کراچی ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے۔ بات صرف قدرتی وسائل تک محدود نہیں۔ کراچی میں متنوع انسانی وسائل بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔ ہنر مندوں کی کمی ہے نہ محنت کرنے والوں کی۔ کسی بھی بڑے شہر کو بڑی تعداد میں نالج ورکرز کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ کراچی میں نالج ورکرز کا بھی کال نہیں۔ سوال صرف ترغیب و تحریک کا ہے۔ اس مرحلے سے گزر جائیے تو آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ اب معاملہ یہی رہا ہے کہ جن سے توقع تھی کہ کچھ کریں گے انہوں نے کام کرنے کی خاطر خواہ تحریک کا سامان اپنے لیے کیا نہ دوسروں کے لیے اور یوں اُن کی کارکردگی سے صرف قنوطیت پیدا ہوئی اور پروان چڑھی۔
کسی بھی بڑے ساحلی شہر کو حقیقی بین الاقوامی یا عالمی شہر بننے کے لیے جو کچھ درکار ہوا کرتا ہے اُس کی یہاں کمی کل بھی نہیں تھی۔ سوال صرف یہ تھا کہ شہر کو کچھ دینا مقصود ہے یا نہیں۔ نیت ہی نہیں تھی کہ یہ شہر حقیقی مفہوم میں ترقی کرے۔ اب پُل‘ فلائی اوورز‘ انڈر پاسز سبھی کچھ تو ہے۔ ٹریک بالکل واضح شکل میں موجود ہیں۔ ہاں‘ اُن پر بنائی جانے والی سڑکیں کمزور ہیں۔ بلند عمارتیں بھی خاصی معقول تعداد میں ہیں۔ مزید عمارتوں کی ضرورت بھی ہے اور گنجائش بھی۔ شہر کا اچھا خاصا رقبہ اب تک غیر ترقی یافتہ پڑا ہے۔ ذرا سی توجہ درکار ہے۔ توجہ کے ساتھ اگر نیت کا اخلاص بھی مل جائے تو کیا کہنے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہر کچھ کو کچھ ہو جائے گا۔ لُوٹ مار کی ذہنیت کا گلا گھونٹ کر خدمتِ خلق اور ترقی کی ذہنیت اپنانے کی ضرورت ہے۔
ایک زمانے سے یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ کراچی کو حقیقی عالمی انداز کا شہر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ کوشش کب کی جائے گی‘ کچھ پتا نہیں چلتا۔ محض کہہ دینے سے تو یہ عالمی انداز کا شہر نہیں بن جائے گا۔ بڑے کام بڑی منصوبہ سازی اور بڑے پیمانے کی محنت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کراچی کو بالکل الگ انداز کا عالمی شہر بنانے کے لیے بھی بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ اتنے بڑے شہر کا حلیہ بدلنا آسان نہیں۔ شہر کے معاملات بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ پہلا مرحلہ معاملات درست کرنے کا ہے۔ اس کے بعد ہی نئے سِرے سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔
شہرِ قائد کو بنیادی ڈھانچے کے معاملے میں اچھی خاصی توجہ درکار ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر آبادی کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔ اور یہ دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ نئے آباد ہونے والوں کو بنیادی سہولتیں درکار ہیں۔ جو پہلے سے آباد ہیں اُن کی ضرورتیں پوری نہیں ہو پارہیں۔ ایسے میں نئے آنے والوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیونکر ممکن بنائی جاسکتی ہے؟ تعلیم و صحتِ عامہ کا نظام
درست کرنے کی صورت میں بھرپور ترقی کی راہ روکنے والا کوئی نہ ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کیونکر حل ہو۔
کراچی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ملک بھر سے لوگ یہاں سرمایہ لگاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر طرح کے کاروبار میں منافع کی سب سے بلند شرح کراچی میں ہے۔ بنیادی ڈھانچا درست کرتے ہوئے لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کردی جائیں تو بیرونی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد اِدھر کا رخ کرے گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ اس وقت بھی بیرونی سرمایہ کاروں کے کراچی پر متوجہ ہونے کا معاملہ زیادہ حوصلہ شکن نہیں۔ اصل مسئلہ معاملات کو چینلائز کرنے کا ہے۔ حکومتی یا ریاستی سطح پر ایسا جامع سیٹ اپ موجود نہیں جو معاملات کو ڈھنگ سے چلانے کی ضمانت فراہم کرسکے۔
ہاں‘ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کراچی کو حقیقی معنوں میں بین الاقوامی رنگ اور حُلیے کا شہر بنانے کی ممکنہ صورت کیا ہوگی۔ یہ راستہ کیسے نکلے گا؟ کیا کوئی نیا آئینی انتظام کرنا ہوگا؟ شہر کو وفاق کے ماتحت علاقہ بنانے کے حوالے سے بھی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ ساری باتیں کل تک اخبارات کے تجزیوں میں ہوا کرتی تھیں‘ اب عوام کی زبان پر ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اُس کی جیب سے وصولی تو کی جارہی ہے مگر جواب میں دیا کچھ بھی نہیں جارہا۔ اُسے کام پر جانے کا انتظام بھی خود کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم و صحت کے حوالے سے بھی خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ گھر کا کچرا ٹھکانے لگانے کی زحمت بھی خود گوارا کرنا پڑتی ہے۔ حکومت گھروں سے تو کچرا کیا اٹھائے گی‘ کچرا کنڈیوں سے بھی کچرا اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ بجلی کی فراہمی خاطر خواہ حد تک نہیں۔ حد یہ ہے کہ پینے کا پانی بھی خریدنا پڑتا ہے۔ کم و بیش ہر معاملے میں لوگوں کو خود ہی کچھ نہ کچھ کرنے کے مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ مکمل طور پر بے یار و مددگار رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے پر مجبور اہلِ شہر کسی بھی نئے انتظام کے لیے نفسی طور پر تیار ہیں۔ اگر موجودہ سیٹ اپ کو ہٹاکر کوئی نیا اور جاندار سیٹ اپ لایا جائے تو شہرِ قائد کے مکینوں کی طرف سے غیر معمولی یا قابلِ ذکر سطح کی مزاحمت یا ردِعمل کا کچھ خاص احتمال یا خدشہ نہیں۔ ہو بھی کیوں؟ لوگ تو تنگ آئے ہوئے ہیں۔ کراچی کے بیشتر مکینوں کا اس بات پر زیادہ یقین ہے کہ شہر کو روایتی نام نہاد سٹیک ہولڈرز سے لے کر جن نئے ہاتھوں میں دیا جائے گا وہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کریں گے جس سے بنیادی مسائل حل ہوں۔ یہ خوش خیالی شدید نوعیت کی قنوطیت کا نتیجہ ہے۔ جن سے توقع تھی کہ شہر اور اہلِ شہر کے لیے کچھ کریں گے اُنہوں نے ہر اہم مرحلے میں پیٹھ دکھائی ہے۔ لوگ اب کام نہ کرنے والوں کی پیٹھ کے بجائے کام کرنے والوں کے چہرے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ تبدیلی ہے جس کا انتظار ہے۔ جنہیں کئی بار آزمایا جاچکا ہے انہیں مزید آزمانے کی گنجائش اب رہی نہیں۔
اہلِ کراچی کا اس بات پر بھی یقین بڑھتا جارہا ہے کہ شہر کو نیا رنگ وفاق ہی دے سکتا ہے‘ وہی بنیادی مسائل کا حل یقینی بنانے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت حد تک ناگزیر بھی ہے کیونکہ سینکڑوں ارب روپے کی سرمایہ کاری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ملک بھر سے ہزاروں افراد نے اپنی جمع پونجی ڈھنگ سے کھپانے کے لیے کراچی کو دونوں کے لیے منتخب کیا ہے۔ رہائش کے لیے بھی اسی شہر کو چُنا گیا ہے۔تمام بڑے نئے منصوبوں میں صرف اہلِ کراچی کا سرمایہ نہیں لگا ہوا‘ ملک کے ہر حصے کے لوگ یہاں آکر آباد ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے کاروباری معاملات بھی کراچی منتقل کر رہے ہیں۔ یہ تمام معاملات یونہی بے آسرا تو نہیں چھوڑے جاسکتے۔
کراچی کی بات ہو تو اب صرف سنجیدگی کا آپشن بچا ہے۔ جو کچھ حالیہ بارشوں نے کیا ہے وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ جو کچھ اب تک ہوتا آیا ہے وہ مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ شہر کو ہر حال میں بچانا پڑے گا۔ یہ حقیقت بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ قومی معیشت کا مدار اِس شہر کی عمدہ کارکردگی پر ہے۔ اس شہر کی ترقی سے پورے ملک کی ترقی وابستہ ہے۔ یہاں معاشی سرگرمیوں کا پروان چڑھنا ملک کے دور افتادہ علاقوں کو پالنے کا ذریعہ بنے گا۔
یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بنیادی ڈھانچے کو صرف اپ ڈیٹ نہیں کرنا بلکہ اپ گریڈ کرنا ہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنیادی ڈھانچا متعارف کرانا پڑے گا۔ سوا دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر میں لوگ اب تک معیاری ماس ٹرانزٹ سسٹم کو ترس رہے ہیں۔ یومیہ بنیاد پر سفر کرنے والوں کو پریشانیوں کا سامنا کب تک رہے گا؟ اس مصیبت کی کوئی تو حد ہو۔
سنجیدگی اس لیے شرطِ اول ہے کہ اسی سے کوئی راہ نکلے گی۔ اب تک محض دعوے اور دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ بڑھکیں مارنے سے فرصت ملی ہوتی تو کچھ کیا جاتا۔ جو آیا وہ شہر کا سرپرست بننے کا خواہش دکھائی دیا مگر عمل کی کسوٹی پر پرکھا گیا تو صفر کے سوا کچھ ہاتھ آیا۔ لوگ اس سلسلے کا اختتام چاہتے ہیں۔ دیکھیں اس بار نصیب میں کیا لکھا ہے۔