فکری ارتقا کے ڈھائی تین ہزار سالہ دور میں انسان نے جو کچھ بھی پایا تھا وہ بہت حد تک ٹھکانے لگ چکا ہے۔ اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ یہ محض شکوہ نہیں، حقیقت ہے۔ بیسویں صدی انقلابات کی صدی تھی اور اکیسویں صدی اُس سے کئی قدم آگے ہے۔ یورپ نے ظلمت سے نجات پانے اور عہدِ تیرگی کو خیرباد کہنے کے لیے علم کی شمع جلائی تو بہت کچھ بدلا۔ آٹھویں سے پندرہویں صدی عیسوی کے اوائل تک مسلمانوں نے دنیا کو فکر و عمل کے حوالے سے بہت کچھ دیا۔ تب تک کی دنیا کے لیے مسلمانوں کا دیا ہوا علم و فن کافی تھا۔ مسلمانوں نے محض علوم و فنون تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ فکر و نظر کے میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
جب مسلمانوں نے زوال کا منہ دیکھا تو دنیا نے مغرب کی تابندگیٔ فکر کا دیدار کیا۔ یہ بھی ایک طویل سفر ہے۔ اہلِ مغرب نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے، بہت کچھ کیا ہے۔ اہلِ مغرب نے پندرہویں صدی سے اب تک جو کچھ بھی کر دکھایا ہے وہ بہت خوب سہی مگر خالص مادّہ پرستی کا مظہر ہے۔ اس میں مذہب بیزاری کا عنصر نصف النہار کے سورج کی طرح نمایاں ہے۔ یورپی اہلِ علم کا مادّی علوم و فنون کی طرف انقلابی انداز سے متوجہ ہونا محض مقتضائے فطرت نہ تھا بلکہ پاپائیت کے خلاف شدید ردِعمل کا نشان بھی تھا۔ پاپائیت نے کم و بیش پورے یورپ کو جس بھونڈے اور سفّاک انداز سے جکڑ رکھا تھا اُس کے نتیجے میں ویسا ہی ردِعمل ظاہر ہونا تھا‘ جیسا ہوا۔
مغرب نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ معاملہ محض فطری علوم و فنون تک محدود نہیں رہا۔ خالص فکری سطح پر بھی مغرب کے اہلِ علم نے دنیا کو بہرہ مند کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغرب میں فطری علوم و فنون کے حوالے سے غیر معمولی جوش و جذبے کے ساتھ متحرک ہونا چونکہ پاپائیت کا ردِعمل تھا اس لیے فطری علوم و فنون میں پیشرفت کے بطن سے خالص مادّہ پرستی نے جنم لیا۔ اور فکر و نظر کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جب مادّہ پرست ذہنیت نے ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے پختگی پائی تو الحاد کا ظہور ہوا۔ یہ الحاد اپنے آپ میں مطلوب و مقصود نہ تھا بلکہ محض ردِعمل کا ثمر تھا۔ پاپائیت نے صدیوں تک جو مظالم ڈھائے تھے اُن کے سدِباب کے لیے اہل مغرب کو عملی سطح پر جو کچھ کرنا تھا وہی انہوں نے کیا۔
مشکل یہ ہے کہ جو کچھ بھی انسان نے تین ہزار سال سے زائد مدت کے دوران علمی یا فکری سطح پر جمع کیا تھا وہ سب کچھ مادّہ پرستی کے آستانے پر سجدہ ریز ہوچکا ہے یا کردیا گیا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر اس جنتر منتر سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ آج کا انسان بہت عجیب دو راہے پر کھڑا ہے۔ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر جو کچھ بھی کیا جاسکتا تھا وہ کرلیا گیا ہے۔ انسان کو بہتر اور آسان زندگی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ درکار ہوا کرتا ہے وہ سب کچھ میسر ہے۔ ہر دور کے انسان نے جن سہولتوں کے صرف خواب دیکھے تھے وہ تمام سہولتیں حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ مگر ایک حقیقت اور بھی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ حقیقت ہے تمام اقدار کا بدل جانا۔ اقدار خود نہیں بدلتیں، انسان ان کے حوالے سے سوچ بدل لیتا ہے۔ پانچ صدیوں کے دوران غیر معمولی مادّی ترقی نے انسان کو اس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں سے تشکیک کی حدیں صرف شروع نہیں ہوتیں بلکہ انسان کو بہت آگے بھی لے جاتی ہیں۔ آج کا انسان بہت کچھ پاکر بھی بہت کچھ کھوچکا ہے۔ یہ عجیب کیفیت ہے۔ جو کچھ مل چکا ہے وہ بہتر زندگی یقینی بنانے کے لیے کافی ہے مگر معاملہ ہے کہ الجھتا ہی جارہا ہے ع
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں اختیار میں
آج کا انسان ہزار سال پہلے کے انسان کے بارے میں پڑھتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سی سہولتوں کو ترستے ہوئے بھی وہ بہت اچھی زندگی گزارتا تھا۔ اہلِ مغرب نے اب تک یہی تعلیم پائی ہے اور دی ہے کہ اس دنیا میں ہمارا قیام اس لیے ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسرت یقینی بنائی جائے اور اس کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ یہ سوچ زندگی کو عجیب ہی رنگ دیتی چلی گئی ہے۔ اہلِ مغرب نے اپنے دورِ تصرّف و تسلط میں صرف ایک نکتے کو اہمیت دی ہے‘ یہ کہ اس دنیا میں جس قدر بھی رہنا ہے وہ مدت ہر اعتبار سے پُرمسرّت ہونی چاہیے، چاہے اِس کے لیے سبھی کچھ داؤ پر لگانا پڑے۔ اور یوں سبھی کچھ داؤ پر لگادیا گیا۔ مغربی طرزِ فکر و عمل میں دنیا پرستی بالکل نمایاں ہے۔ جس سوچ کے ساتھ فطری علوم و فنون کو اپنایا گیا تھا اُس کا یہی نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا۔
انسان جن اقدارکے ساتھ ڈھنگ سے زندگی بسر کرتا آیا تھا وہ اب برائے نام رہ گئی ہیں۔ انسان کے پاس بہت کچھ نہیں تھا مگر پھر بھی بہت کچھ تھا۔ یہی اُس کے لیے تسکینِ قلب کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ خاندانی نظام، شادی کا ادارہ، اخلاقی حدود و قیود سے متصف اختلاطِ مرد و زن، حلال و حرام کی تمیز کے ساتھ معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں، چھوٹوں سے شفقت بھرا سلوک، بزرگوں کا احترام ... کیا تھا جو انسان کے پاس نہیں تھا۔ اور اب کیا رہ گیا ہے؟ سنجیدہ ہوکر سوچیے تو اپنے ہی وجود سے وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ ؎
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
پہلے تو کبھی دل کو یہ آزار نہیں تھے
انسان کے لیے اِس سے زیادہ المناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ بہتر زندگی کے لیے درکار تمام سہولتوں کا حامل ہو مگر بہتر اور پُرسکون زندگی بسر کرنے کے قابل نہ رہے؟ آج کے انسان کا یہی تو المیہ ہے۔ فکر و نظر کے حوالے سے جتنا بھی سرمایہ تھا وہ پرلے درجے کی مادّہ پرستی کی چوکھٹ پر قربان کیا جاچکا ہے۔ کسی نہ کسی طور لہو و لعب میں لتھڑی ہوئی زندگی یقینی بنانے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ مغرب کے فکری و ثقافتی اثرات نے کئی خطوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ نقصان خالص علمی، شعوری اور روحانی سطح پر ہے۔ آج دنیا بھر میں مادّہ پرست ذہنیت کا چلن ہے تو اِس کا منبع مغرب ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس روش پرگامزن رہنے کے نتیجے میں مغرب نے جو کچھ بھگتا ہے‘ وہ بھی دنیا نے دیکھ لیا ہے مگر کچھ سیکھا نہیں۔ اخلاقی و روحانی اقدار سے یکسر محرومی کے باعث اہلِ مغرب کی واضح اکثریت نے یکسر بے لگام زندگی کو مطلوب و مقصود کی حیثیت سے یوں قبول کرلیا ہے کہ اب اِسے ترک کرنے کا تصور بھی افق پر کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ روئے ارض پر گزارے جانے والے لمحات کو مجموعی طور پر واقعی زندگی سمجھ لینے کی روش دوسرے بہت سے خطوں نے بھی اپنالی ہے اور اب اُن کے لیے بھی وہی خرابیاں اور پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں جو اہلِ مغرب کے لیے پیدا ہوئی تھیں۔
اصل مصیبت یہ ہے کہ آج کا انسان اخلاقی و روحانی اقدار سے محرومی کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ہم جس میں جی رہے تھے وہ دنیا کوئی اور تھی۔ فکر و نظر کے وہ پیمانے نہیں، سوچنے اور اندازہ لگانے کے وہ زاویے ہی نہیں ع
خاک اُڑائی جس میں برسوں اب وہ صحرا ہی نہیں
انسان کو واپس آنا ہے۔ یہ واپسی فکر و نظر اور اقدار کی جڑوں کی طرف ہونی چاہیے۔ مادّی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھ کر سرمایۂ فکر و نظر اِس کے آستانے پر قربان کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندی نہیں۔ حقیقی دانش کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے مقصدِ تخلیق پر غور کرے، اِس دنیا میں قیام ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لے بلکہ اُس دنیا کی فکر کرے جس میں اُسے ہمیشہ رہنا ہے مگر اِس سے پہلے اپنے رب کے حضور اپنے افکار و اعمال کے حوالے سے جواب دہ بھی ہونا ہے۔