زمانے کیا بدلتے ہیں‘ نظریں بھی بدل جاتی ہیں اور دوستیاں بھی۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے‘ جب زمانہ کروٹ بدلتا ہے تو بہت کچھ اُلٹ‘ پلٹ جاتا ہے۔ اب‘ پھر زمانہ بدل رہا ہے۔ ویسے تو خیر زمانہ کب نہیں بدلتا‘ مگر جب بہت بڑے پیمانے پر کچھ ہوتا ہے‘ تب ہی یہ احساس دامن گیر ہوتا ہے کہ کچھ ہو رہا ہے۔ ایک زمانے کے بعد کسی حقیقی‘ بڑی تبدیلی کے آثار ہویدا ہوئے ہیں۔ دنیا نے مختلف ادوار میں مختلف طاقتوں کے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں۔ ایک صدی کے دوران بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پہلے یورپ ہر معاملے پر متصرّف دکھائی دے رہا تھا‘ پھر امریکا آیا اور چھاگیا۔ سابق سوویت یونین کی شکل میں چند یورپی ریاستیں متحد ہوکر امریکا کے سامنے کچھ دیر ڈٹی رہیں‘ مگر پھر وہ زمینی حقیقتوں کا سامنا نہ کرسکیں اور وقت کے ایک جھٹکے میں اُن کا بھی کام تمام ہوگیا۔ تب سے اب تک امریکا بے لگام ہے اور بہت حد تک یورپ بھی ایسی ہی کیفیت کا حامل رہا ہے۔ نشانے پر مسلم دنیا ہے۔ منظم سازش اور غیر معمولی منصوبہ سازی کے تحت اسلام کو مغربی تہذیب کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کیا گیا ہے ‘تاکہ مخاصمت محض مخاصمت نہ رہے‘ نفرت میں تبدیل ہو اور بھرپور رنگ لائے۔
وقت نے کروٹ بدلنے کی ٹھانی ہے تو وہی سب کچھ ہو رہا ہے‘ جو ایسے لمحات میں اب تک ہوتا آیا ہے۔ ہر کمزور پڑتی ہوئی سلطنت ‘یعنی سپر پاور اپنے آپ کو بچانے اور اپنی طاقت برقرار رکھنے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارتی ہے۔ امریکا بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔ یورپ نے حقیقت کو بہت حد تک سمجھ بھی لیا ہے اور قبول کرنے کے معاملے میں بھی اُسے زیادہ تامّل نہیں۔ یورپی قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالات بہت بدل چکے ہیں۔ اب ‘اگر وہ پچاس سال پہلے کے مائنڈ سیٹ کے ساتھ جئیں گے تو اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔ یورپ میں آبادی میں اضافے کی رفتار خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔ بوڑھوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ درمیانی عمر کے لوگوں میں تن آسانی بڑھ رہی ہے اور وہ آبادی میں اضافے کے حوالے سے بھی سنجیدہ نہیں۔ ایسے میں افرادی قوت کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ یورپ کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔ اس کی مجموعی عسکری طاقت گھٹتی جارہی ہے۔ وہ ہر خطے پر متصرّف ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہی سبب ہے کہ یورپی قائدین نے راستہ بدلتے ہوئے نرم قوت کو ترجیحات میں سرفہرست رکھنا شروع کردیا ہے۔ علم‘ فن اور تجارت و ثقافت کے ذریعے خود کو نمایاں کرنا اور دوسرے خطوں سے معاملت کرنا اب‘ یورپ کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ یورپی قائدین چاہتے ہیں کہ ہر فضول عسکری مہم جوئی سے گریز کیا جائے اور عصری علوم و فنون میں پیش رفت کے ذریعے اپنی بات منوانے اور زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
امریکا نے معاملات کو سمجھنے میں واضح غلطی کردی ہے۔ جب بھی کسی بڑی طاقت کا معاملہ گڑبڑانے لگتا ہے‘ تب عقلِ سلیم کا سہارا لے کر طاقت کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر معاملے میں عسکری قوت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ انیسویں صدی کے اواخر میں یورپ کی طاقت جب گھٹنے لگی‘ تب امریکا کو ابھرنے کا موقع ملا۔ ایسے میں امریکی قائدین کے سروں میں خنّاس کا سما جانا کچھ زیادہ حیرت انگیز نہ تھا۔ یورپ نے اپنا راستہ اُس وقت بھی بدلا تھا اور ثقافتی برتری کا دائرہ وسیع تر کرنے پر توجہ دی تھی۔ تب بہت کچھ ایجاد ہونا باقی تھا۔ یورپ نے ایجادات کو محض عسکری قوت میں اضافے کا ذریعہ نہیں بنایا‘ بلکہ نئی منصوبہ سازی کے ساتھ ثقافتی برتری یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی۔ یورپی اقوام‘ چونکہ منظم معاشرے رکھتی تھیں اور ان کی تاریخ بھی تھی ‘اس لیے انہوں نے زیر نگیں خطوں پر محض مظالم ڈھانے اور اُنہیں دبوچنے پر اکتفا کرنا کافی نہ سمجھا ‘بلکہ ثقافتی برتری کا حصول یقینی بنانے کو بھی ترجیحات میں شامل کیا۔ یہی سبب ہے کہ آج یورپ بہت سے معاملات میں واضح ثقافتی برتری کا حامل ہے اور اس برتری کے فوائد بھی بٹور رہا ہے۔ تعلیم ہی کو لیجیے؛ اس میدان میں یورپ دنیا بھر کی پس ماندہ اور ابھرتی ہوئی اقوام کے لیے نمونہ ہے۔ بنیادی سہولتوں اور علم دوست ماحول کے اعتبار سے یورپ اب بھی باقی دنیا کے لیے انتہائی پرُکشش ہے۔
امریکا اس معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اُس کی طرف لپکنے والے صرف معاشی فوائد بٹورنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ کوئی بھی امریکا کو کسی اعتبار سے قابلِ فخر اور اطمینان بخش نمونہ نہیں سمجھتا۔ امریکا کا رخ کرنے کی خواہش اس لیے ہے کہ وہ واحد سپر پاور ہے۔ امریکی قیادت کو اس بات کا شدت سے احساس ہوچلا ہے کہ ثقافت کے حوالے سے بہتر پوزیشن یقینی بنانے پر پالیسی میکرز نے زیادہ یا خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ امریکا کے بانیان کی سوچ یہ تھی کہ اس خطے کو باقی دنیا کے لیے آزادی اور جمہوریت کا قابلِ فخر نمونہ بنائیں۔ ابتدائی ادوار میں امریکی قائدین کی کوشش رہی کہ اُن کا ملک تمام پِسے ہوئے ممالک کے لیے ارضِ موعود ثابت ہو اور وہ ہر معاملے میں رہنمائی کیلئے امریکا ہی کی طرف دیکھیں۔ یہ ایک خواب تھا اور خواب ہی رہا۔ جب امریکا میں فطری علوم و فنون کے حوالے سے غیر معمولی پیش رفت کی راہ ہموار ہوئی‘ تب پالیسی میکرز نے باقی دنیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کی ٹھانی اور اہلِ امریکا ‘یعنی عوام محض تماشا دیکھتے رہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک امریکا اچھا خاصا طاقتور ہوچکا تھا۔ تب یورپ میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہو رہا تھا۔ یورپی طاقتوں کی باہمی رقابت نے پہلی جنگ ِ عظیم کو راہ دی ‘جس نے یورپ کی عسکری و سیاسی برتری کی بنیاد ہلا ڈالی۔ رہی سہی کسر دوسری عالمی جنگ نے پوری کردی۔ یورپ کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا۔ دوسری جنگ ِعظیم نے یورپی طاقتوں کو اس قابل نہ چھوڑا کہ کئی خطوں پر اپنا تصرّف برقرار رکھ سکیں۔ اب‘ امریکا کے ابھرنے اور سب سے بڑی طاقت کا روپ دھارنے کی باری تھی۔ یہی ہوا۔ یورپی طاقتوں کی تباہی نے امریکا کو عالمی سیاست و معیشت میں خطرناک حد تک ابھرنے اور بیشتر معاملات پر متصرّف ہونے کا موقع فراہم کردیا۔
اب ‘چین کی شکل میں ایک بڑا حریف سامنے آیا ہے تو امریکا کا اعتماد بھی ڈگمگا رہا ہے۔ بہت کچھ ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ اپنی برتری کسی نہ کسی طور برقرار رکھنے کے لیے امریکا جو کچھ بھی کرسکتا ہے‘ کر رہا ہے۔ ہاں! اس معاملے میں بدحواسی نمایاں ہے۔ جن ممالک نے امریکا کے خوانِ نعمت سے وابستہ رہنے میں عافیت جانی تھی‘ اُنہیں ساتھ ملائے رکھنے کو امریکی پالیسی میکرز ترجیح نہیں دے رہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکا کے اتحادی قرار پانے والے اب بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ امریکی پالیسی میکرز اُنہیں اہمیت دیں۔ پاکستان ہی کو لیجیے؛ ہماری ہر دور کی قیادت نے امریکا کے دامن سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی‘ مگر جواب میں ملا کیا؟ صرف ذِلّت‘ یہ روش اب بھی ترک نہیں کی جارہی‘ جس نے امریکا کا ساتھ دیا ہے اور اُس کا اتحادی یا پارٹنر رہنے کو ترجیح دی ہے‘ اُسی کو امریکی قیادت نے ڈسا ہے۔ ہمارا بھی وہی حشر ہوا ہے ‘جو دوسرے امریکی پارٹنرز کا ہوتا رہا ہے۔ ع
اُس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کِیا ذلیل
خیر‘ وقت آگیا ہے کہ ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کیا جائے اور نئے اہداف مقرر کیے جائیں۔ امریکا اور یورپ سے تعلقات پر ہمارے پالیسی میکرز کو بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔ نئی ابھرتی ہوئی قوتوں اور بالخصوص چین کے حوالے سے نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کا ساتھ دینے والوں نے کیا پایا ہے؟ اپنے علاج کے لیے امریکا سے رجوع کرنے والوں کا حال تو یہ ہوا ہے کہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ فانیؔ بدایونی نے خوب کہا ہے ؎
بیمار تِرے جاں سے گزر جائیں تو اچھا
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں‘ یہ مر جائیں تو اچھا
ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ جو تاحال جاں بلب ہیں‘ وہ اپنی سوچ بدلیں‘ یعنی چارہ گر کی تبدیلی کے مرحلے سے گزریں!