپشنز میں سے نہیں‘ یہ ناگزیر عمل ہے۔ جس نے کچھ نیا سیکھنے سے گریز کیا یا ایسا کرنے کو درخورِ اعتنا نہ گردانا اُس نے اپنے لیے ناکامی کی راہ چُنی۔ 
آج کل ایک اصطلاح چلن میں ہے۔ یہ ہے ''سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘‘ یعنی ایس او پی۔ ایس او پی کو ہم اردو میں کہیں گے معیاری طریقِ کار۔ ہر شعبے میں چند باتیں لازم سمجھی جاتی ہیں یعنی حقیقی اور بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ اُن باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ مثلاً فوجی بننے کے لیے ایک خاص قسم کے ماحول میں طے شدہ نظم و ضبط کا پابند ہونا ہی پڑتا ہے۔ اس نظم و ضبط کو اپنائے بغیر کوئی ڈھنگ کا‘ کارگر فوجی نہیں بن سکتا۔ اگر کسی کو ڈاکٹر بننا ہے تو متعلقہ شعبے کی تمام بڑی اور معیاری کتب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ طب کے شعبے کی تعلیم انسان سے غیر معمولی توجہ کا تقاضا کرتی ہے‘یہی حال دیگر پروفیشنل شعبوں کا ہے۔ ہر بڑا‘ پیچیدہ شعبہ انسان کو پوری طرح نچوڑ لیتا ہے۔ گویا ع
رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پہ پس جانے کے بعد 
فی زمانہ کسی بھی شعبے میں کامیابی غیر معمولی توجہ اور محنت کی طالب ہے اور محنت بھی وہ جو ضرورت کے مطابق ہو۔ بہت سے لوگ محنت تو بہت کرتے ہیں مگر کسی ہدف کے بغیر۔ ایسی محنت بالعموم ضائع ہو جاتی ہے۔ انسان کو جو کچھ بھی سیکھنا ہے وہ صورتِ حال کے تقاضوں اور ضرورت کی نوعیت و شدت کے مطابق ہونا چاہیے۔ کسی بھی بازار میں وہی چیز کامیاب ہوتی ہے جس کے خریدار موجود ہوں۔ زندگی کا اصل لطف اس حقیقت میں مضمر ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا رہے۔ سیکھتے رہنے سے شخصیت بھی پنپتی ہے اور زندگی کی معنویت بھی بڑھتی ہے۔ عمر کا بہانہ بناکر سیکھنے سے گریز کرنے والے ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہوتے جاتے ہیں۔ ٹھہرے ہوئے پانی پر کائی جمتی جاتی ہے اور یہ پانی رفتہ رفتہ غیر مفید ہوتا جاتا ہے‘ اُن کا وجود بے فیض ہوتا چلا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے بہت کچھ جاننا پڑتا ہے‘ نئی مہارتوں کا حصول یقینی بنانا پڑتا ہے۔ انسان کو چونکہ عمر کے ہر مرحلے پر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور آگے بڑھنے کیلئے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا ہوتا ہے اس لیے سیکھنے کی کوئی عمر مقرر کی ہی نہیں جاسکتی۔ 
سیکھنے کے حوالے سے عمر کی بات بالعموم وہ لوگ کرتے ہیں جو یہ طے کرلیتے ہیں کہ اب آگے نہیں بڑھنا۔ حالات کی مہربانی سے جو کچھ مل جائے اُسی پر اکتفا کرنے اور تساہل کو شعار بنانے والے عمر کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ گردانتے ہوئے شخصیت کی اپ گریڈیشن سے بھاگتے ہیں۔ شخصیت کی غیر معمولی یا بھرپور نمو اُسی وقت ممکن ہے جب عمر کے ہر مرحلے میں جدت کو حقیقی ضرورت سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کیا جائے اور اُسی کے مطابق خود کو نئی مہارتوں کے لیے تیار کیا جائے۔ سیکھنا ہی زندگی کا اصل حُسن ہے۔ دنیا کی رونق اسی عمل سے بڑھتی ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کے لوگوں نے بہت کچھ سیکھنے سے گریز کیا ہوتا تو آج بہت کچھ ہماری زندگی کا حصہ نہ ہوتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں