منظرؔ ایوبی بھی زندگی کے منظر سے ہٹ گئے۔ کہنہ مشق شاعر تھے۔ زندگی شاعری کے ساتھ ساتھ تدریس میں بھی گزری۔ گزشتہ دنوں سوشل ویب سائٹ پر اُن کا کم و بیش ایک گھنٹے دورانیے کا ویڈیو انٹرویو جاری کیا گیا تو اُن کے بارے میں ٹھیک سے کچھ معلوم ہو پایا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے اپنی مشقِ سخن کے ساتھ ساتھ ''مشقِ حیات‘‘ کے بارے میں بھی بتایا۔ چاند علی چاندؔ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُن کی کاوش سے منظرؔ ایوبی صاحب کو سُننے کا موقع ملا اور کچھ اندازہ ہوا کہ ع
... کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!
ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں چند نمایاں ادبی شخصیات نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے حوالے سے بھی نمایاں تھیں۔ سلیم احمد مرحوم کے گھر کے دروازے بھی سب کیلئے کھلے رہتے تھے۔ اُن سے ملاقات کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ ان میں احباب بھی تھے اور پرستار بھی۔ سلیم احمد مرحوم سے مل کر انہیں اپنا ''کلام‘‘ سنانے والوں میں مبتدی بھی شامل تھے اور کہنہ مشق شعرا بھی‘ مگر اُن کا گھر بنیادی طور پر مکالمے کے لیے تھا۔ جانے پہچانے ادبی (اور کبھی کبھی سیاسی یا حالاتِ حاضرہ سے متعلق) موضوعات پر خاصی وقیع اور جامع گفتگو ہوا کرتی تھی اور اس گفتگو میں انتہائی فعال کردار خود سلیم احمد صاحب کا ہوا کرتا تھا۔ استادِ محترم رئیسؔ امروہوی کا دولت کدہ بھی ہر اُس انسان کا اپنا گھر تھا ‘جو ادب کے کسی بھی پہلو سے لگاؤ رکھتا ہو۔ فرق صرف یہ تھا کہ سلیم احمد مرحوم کے برعکس رئیسؔ صاحب خاموش رہنے کو ترجیح دیتے تھے اور دس پندرہ افراد کی موجودگی اور اُن کے محوِ گفتگو ہونے (یعنی اچھے خاصے شور) کے باوجود رئیسؔ صاحب اپنا کام کرتے تھے۔ اس یومیہ گھریلو محفل میں وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے پائے گئے۔
رئیسؔ امروہوی کی خدمت میں حاضر ہونے والوں میں کہنہ مشق شعرا بھی ہوتے تھے اور مبتدی بھی۔ مبتدی جو کچھ بھی اُلٹا سیدھا کہہ لیتے تھے ‘وہ کاغذ کے پُرزے پر لکھ کر مانک جی سٹریٹ‘ گارڈن ایسٹ میں رئیسؔ صاحب کے ''عوامی دربار‘‘ کا رخ کرتے ‘تاکہ اُن کی سماعت کی نذر کرکے اپنے اضطراب کا گراف نیچے لائیں۔ جب کوئی نوجوان شعر کہنا شروع کرتا ہے تب دو باتوں کا آرزو مند رہتا ہے ؛ اول تو یہ کہ کوئی اُس کی کاوش کو سُن لے اور دُوم یہ کہ سُننے کے بعد داد بھی دے۔ رئیسؔ صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ ہر مبتدی کو اپنے گھر کی ایک راہداری میں منعقد ہونے والی یومیہ نشست میں ''نتائجِ طبع‘‘ کے اظہار کا موقع عطا کرتے تھے اور کسی نہ کسی طور داد دے کر حوصلہ بھی بڑھاتے تھے۔ یہ 1985ء تا 1988ء کی بات ہے۔ وہ خاکسار کی مشقِ سخن کا ابتدائی زمانہ تھا۔ مشقِ سخن بھی پورے ذوق و شوق سے جاری تھی اور اخبارات کیلئے لکھنے کا سلسلہ تب تک شروع ہوچکا تھا۔ شعر گوئی کی ابتداء 1980ء میں ہوئی تھی۔ 1985ء تک اللہ کے فضل و کرم سے اتنی ''لیاقت‘‘ پیدا ہوچکی تھی کہ جو کچھ بھی کہا ہو‘ وہ بلا جھجک‘ یعنی شرمسار ہوئے بغیر اساتذہ کو سُنادیا جائے! اور جب سُننے والوں میں رئیسؔ امروہوی سرِفہرست ہوں تو سوچیے کہ سُنانے والے کس کیفیت سے سرشار ہوتے ہوں گے۔ خاکسار بھی جو کچھ کہتا تھا ‘وہ خاصے جوش و خروش کے ساتھ رئیسؔ صاحب اور اُن کی محفل میں موجود دیگر کہنہ مشق شُعراء کو سُنادیا کرتا تھا اور کبھی کبھی کماحقہ یا من چاہی داد بھی مل جاتی تھی۔
ہر شعبے کی طرح علم و فن کی دنیا میں بھی اس بات کی غیر معمولی اہمیت ہے کہ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بروقت تحسین ہی سے نئے آنے والوں کو بہتر کام کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ دنیائے سخن میں ایسے اساتذہ کم ہی پائے جاتے ہیں‘ جو نئے آنے والوں کا خیر مقدم کریں اور انہیں کچھ نیا کرنے کی تحریک دیں۔ سلیم احمد‘ رئیسؔ امروہوی اور حمایت علی شاعرؔ اس حوالے سے روشن مثال کی سی حیثیت اختیار کیے رہے۔ لاہور میں جو کام محترم ظفرؔ اقبال نے کیا ‘وہی کام کراچی میں اِن مشاہیر نے کیا اور خوب کیا۔ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی ہی ادبی ماحول کو پروان چڑھاتی ہے۔
ایک دور تھا کہ مشاعروں میں صدرِ محفل کا کردار خاصا روایتی قسم کا ‘یعنی بے جان سا ہوا کرتا تھا۔ کم ہی اساتذہ (یعنی تسلیم شدہ استاد شعرا) ایسے ہوتے تھے‘ جو مشاعرے میں مسندِ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر اچھے شعر پر یہ دیکھے بغیر داد دیتے تھے کہ شعر کسی کہنہ مشق شاعر کا ہے یا مبتدی کا۔
منظرؔ ایوبی کی صدارت میں خاکسار کو متعدد مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔ بزمِ تقدیس ادب کے روحِ رواں احمد سعید خان‘ سید آصف رضا رضوی‘ فیاض علی‘ علی اوسط جعفری اور عظیم انور ماہانہ شعری نشست (غزل مشاعرے) کی صدارت کے لیے کبھی اعجازؔ رحمانی مرحوم کو زحمت دیا کرتے تھے اور کبھی فہیمؔ جارچوی مرحوم کو۔ سہیلؔ غازی پوری بھی صدرِ محفل بنائے گئے۔ اس ماہانہ غزل مشاعرے کے لیے مسندِ صدارت اگر پکّی تھی تو منظرؔ ایوبی کے لیے۔ سبب اس کا یہ تھا کہ وہ مسندِ صدارت پر غیر معمولی تحرّک کا مظاہرہ کرتے تھے۔ پورے مشاعرے کے دوران وہ ہشّاش بشّاش رہتے تھے۔ ہر اچھے شعر پر دل کھول کر داد دیتے تھے اور کسی بھی حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ منظرؔ ایوبی مصرع اٹھانے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ یوں ماحول تازہ اور جوشیلا رہتا تھا۔ جب صدرِ محفل بروقت اور کماحقہ داد دے رہا ہو تو شرکائے محفل بھلا التفات کا مظاہرہ کیوں نہ کریں؟ یوں مشاعرے میں جان پڑ جاتی تھی۔ منظرؔ ایوبی اپنے فنی قامت کے ساتھ ساتھ وسعتِ قلب و نظر اور زندہ دلی کیلئے بھی مدتوں یاد رہیں گے!