"MIK" (space) message & send to 7575

عادی مجرم

آج کا انسان کیسے عجیب بکھیڑے میں پھنس گیا ہے۔ وقت ہے کہ یا تو گزرتا نہیں یا پھر ایسی تیزی سے گزر جاتا ہے کہ اُس کا کوئی سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ اکیسویں صدی کا انسان بہت سے معاملات کا ملغوبہ ہے۔ ایک طرف وہ انتہائی سفّاک ہے کہ کسی بھی معاملے میں جذبۂ ترحم دکھانے کا عادی نہیں اور دوسری طرف انتہائی قابلِ رحم ہے کہ دوسروں کے رحم و کرم پر بھی رہتا ہے اور یوں بہت سے معاملات پر اُس کا کوئی اختیار ہے ہی نہیں۔
آج کے ہر معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی پیچیدہ معاملات کے جنتر منتر میں پھنس گیا ہے۔ یہ زندہ طلسمات ہے۔ مڑ کر دیکھنے والے اگر پتھر کے نہیں بھی ہو جاتے تو کم از کم انسان نہیں رہتے، کچھ اور ہی بن کر سامنے آتے ہیں۔ طلسمات کی دنیا کیا ہوتی ہے؟ وہ کہ جو سمجھ ہی میں نہ آئے۔ کہانیوں میں ہم جس طلسمات کے بارے میں پڑھتے آئے ہیں وہ ایسا ہی تو ہوا کرتا تھا۔ پل میں کچھ اور پل میں کچھ؎
ابھی سُکھ ہے، ابھی دکھ ہے،
ابھی کیا تھا، ابھی کیا ہے 
یونہی دنیا بدلتی ہے، اِسی کا نام دنیا ہے 
آج کی دنیا بھی طلسمات سے کم نہیں۔ اور آج کا پاکستان؟ وہ بھلا کیوں طلسمات نہ کہلائے؟ کہانی عجیب موڑ پر آکر رک سی گئی ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے۔ ع 
ہم اپنے پیروں میں جانے کتنے بھنور لپیٹے ہوئے کھڑے ہیں 
پھر اچانک یہ محسوس ہوتا ہے کہ وقت تو ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ آج کا انسان وقت کے معاملے میں عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وقت کی تنظیم کس طور کرے۔ وقت کی تنظیم؟ یہ بھی دل کو بہلانے والا ہی ایک خیال ہے۔ ہم وقت کی تنظیم و تطبیق نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو منظم کرنے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طور وقت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جاسکے۔ 
وقت سے بڑھ کر کوئی دولت تھی نہ ہے۔ اور ہو بھی نہیں سکتی۔ ہو بھی کیسے؟ انسان کے پاس وقت کے سوا کچھ ہے ہی نہیں اور اُسے بھی اِس طور صرف کرنا ہے کہ بعد میں پچھتاوے کی گنجائش نہ رہے۔ افسوس اگر ہے تو صرف اس بات کا کہ آج بھی انسان نے یہ نہیں سیکھا کہ وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کس طور ممکن ہے۔ ہر دور کے انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی تو رہا ہے۔ وقت سے کماحقہٗ استفادے کی صلاحیت پیدا کرنا چند دنوں یا کسی خاص مدت کی بات نہیں۔ یہ زندگی بھر کی مشق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عمر کے کسی خاص مرحلے میں ہم وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لائیں اور پھر زندگی بھر اس کا پھل کھاتے رہیں۔ وقت کو اگر ڈھنگ سے صرف کرنا لازم ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ 
اب آئیے! اس نکتے کی طرف کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کیا کر رہی ہے۔ ہر معاشرے اور ہر طرح کے ماحول میں چند ''عادی مجرم‘‘ پائے جاتے ہیں۔ یہ عادی مجرم واقعی ''جرم پسند‘‘ ذہنیت رکھتے ہیں اور عادی بھی ہوتے ہیں۔ یہ جرم پسند ذہنیت ایسی ہے جس کا تعلق آپ کے مفادات کو ذبح کرنے سے ہے۔ جی ہاں! جب بھی آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے ذہن کو کچھ سکون ملنا چاہیے تب یہ عادی مجرم آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ یہ عادی مجرم صرف ایک شوق پالتے ہیں... اپنے وجود کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کے معاملے میں بلا جواز مداخلت یقینی بناتے ہوئے اُن کا وقت ضائع کرنا۔ دوسرے بہت سے پسماندہ معاشروں کی طرح ہمارے ہاں بھی دوسروں کا وقت ضائع کرنے کا مرض خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے اور غیر معمولی حد تک پھیلا ہوا ہے۔ ہم زندگی بھر اس مرض سے لڑتے رہتے ہیں۔ وقت ضائع کرنے کی عادت کسی نہ کسی حد تک اکثریت میں پائی جاتی ہے۔ یہ معاملہ غیر معمولی توجہ چاہتا ہے۔ اگر پوری توجہ مرکوز نہ کی جائے تو وقت کو ضائع ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ پاکستانی معاشرے میں یہ بیماری اِتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہے کہ اب معاملات بہتر بنانے کی کوئی صورت آسانی سے دکھائی نہیں دیتی۔ 
وقت ضائع کرنے والے عادی مجرم کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جو براہِ راست حملہ کرتے ہیں یعنی آپ کی تمام مصروفیات کو یکسر بے مصرف قرار دے کر آپ سے مطالبہ کریں گے کہ اُن کے شیڈول کے مطابق چلیں۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی مصروفیت کو بھی تسلیم تو کرتے ہیں مگر اس طور کہ اپنے معاملات کو بھی اُن کے ساتھ نتھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اِسے کہتے ہیں تیکھی سوچ کے ساتھ زندگی بسر کرنا یعنی براہِ راست حملہ کرنے کے بجائے فریقِ ثانی کا ہم خیال ہوکر اُس کے معاملات سے اچھی طرح باخبر ہوجانا اور یوں موقع ملتے ہی واردات کر گزرنا۔ وقت ضائع کرنے کے شوقین غیر معمولی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ''شکار‘‘ کب بدک جائے گا اس لیے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ اُن میں معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی غیر معمولی ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ نفسی امور کے بنیادی اصولوں کے مطابق چلتے ہیں یعنی اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی کب بگڑے گا اور کھیل بگاڑ دے گا۔ یہ عادی مجرم بہت باریک کام کرتے ہیں یعنی اپنے ہدف یا شکار کو یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتے کہ اُس کے مفادات کو ضرب لگائی جارہی ہے۔ اور پھر جیسے ہی موقع ملتا ہے اِس انداز سے ''جھپٹا‘‘ مارتے ہیں کہ شکارکو ڈھنگ سے آخری سانسیں لینے کا موقع بھی نہیں ملتا! 
آج ہمارا معاشرہ ایسے عادی مجرموں سے بھرا پڑا ہے جنہیں دن رات صرف یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اپنا (کم) اور دوسروں کا (زیادہ) وقت کس طور ٹھکانے لگایا جائے۔ ایک دنیا ہے کہ وقت کے نہ ہونے کی شکایت کرتی ہے اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ''قتلِ عام‘‘ کرنے پر بھی وقت ختم نہیں ہو پاتا اور ہمیشہ یہی الجھن برقرار رہتی ہے کہ وقت کو کس طور ٹھکانے لگایا جائے۔ اب یا تو وقت ہم سے کھلواڑ کر رہا ہے یا پھر ہم کسی اور ہی کائنات کا حصہ ہیں۔ اپنے ماحول پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جائے گاکہ وقت کو ٹھکانے لگانے والے عادی مجرم جال لیے پھرتے ہیں۔ جہاں شکار دیکھا وہیں جال ڈال دیا۔ وقت ضائع کرنے کی عادت اگر اپنی ذات تک رہے تب بھی کم خطرناک نہیں۔ اور اگر معاملہ دوسروں کے وقت کو قتل کرنے کا ہو تب مالِ مفت دلِ بے رحم والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ 
وقت کے بے رحمانہ قتل پر یقین رکھنے والے شکار کو سُونگھتے پھرتے ہیں۔ یہی اُن کی زندگی ہے۔ جو کچھ نہیں کر پاتا یا کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اُس جیسے ہی ہوجائیں۔ یہ نفسی پیچیدگی معاشرے میں زیادہ پھیل جائے تو بہت سوں کی زندگی برباد ہو رہتی ہے۔ جن کے بس میں کچھ نہیں ہوتا وہ مطمئن ہوکر ناکام زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ کیفیت دوسروں میں بھی منتقل کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ ع
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے 
اپنے قیمتی وقت کو اِن عادی مجرموں سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام آپ کی طرف سے کوئی اور نہیں کرے گا۔ وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کا معاملہ سنجیدگی بھی چاہتا ہے اور خاصی سفّاکی بھی۔ سفّاکی اس لیے کہ آپ کو غیر لچک دار رویہ اپنانا ہے اور اپنے وقت کا ضیاع روکنے کے لیے تنقید یا طعن و تشنیع کی پروا کیے بغیر کچھ بھی کر گزرنا ہے۔ کسی بھی زاویے سے دیکھیے، کسی بھی حوالے سے سوچیے ... آپ پائیں گے کہ وقت ہی اصل دولت ہے۔ اِسے برباد کرنا بھی غلط اور برباد ہونے دینا بھی غلط۔ بے عملی کی برہنہ شمشیر تھام کر وقت کا قتلِ عام پر نکلے عادی مجرموں سے بچنا زندگی کی بڑی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ دھیان رہے، وقت کے دشمن سو بھیس بدلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب تک وہ سمجھ میں آئیں تب تک اُن کا کام پورا ہوچکا ہوتا ہے اور فریقِ ثانی کا کام تمام!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں