زندگی کسی نہ کسی طور گزر ہی جاتی ہے۔ زندگی کی یہی خصوصیت بہت سوں کو ناکارہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر طرح کے ماحول میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے بغیر جیتے رہتے ہیں۔ اِن کا جینا اِن کے اپنے کام کا ہوتا ہے نہ کسی اور کے لیے کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ سانسوں کی گنتی پوری ہونے تک کسی واضح مقصد کے بغیر زندہ رہنا بجائے خود سب سے بڑی ناکامی ہے مگر یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک کم ہی لوگوں کو ہو پاتا ہے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ فکر و عمل سے مراد ہے پوری سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ سوچنا اور پھر سوچے ہوئے پر عمل بھی کرنا۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے مخلص ہو۔ اِخلاص سے مراد یہ ہے کہ انسان زندگی کو سب سے بڑی نعمت گردانتے ہوئے اُس کا حق ادا کرے‘ اپنے لیے بھی کچھ کرے اور دوسروں کے کام آنے کے لیے بھی کوشاں ہو۔ افکار و اعمال میں ہم آہنگی انسان کو حقیقی مفہوم میں کارآمد بناتی ہے۔ ہم زندگی بھر سوچتے ہیں‘ محنت کرتے ہیں مگر پھر بھی کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اِخلاص بھی کم نہیں ہوتا۔ تو پھر من چاہی کامیابی کیوں نہیں ملتی؟ بہت محنت کرنے پر بھی من چاہی کامیابی کا نہ ملنا ایسی حقیقت نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ حقیقی کامیابی کم و بیش تمام معاملات میں ہم آہنگی اور توازن چاہتی ہے۔ ہم بالعموم ایسا نہیں کر پاتے یا اِس پہلو پر غور ہی نہیں کرتے اِس لیے بہت کوشش کرنے پر بھی کچھ زیادہ بھلا نہیں ہو پاتا۔
عمومی سطح پر ہم میں سے بیشتر کی ایک بنیادی غلطی یہ ہے کہ کسی نہ کسی حوالے سے کوئی آسرا تلاش کیا جاتا رہتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بہت سے کام غیر معمولی غور و فکر اور محنت کے بغیر ہو جائیں۔ فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ اچانک کہیں سے کوئی آتا ہے اور مشکلات دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ فلموں میں ایسے مناظر عمومی نفسیات کے اصولوں کے تحت شامل کیے جاتے ہیں۔ فلم بینوں کی اکثریت ایسی فلموں کو پسند کرتی ہے جو بہت حد تک اُن کی خواہشات کا عکس ہوں۔ بیشتر خواہشات غیر منطقی ہوتی ہیں کیونکہ ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ ہمارے بہت سے کام سوچنے اور منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزر کر کی جانے والی محنت کے بغیر ہوجائیں۔
تساہل یا آرام طلبی فطری سی چیز ہے۔ اِس خواہش کے آگے سِپر ڈالنے کے بجائے عمل کی تلوار لے کر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانے کی خواہش اُسی انسان میں پروان چڑھ سکتی ہے جو فکر و عمل کی ہم آہنگی پر یقین نہ رکھتا ہو۔ ماحول انسان پر اچھا خاصا اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ بھی بالکل فطری بات ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے‘ سُنتے اور پڑھتے ہیں اُس کے اثرات قبول کرتے جاتے ہیں۔ ہماری نفسی ساخت میں ایسا بہت کچھ شامل ہوتا جاتا ہے جو ماحول کا بخشا ہوا ہوتا ہے اور ہم اس معاملے میں محض ''ریسیونگ اینڈ‘‘ پر رہنا پسند کرتے ہیں۔
کیا زندگی اِس طور گزاری جاسکتی ہے؟ یقیناً کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہی ہے۔ لوگ دوسروں کے خیالات کے اثرات قبول کرکے بھی زندہ رہتے ہیں۔ خود کو عمل کے لیے تیار کرنے کے بجائے وہ محض ردِعمل کی منزل میں رہتے ہیں اور جو کچھ بھی ہوتا اور ملتا رہے اُسے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ کرنے کے بجائے جو کچھ ہو رہا ہو اُسی پر قانع رہنا‘ اکتفا کرنا زندگی کی توانا علامت ہرگز نہیں۔ اس عادت کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ یہ ایک ایسے دریا میں تبدیل ہوتی جاتی ہے جس کے ریلوں میں ہمارا ذوق و شوقِ عمل خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے۔ بات بات پر دوسروں سے مدد کی امید رکھنا‘ بلکہ مدد طلب بھی کرنا کسی بھی اعتبار سے انسانیت کی شان نہیں۔ دوسروں سے مدد صرف اُس وقت چاہی اور مانگی جاسکتی ہے جب اپنی صلاحیت و سکت جواب دے گئی ہو اور وسائل کی حد آگئی ہو۔ کسی بھی بحرانی کیفیت کے وارد ہوتے ہی اُس سے نجات کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا کسی بھی اعتبار سے کوئی اچھا طریقِ فکر و عمل نہیں۔ بحرانی کیفیت یا پریشانی کو تھوڑا بہت برداشت کرنا لازم ہے تاکہ غور و فکر کا موقع ملے اور دوسروں کی نظر میں بھی وقعت رہے کہ مدد مانگنے کے بجائے معاملات کو اپنی مساعی سے درست کرنے کی راہ پر گامزن ہوا جارہا ہے۔ اپنی طرف سے پوری کوشش یعنی اتمامِ حُجّت لازم ہے۔ ایسا کرکے ہی ہم ڈھنگ سے کچھ سوچ اور کرسکتے ہیں۔
معاشرہ مل کر رہنے سے ترتیب پاتا ہے۔ اگر لوگ الگ الگ رہیں تو معاشرے کا مفہوم ہی باقی نہ رہے۔ مل جل کر رہنا اس لیے لازم ہے کہ کوئی بھی انسان تنہا زندگی کے تمام تقاضے نبھا نہیں سکتا۔ بہت سے معاملات میں دوسروں سے مدد لینا لازم ٹھہرتا ہے۔ یہ فطری عمل ہے۔ آسان الفاظ میں اِسے اشتراکِ عمل کہا جاسکتا ہے۔ اشتراکِ عمل یعنی مل جل کر کام کرنا۔ مل جل کر کام کرنے اور ہر معاملے میں دوسروں کے آسرے پر زندگی بسر کرنے میں وہی فرق ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان ہے۔ ہم زندگی بھر دوسروں کے اعمال کے ضرورت مند رہتے ہیں۔ یہ کوئی بُری بات نہیں۔ دوسرے بھی تو ہمارے اعمال کے ضرورت مند رہتے ہیں۔ معاشرت اِسی کا نام ہے۔ مل جل کر رہنے کو غلط مفہوم کا لبادہ نہیں اُوڑھانا چاہیے۔ ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ معاملات کو درست کرنے کی اپنی سی کوشش کرے۔ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے لاکر اپنے مسائل کو حل کرنے میں قدرت نے غیر معمولی قلبی اطمینان رکھا ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی زندگی کا حقیقی لطف جانتے ہیں۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ بہ کثرت ہیں جو فکر و عمل کی ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہوئے مصروفِ جہد رہتے ہیں۔ ہر انسان کو اصلاً تو اپنے ہی بل پر جینا چاہیے۔ اِسی طرزِ فکر و عمل سے زندگی کی شان ہے۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ مشکل گھڑی میں خود کو منظم رکھنا فن ہے اور ہر انسان یہ فن سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ عمومی سطح پر بیشتر کا یہ حال ہے کہ ذرا سی پریشانی سے بھی بے حواس ہو اُٹھتے ہیں‘ ذہن کام کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ غور و فکر سے راہ سُوجھتی ہے مگر جب غور و فکر کی صلاحیت و سکت ہی کو خیرباد کہہ دیا جائے تو؟ پھر تو چل چکی زندگی کی گاڑی۔ ہم اپنے معاشرے میں عمومی روش کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ یہی تو ہو رہا ہے۔ لوگ ہر پریشانی کو زندگی کا سب سے بڑا بحران سمجھ کر ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی بھی بحرانی کیفیت سے نمٹنے میں کامیابی اُسی وقت مل سکتی ہے جب ہم حواس منظم رکھیں اور فکر و عمل کی ہم آہنگی یقینی بنائیں۔ اس معاملے میں غیرت کا بھی اہم کردار ہے۔ عزتِ نفس کا احساس انسان کو بے جا طور پر مدد مانگنے سے باز رکھتا ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ہر بات پر خوفزدہ نہیں ہوا جاتا۔ چکبستؔ نے کہا ہے ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کُھلتے ہیں
مبارک بُزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
کوئی بھی بحرانی کیفیت اِس لیے نہیں ہوتی کہ گھبراکر موت کی آرزو کی جائے۔ زندگی سے محبت کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے مسائل کو اپنی صلاحیت و سکت کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مدد صرف اس وقت لینی چاہیے جب ایسا کرنا ناگزیر ہو۔ مانگے تانگے کی زندگی کسی بھی درجے میں حقیقی زندگی نہیں ہوتی۔ اللہ نے ہمیں زندگی کی شکل میں جو نعمت عطا کی ہے اُس کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ یہ حق ادا کرنے کی ایک اچھی صورت یہ ہے کہ ہر طرح کے معاملے میں اپنی صلاحیت و سکت پر بھروسا کیا جائے اور دوسروں کو زحمتِ کار دینے سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ دوسروں کے بل پر جینے سے عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے اور وسیع تر مفہوم کے حوالے سے غور کیجیے تو یہی انسان کا سب سے بڑا ارضی نقصان ہے۔