"MIK" (space) message & send to 7575

ہائے بس چلتا نہیں، کیا مفت جاتی ہے بہار

دنیا کا میلا سجا ہوا ہے۔ ہر طرف رنگینیاں ہیں۔ بہت کچھ ہے جو اس امر کے لیے بے تاب ہے کہ ہم اُسے دل سے اپنائیں۔ دنیا مسخّر ہونے کو بے قرار ہے۔ جو آگے بڑھ کر اٹھالے جام اُسی کا ہے۔ دنیا اگر واقعی کچھ ہے تو صرف اُن کے لیے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اِسی دنیا کو کچھ دینا اور اِس سے کچھ لینا چاہتے ہیں۔ کہنے کو ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کے نصیب میں بہت کچھ ہو، دامن پھولوں سے بھر جائے مگر ایسا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب خواہش کو محض خواہش کے درجے میں نہ رہنے دیا جائے بلکہ چند قدم آگے جاکر عمل کے میدان میں بھی قدم رکھا جائے اور اپنے پورے وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے خواہشات کو حقیقت کا روپ دینے کی ہمت اور لگن دکھائی جائے۔ 
دنیا کی رنگینی بڑھتی جارہی ہے۔ ہر شعبے میں کامیابی کے نئے معیارات قائم ہو رہے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو کیا جارہا ہے اور مزید بہت کچھ ایسا ہے جو ابھی تک نہیں کیا گیا مگر کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ کہیں کہیں گنجائش بڑھانے کے لیے بھی تگ و دَو جاری ہے۔ تحقیق و ترقی کا بازار گرم ہے۔ ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی کوشش کرنے والوں کی کمی نہیں۔ صلاحیتوں کے اظہار کے ذرائع جتنی آسانی سے دستیاب ہوتے جارہے ہیں، صلاحیتوں کا اظہار اُتنا ہی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ابھی نصف صدی تک کیفیت یہ تھی کہ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے کسی بھی فرد کو اگر کچھ کر دکھانا ہوتا تھا تو پلیٹ فارم مشکل سے میسر آتا تھا مگر جب پلیٹ فارم میسر آجاتا تھا تب آگے بڑھنا اور خود کو کسی قابلِ رشک مقام تک پہنچانا کوئی بڑا دردِ سر نہیں ہوا کرتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ انسان کو صلاحیت کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم تو بہت آسانی سے میسر ہیں مگر دنیا کو متاثر کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے بہت ہیں۔ کل تک گانے والوں کو فن کے اظہار کا موقع مشکل سے مل پاتا تھا۔ اب کوئی بھی اپنے فن کا اظہار سوشل میڈیا پر بہت آسانی سے کرسکتا ہے۔ معاملہ اِس مرحلے تک آگیا ہے کہ ع 
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا 
دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا ہر دور کے انسان کا بنیادی معاملہ یا مسئلہ رہا ہے۔ اگر کچھ منفرد نہ کیا جائے تو بات کہاں بنتی ہے؟ لوگ اُسی وقت پہچانتے اور یاد رکھتے ہیں جب اوروں سے ہٹ کر کچھ کیا جائے، کسی ایسی صلاحیت کا اظہار کیا جائے جو دوسروں میں نہ پائی جاتی ہو یا کمتر سطح پر ہو۔ فی زمانہ یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ اب سے پانچ سات دہائی پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ کوئی اگر کچھ کرنا چاہتا تھا تو کسی نہ کسی طور اپنے لیے راہ ہموار کرلیتا تھا کیونکہ لوگ استقبال کے لیے تیار رہتے تھے۔ صلاحیتوں کے اظہار کا پلیٹ فارم چونکہ مشکل سے میسر ہوتا تھا اس لیے اُس پر دکھائی دینے والوں کو شناخت ملنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی تھی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کوئی اپنا پورا زور لگائے تب کہیں جاکر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ 
آج کی دنیا میں ہر معاملہ جتنا خوبصورت ہے اُتنا ہی پیچیدہ بھی ہے۔ کل تک کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو چند برس کی محنت سے ایسا کرلیتا تھا۔ اب تحقیق و ترقی کا بازار گرم رہنے کے باعث طب کے شعبے میں بھی معیارات کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرے، باقی دنیا سے ہم آہنگ ہو پانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ طب کی معمولی سی سند لینا یعنی ایم بی بی ایس کرنا کوئی بڑا کام نہیں۔ اصل امتحان تو سپیشلائزیشن میں ہے یعنی یہ کہ انسان خود کو کسی خاص شعبے میں غیر معمولی صلاحیت اور مہارت کا حامل ثابت کرے۔ ہر شعبہ مہارت کے اعتبار سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُن پر دباؤ بڑھ رہا ہے جو کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ منصوبہ سازی کرتے ہیں، ذہن بناتے ہیں مگر تب تک دنیا کئی قدم آگے جاچکی ہوتی ہے۔ ہر شعبے میں غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والوں کی بھیڑ سی لگی ہے۔ لوگ خود کو منوانے لیے دن رات مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ اس کھیل میں وہی جیت پاتے ہیں جو اعصاب پر پڑنے والے دباؤ کو جھیلنے کی صلاحیت اور سکت رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ سیکھے بغیر تو انسان کو کچھ بھی نہیں آتا۔ 
دنیا کے میلے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِس کی رنگینی میں گم ہوکر خود کو بھول جانے کا احتمال زیادہ قوی ہے۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ کوئی کچھ بننا چاہتا ہے مگر بن نہیں پاتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہن سازی کے مرحلے ہی میں الجھ جاتا ہے۔ خود کو منوانے کی کوشش عموماً اس لیے ناکام ثابت ہوتی ہے کہ طے ہی نہیں ہو پاتا کہ کیا اور کس طرح کرنا ہے۔ آج کے انسان پر ہر طرف سے مختلف النوع دباؤ مرتب رہا ہے۔ ہر شعبے میں رنگینی بھی ہے اور پیچیدگی بھی۔ نئی نسل جب کچھ کرنے کا سوچتی ہے تو مسابقت کا گراف دیکھ کر حوصلہ ہارنے لگتی ہے۔ یہ امر انوکھا ہے نہ قابلِ مذمت۔ نئی نسل کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اُس کا دل توڑنے والے معاملات زیادہ ہیں۔ ''وقت کم، مقابلہ سخت‘‘ والی کیفیت دل و جاں کو تناؤ کے عذاب سے دوچار رکھتی ہے۔ ایسے میں ذرا سی ابتدائی ناکامی پر لتاڑنے، طنز و تشنیع کا نشانہ بنانے کو کسی بھی اعتبار سے مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہر شعبے میں بڑھتی ہوئی مسابقت نئی نسل کی مشکلات بڑھارہی ہے۔ نمایاں حد تک ذہنی تربیت لازم ہوچکی ہے۔ نوجوانوں کو بروقت بتایا جائے کہ اُن میں کون سی صلاحیت نمایاں ہے اور اُس صلاحیت کو کیونکر بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ 
گزشتہ ادوار کی نئی نسل کو کسی بھی شعبے میں زیادہ آگے جانے کے لیے غیر معمولی محنت نہیں کرنا پڑتی تھی۔ ذرا سی محنت سے کوئی بھی نمایاں ہو جایا کرتا تھا۔ مسابقت کی وہ کیفیت نہیں تھی جو اب ہے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ کوئی اگر دوڑ سے پل بھر کو الگ ہو تو زندگی بھر پیچھے رہ جانے کا احتمال رہتا ہے۔ کل تک یہ معاملہ نہ تھا۔ ہر دور اپنے ساتھ آسانیوں کے پہلو بہ پہلو چند دشواریاں بھی لاتا ہے۔ آج کا دور بھی اِس اعتبار سے انوکھا نہیں۔ ایسے میں سوچ بھی نئی درکار ہے۔ کل تک جس انداز سے سوچا جاتا تھا وہ انداز اب نہیں چل سکتا۔ سوچنے کی صلاحیت کو زیادہ توانا کرنے اور اُس کے لیے نئی جہتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو ہر معاملے میں غیر معمولی سطح پر راہ نمائی درکار ہے۔ 
آج کی دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو اگرچہ ہمارے لیے معمول کا درجہ رکھتا ہے مگر پھر بھی عقل کو دنگ کرنے سے باز نہیں آتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کو بامقصد انداز سے بسر کرنے کے لیے بھرپور تیاری کی جائے۔ ذہنی تیاری ہی جسم کو بروئے کار لانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ آج کے انسان کو بہت کچھ سمجھنا ہے، کام کرنے کی لگن کو پیدا ہی نہیں کرنا بلکہ اُسے برقرار بھی رکھنا ہے۔ 
دنیا کا میلا سجا رہے گا۔ لوگ آتے اور جاتے رہیں گے۔ جسے یہ میلا دیکھنے کا موقع ملا ہے اُس پر لازم ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کرے کہ لوگ اُسے بھی یاد رکھیں۔ دنیا جس قدر مقامِ مسرّت ہے اُسی قدر جائے عبرت بھی ہے۔ جو اِس کی رنگینیوں میں کھوگیا وہ راہِ حق کھو بیٹھا۔ اگر کچھ نہ کیا تو سمجھ لیجیے یہ بہار دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو رہنا زندگی بسر کرنے کا بہترین ڈھنگ نہیں۔ لازم ہے کہ ہوش و حواس قابو میں رکھتے ہوئے دنیا سے مستفید بھی ہوا جائے اور آخرت کا بھی کچھ سامان کیا جائے۔ جو ذہن نہیں بنا پاتے، فیصلہ نہیں کر پاتے وہ، مرزا مظہر جانِ جاناں کے بقول، آخر میں یہی رونا روئے پائے جاتے ہیں ع 
ہائے بس چلتا نہیں، کیا مفت جاتی ہے بہار 
دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا ہر دور کے انسان کا بنیادی معاملہ یا مسئلہ رہا ہے۔ اگر کچھ منفرد نہ کیا جائے تو بات کہاں بنتی ہے؟ لوگ اُسی وقت پہچانتے اور یاد رکھتے ہیں جب اوروں سے ہٹ کر کچھ کیا جائے، کسی ایسی صلاحیت کا اظہار کیا جائے جو دوسروں میں نہ پائی جاتی ہو یا کمتر سطح پر ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں