"MIK" (space) message & send to 7575

اُن کو مِرے مرنے پر آئی تو ہنسی آئی

بہت کچھ کرنے کی تمنا ہے مگر کچھ بھی نہیں ہو پارہا۔ ہم بہت پانا چاہتے ہیں مگر دل کی خواہش کے مطابق کچھ بھی حاصل نہیں ہو پارہا۔ کیوں؟ یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ اِس کا جواب ہی ہمیں راستہ دکھائے گا۔ 
غلط راستوں کا انتخاب منزل سے دور لے جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ یہی تو ہوا ہے۔ سات دہائیوں سے بھی زائد مدت کے قومی سفر میں ہم منزلوں سے دور ہوتے گئے ہیں کیونکہ راستے ہی غلط چُنے گئے تھے۔ قوموں کے ساتھ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ جب بڑوں کا ذہن بڑا نہ ہو، معاملات کی حقیقت کا ادراک نہ ہو، دل میں درد نہ ہو، حقیقت پسندی کو بنیادی طریق کی حیثیت سے اختیار کرنے کی خواہش نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کو بنیادی پالیسیوں کے معاملے میں غیر معمولی دانش کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ حالات، زمینی حقائق اور اپنی صلاحیت و سکت کی بنیاد پر تیار کی جانے والی پالیسیوں ہی کے ذریعے اقوامِ عالم میں کوئی قابلِ قدر مقام یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ ذرا سی چُوک ہوئی اور گئے کام سے۔ 
زندگی قدم قدم پر خدا جانے کیا کیا مانگتی ہے۔ انفرادی معاملات میں تو تھوڑی بہت کوتاہی کی گنجائش رہتی ہے، قومی سطح پر اِس کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ جب قومی سطح پر کسی کوتاہی، غفلت یا جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے تب دنیا تماشا دیکھتی ہے۔ دیکھنا ہی ہے۔ جو خود کو تماشا بنانے پر تُلے ہوں اُنہیں دنیا کیوں رج کے نہ دیکھے ؎ 
مشتاق نگاہوں کی اللہ رے رُسوائی 
میں محوِ تماشا ہوں، دُنیا ہے تماشائی 
ہم نے سات دہائیوں کے دوران قومی معاملات میں جن کوتاہیوں کا ارتکاب کیا ہے اُن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ صرفِ نظر سے معاملات درست نہیں ہوتے، مزید بگڑ جاتے ہیں۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے مگر ہم متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ کسی بھی قوم کے لیے پالیسیوں کے حوالے سے توازن، تحرک اور مَحل ایسے معاملات ہیں جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لاپروائی نہیں برتی جاسکتی۔ اور یہاں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ کسی بھی دور میں کوئی بھی خارجہ پالیسی تیار کرتے وقت ہم نے وقت کے تقاضوں اور حقیقت پسندی کے رجحان کو ذہن نشین رکھا ہے نہ بروئے کار لانے کے بارے میں سوچا ہے۔ آج بھی کچھ پالیسیاں عدم توازن کا شکار ہیں۔ اگر کسی معاملے میں توازن پایا بھی جاتا ہے تو بے عملی نمایاں ہے، تحرک کا شدید فقدان ہے۔ بعض قومی معاملات میں ہم نے اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے غیروں کے مفادات کی نگرانی و نگہبانی کو مقدم رکھا ہے۔ افغانستان ہی معاملہ لیجیے۔ تین عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران ہماری افغان پالیسی شدید عدم توازن کا شکار رہی ہے۔ افغانستان کے استحکام کو قومی استحکام پر فوقیت دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ سابق سویت یونین کی لشکر کشی کے بعد کے زمانے سے اب تک ہم نے بیشتر معاملات میں بے عقلی اور عدم توازن ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں عالمی برادری کو خوش رکھنے کے چکر میں ہم اپنے ہی وجود کو داؤ پر لگاتے آئے ہیں۔ ''اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ یقینی بنانے کی کوشش میں ہم نے ایسا بہت کچھ کیا ہے جس نے ہمیں اُتھلے پانیوں تک پہنچادیا ہے۔ ایک طرف تو سابق سویت یونین سے بگاڑ مول لیا گیا اور دوسری طرف امریکا کی خوشنودی کو قومی امور پر مقدم رکھا گیا۔ سابق سوویت یونین کو ناراض کرنے کے نتیجے میں بھی مفادات متاثر ہوئے اور امریکا کو خوش رکھنے کی کوشش میں ناکامی نے بھی ہمارے مفادات کو داؤ پر لگایا۔ بین الاقوامی سطح کے تعلقات ''چین ری ایکشن‘‘ کے اصول کی بنیاد پر کام کرتے ہیں یعنی بگڑے تو بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ افغانستان کے تناظر میں یہی ہوا۔ چند شخصیات کی تجوریاں تو بھرگئیں مگر قوم کا تو کچھ بھی بھلا نہ ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ ہم دیوانگی کے عالم میں تھے یعنی کچھ سمجھنے کو تیار نہ تھے ؎ 
تیری ہی نگاہوں کے سب دیکھنے والے تھے 
تقدیر بگڑ بیٹھی، تدبیر نہ کام آئی 
بے فیض پالیسیوں نے ہمیں عالمی اداروں کا دست نگر بنا ڈالا ہے۔ جو کچھ پانا چاہا تھا وہ کسی طور ہاتھ نہ آیا۔ اپنی کوشش کرنے پر بھی کچھ خاص حاصل نہ ہوا۔ خزاں کا دور جھیلتے جھیلتے ہم اب پھولوں کی شکل بھی بھول گئے ہیں۔ جب خواہشات بڑھ جائیں تو خوش فہمی پنپتی ہے۔ ہماری خوش فہمی کی اور احساسِ محرومی کی انتہا یہ ہے کہ کسی بھی نعمت کے ذکر ہی کو اُس نعمت سے تعبیر کر بیٹھتے ہیں ؎ 
پھولوں سے تعلق تو اب بھی ہے مگر اتنا 
جب ذکرِ بہار آیا سمجھے کہ بہار آئی 
غیر متوازن پالیسیاں نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سکھاتی بھی ہیں۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ غفلت اور کوتاہی کا اعادہ حماقت پر محمول کیا جاتا ہے اور ہم اِس حماقت کے شیدائی رہے ہیں۔ مسلم دنیا سے متعلق ہماری پالیسیوں کا عدم توازن بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ بہت کوشش کے باوجود مسلم دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنا بنانے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ خلیجی دنیا سے مراسم کی نوعیت بہت حد تک بے فیض ہی رہی ہے۔ بعض مواقع پر عرب دوستوں نے ہمیں نوازا ہے مگر یہ نوازش بھی اخوت اور مودّت کے تعلق سے کہیں بڑھ کر محض وقتی نوعیت کی رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اب بھی مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک سے تعلقات بہتر اور بارآور بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ بھارت نے اس معاملے میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ وہ معاشی معاملات میں مسلم دنیا سے اپنے تعلقات کو اُس مقام تک لے آیا ہے جہاں ہمارے لیے اُسے ہزیمت سے دوچار کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں سے انتہائی تعصب اور منافرت پر مبنی سلوک روا رکھے جانے پر بھی بیشتر مسلم دنیا بھارت سے اپنے تعلقات کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ معاشی مفادات نے سب کو بے دست و پا کر رکھا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا سفارتی امتحان ہے مگر افسوس کہ اب تک ہمارے اربابِ بست و کشاد کو اس امتحان یا ذمہ داری کا کچھ احساس ہی نہیں ہے۔ 
ہماری سفارتی ناکامیوں کی انتہا یہ ہے کہ ایک مدت تک ہم نے جن کا ساتھ دیا ہے اور جن کی خوشنودی کے لیے اپنے وجود کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا اُنہوں نے شاذ و نادر ہی ہمیں ہماری ''وفا‘‘ کا صلہ دیا ہے۔ اگر کبھی غیر معمولی طور پر نوازا بھی گیا ہے تو اخلاص کے اعتراف کے طور پر نہیں بلکہ محض اپنے مفادات کی تکمیل کے شکرانے کے طور پر۔ اِس پر بھی ہم ہوش میں آنے کو تیار نہیں۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ جن کے لیے ہم نے جان کی بازی لگادی وہ خوش ہونے کے بجائے ہمارے خلوص میں کمی ہی کا رونا روتے رہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ ہے۔ ہم نے افغانستان میں امریکا و یورپ کے فوجیوں کی مشکلات آسان کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا مگر بہت کچھ کرنے پر بھی مطالبہ کیا جاتا رہا کہ مزید کیجیے یعنی طالبان کو شکست دینے میں مزید مدد کیجیے۔ ہمارے غیر معمولی جانی و مالی نقصان کی بھی کبھی قدر نہیں کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جائے۔ جب ہم اپنے حقیقی مفادات کو داؤ پر لگاکر دوسروں کو خوش کرتے ہیں تو اُن کی نظر میں مزید گرتے ہیں۔ 
وقت کی محض پکار یا تقاضا ہی نہیں، للکار بھی یہی ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کریں اور اپنے مفادات کو ہر حال میں مقدم رکھیں۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے تک دنیا قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی۔ اپنے مفادات کو داؤ پر لگاکر بیرونی آقاؤں کی خوشنودی یقینی بنانے والی کئی اقوام کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ اپنے اور اُن کے حشر سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانا ممکن ہوسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں