چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی کے بنیادی مسائل سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران اپنے شاندار اور جاندار ریمارکس سے اہلِ کراچی کے دل جیت لیے ہیں۔ کے الیکٹرک، بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومت کے خلاف جذبات پنپ چکے تھے مگر اُنہیں زبان نہیں مل پارہی تھی۔ اللہ نے چیف جسٹس صاحب کی معرفت اِن دبے ہوئے جذبات کو زبان بخشی۔ مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے ہیں۔ کراچی کے معاملے میں وفاق کا رویہ ایک مدت سے ع
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
والا رہا ہے۔ لوگ بہت کچھ ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب معاملات قدرے کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ کراچی کے معاملے میں جس نوعیت کی چشم پوشی برتی جاتی رہی ہے وہ خاصی حوصلہ شکن رہی ہے۔ شہرِ قائد کے مکین سمجھ ہی نہیں پارہے تھے کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ کوئی متوجہ ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ شہر پر خدا جانے کس کس کی حکومت رہی ہے۔ بلدیاتی سیٹ اپ کہتا ہے کہ وہ معاملات کو چلا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ تیسرے نمبر پر وفاق بھی ہے جو زبانِ بے زبانی سے برملا کہتا رہا ہے کہ کوئی کچھ بھی کرلے، سب سے بڑھ کر تو ہم اِس شہر کے دیوانوں اور مستانوں میں سے ہیں۔ اداروں کی سطح سے بلند ہوکر جب لڑائی حکومتوں تک پہنچی تو شہرِ قائد کے مکینوں کی جان پر بن آئی۔ جس طور پولیس سٹیشنوں کے درمیان حدود کی لڑائی جاری رہتی ہے بالکل اُسی طور کراچی میں اداروں اور حکومتوں کے درمیان بھی لڑائی ہوتی رہی ہے۔ عوام پریشان ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کس سے رابطہ کریں، کس کے نام کی دہائی دیں۔ کوئی بھی ادارہ اور کسی بھی سطح کی حکومت مکمل ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
شہرِ قائد میں بنیادی نوعیت کے مسائل بگڑتے بگڑتے ایسے بگڑے کہ شہر پر مسائلستان کا گماں ہونے لگا۔ کوئی ایک گوشہ بھی ایسا نہ تھا جسے پیچیدگیوں سے پاک قرار دیا جاسکتا ہو۔ جنہیں اس شہر کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کا موقع ملا اُنہوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ معاملات یوں بگڑیں کہ پھر سنورنے کا نام نہ لیں۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سازشی نظریہ تلاش کرنے والے اپنا کام کریں۔ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ جنہوں نے شہر کے معاملات چلانے کا اختیار ملنے پر بھی اہلِ شہر کو نظر انداز کیا اور اُن کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی وہ آج کفِ افسوس مل رہے ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ساحلی شہر بھی ہے۔ اس شہر میں حقیقی بین الاقوامی شہر بننے کے لیے درکار تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ درجہ خود بخود نہیں ملتا۔ جامع منصوبہ سازی کے ساتھ محنت کرنا پڑتی ہے، شہر کا بنیادی رنگ ڈھنگ اور ڈھانچا بدلنا پڑتا ہے۔ ملک کے لیے سب سے بڑے معاشی مرکز کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کراچی حقیقی معنوں میں ایک بڑے عالمی معاشی مرکز کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ معمورہ جن کے ہاتھوں میں ہے وہ بھی ایسا چاہتے ہیں یا نہیں۔
کم و بیش چار عشروں کے دوران جو کچھ کراچی سے روا رکھا جاتا رہا ہے اُسے دیکھ کر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ کیا گیا وہ کیوں کیا گیا۔ اِتنے بڑے شہر کوکیوں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیا گیا جنہیں اسے قابلِ رشک بستی بنانے سے کچھ غرض نہ تھی۔ سب کو اپنی جیب اور پھر تجوری بھرنے کی فکر لاحق رہی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہر اہلِ دل کا عجیب حال تھا۔ ع
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ڈھائی تین عشروں کے دوران کراچی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ جو آیا وہ جیب بھرکے چلتا بنا۔ کسی کو اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں رہی کہ شہر کے لیے بھی کچھ کیا جائے۔ شہرِ قائد کے مکینوں کا حال یہ تھا کہ وہ کائنات کے خالق و مالک کو پکارا کرتے تھے کہ وہی عذابِ جاں بن جانے والے ماحول سے گلو خلاصی ممکن بنائے۔ ایک زمانے تک نالہ و شیون کی وہی کیفیت رہی جس کی طرف استاد قمرؔ جلالوی نے یوں اشارہ کیا تھا۔ ع
غنچے اپنی فریادوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے جو کچھ کراچی کے حوالے سے کہا ہے‘ اُس نے اُمّیدوں کے غنچوں کو کھلنے میں مدد دینے والا ماحول پیدا کردیا ہے۔ لوگ دبی زبان میں کئی سال سے کہہ رہے تھے کہ جو سلوک کراچی سے روا رکھا جارہا ہے اُس کے خاتمے کے لیے کہیں سے کوئی ضرور آئے گا۔ یہ کردار وفاق کو ادا کرنا تھا۔ کیا دعائیں مستجاب ٹھہری ہیں؟ کیا اضطرابِ قلب و نظر رنگ لے آیا ہے؟ کیا وہی ماحول یقینی ہوچلا ہے جس کے بارے میں جگرؔ مراد آبادی نے کہا تھا ؎
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دِل کچھ اِس صورت سے تڑپا، اُن کو پیار آ ہی گیا
بہت سوں کو خوشی ہے کہ دیر سے ہی سہی، وفاق نے معاملات کا نوٹس لیا تو ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو نالوں کی صفائی کا ٹاسک دیا جانا تالاب میں پہلا پتھر سمجھیے۔ یہ محض ٹاسکنگ نہیں الارمنگ گھنٹی ہے‘ جسے بجنا ہی تھا کہ مقامی و صوبائی حکومت کے کانوں پر جُوں نہیں رینگ رہی تھی۔ سُنی کو اَن سُنی کرنے کا سلسلہ طویل مدت سے جاری تھا۔ پی پی پی کو مسلسل بارہ سال سندھ کے معاملات چلانے کا موقع ملا مگر اُس نے صوبائی وسائل کی بندر بانٹ سے بڑھ کر کچھ نہیں کیا۔ کراچی سمیت پورے صوبے کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ لوگ رو رو کر، توجہ دلا دلاکر تھک گئے مگر جن کی ذمہ داری تھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اب وفاق نے معاملات کی درستی کے لیے مداخلت کی ہے تو سندھ حکومت چونک پڑی ہے۔ چونکنا ہی تھا کہ معاملات ہاتھ سے نکلنے اور پھسلنے کا آغاز ہوچکا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اُسے مستقبل قریب کے معاملات کا پیش خیمہ سمجھیے۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ وفاق کی سطح پر کچھ سوچ لیا گیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کو مستقل بنیاد پر اُنہیں نہیں سونپا جاسکتا جو عوام کے منتخب نمائندے ہونے کے باوجود انتہائی غیر سنجیدہ ہیں اور صرف ذاتی مفادات کے دائرے میں گھومتے رہنے ہی کو سیاست سمجھ بیٹھے ہیں۔ شہرِ قائد کے مکین یہ سوچ کر خوش ہیں کہ شاید اب دِلّی دور نہیں ؎
دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے
زندگی میں آج وہ دن آ گیا
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں نالوں کی صفائی کا معاملہ این ڈی ایم اے کو سونپے جانے پر خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنی کابینہ کے ارکان سعید غنی اور سید ناصر حسین شاہ کے ساتھ اسلام آباد کی راہ لی۔ مقصود یہ تھا کہ وفاق کو یقین دلایا جائے کہ معاملات جلد درست کردیے جائیں گے۔ وفاق کا موقف ہے کہ ؎
جن سے آنچل بھی دوپٹے کا سنبھالا نہ گیا
اُن سے کیا خاک مِرے دل کی حفاظت ہو گی!
یعنی یہ کہ جو شہر کے چند نالے صاف نہ کرواسکے، نئی سڑکوں کی تعمیر تو دور کا معاملہ ہے، ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمّت کا مرحلہ بھی طے کرسکے وہ اِتنے بڑے شہر کی تقدیر کیسے بدلیں گے؟ کراچی کو اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ سرکاری مشینری شہر یا سرکاری خزانے کے بارے میں سنجیدہ ہونے کے بجائے ذاتی مفاد کی سطح سے بلند نہیں ہو پارہی۔ رہی سہی کسر منتخب نمائندوں نے پوری کردی ہے۔ سندھ حکومت ہڑبڑاکر اٹھی ہے اور معاملات کو درست کرنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ اہلِ شہر کے لیے کسی بھی درجے میں متاثر کن نہیں۔ وہ خاموشی کی زبان سے کہہ رہے ہیں ع
گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر