"MIK" (space) message & send to 7575

لیپا پوتی

آنکھ بہت تیزی سے دھوکا کھا جاتی ہے۔ ہمیں بہت کچھ بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ زمانے کے سو رنگ نظر آتے ہیں‘ ہر رنگ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب دنیا بدلی سو بدلی۔ پھر کچھ ہی دیر میں اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بار پھر زمانے کی نیرنگی نے ہماری آنکھوں کو دھوکا دیا ہے۔کیا واقعی معاشرہ اُتنی تیزی سے بدلتا ہے جتنی تیزی سے بدلتا ہوا ہمیں دکھائی دیتا ہے؟ جو تبدیلیاں ہمیں دکھائی دیتی ہیں کیا وہ واقعی تبدیلیاں ہوتی ہیں؟ یہ طویل بحث کا موضوع ہے۔ قصہ مختصر‘ زمانے کی روش ہمیں قدم قدم پر کچھ کا کچھ دکھاتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے ذہن میں بہت سی خواہشات پنپتی رہتی ہیں۔ ہم امیدوں اور توقعات کا جھولا جھولتے رہتے ہیں۔ خوش فہمی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ کبھی کبھی تو زمینی حقیقت پر نظر ڈال کر بھی ہم محض خوش فہمی کا دامن تھامے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فرد کے لیے معاشرہ ایک بڑے دھوکے جیسا ہوتا ہے۔ ان طلسمات میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہوتا کچھ ہے اور دکھائی کچھ دیتا ہے۔ کم ہی لوگ ان طلسمات کی اصلیت کو جان پاتے ہیں۔ ہر فرد معاشرے کو اپنی خواہشات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ جو عینک کا رنگ‘ وہی معاشرے کا رنگ۔ یہ عجیب کھیل ہے۔ جو اس کھیل کا انجام اچھی طرح جانتے ہیں وہ بھی کھیلنے سے باز نہیں آتے! معاشرہ افراد ہی کا مجموعہ ہوتا ہے مگر سب کے ملے جُلے افکار و اعمال اور انداز سے معاشرے کا رنگ ڈھنگ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی اِس چیستان کو کماحقہٗ سمجھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔
جن معاملات کو ہم تبدیلی سمجھ کر خوش ہو رہے ہوتے ہیں وہ بھلا دھوکا کیوں نہ ہوں؟ تبدیلی کے نام پر جو کچھ ہمیں بخشا جارہا ہے یا دیکھنے کو مل رہا ہے وہ محض گراوٹ ہے‘ نری پستی ہے۔ معاملات کا خراب ہوتے جانا تبدیلی نہیں گراوٹ کہلائے گا۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی اُس عمل کو کہتے ہیں جو معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار کرتا ہو۔ یہ شعوری عمل ہے یعنی معاملات کو درست کرنا پڑتا ہے‘ وہ خود بخود کبھی درست نہیں ہوتے۔ تبدیلی ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کے پورا ہونے ہی پر معاشرے کی مجموعی ترقی، بلکہ بقا کا مدار ہے۔ حقیقی تبدیلی وہ ہے جو معاشرے کو بہتری کی طرف لے جائے، معاملات کا بگاڑ دور کرے، لوگوں کو ایک ایسی دنیا کا دیدار کرائے جس میں دکھ کم ہوں‘ سکھ زیادہ۔ اگر ایسا نہ ہو تو جو کچھ ہو رہا ہو اُسے تبدیلی سمجھ کر خوش ہو رہنا حماقت کے سِوا کچھ نہیں۔
اس وقت پاکستانی معاشرے کے تیور بھی کچھ کے کچھ دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا اس پورے معاملے کو تبدیلی سمجھ کر خوش ہوا جائے؟ ایک زمانے سے تبدیلی کا غلغلہ بلند کیا جارہا ہے مگر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ معاشرے میں اِس وقت جتنی بھی اچھل کود مچی ہوئی ہے وہ محض نمائشی نوعیت کی ہے۔ زندگی صرف امتحان لے رہی ہے۔ یکسانیت بھیس بدل کر سامنے آرہی ہے۔ معاملات ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ریاستی مشینری کا عمومی مزاج تو جب بدلے گا تب بدلے گا‘ یہاں تو قصہ یہ ہے کہ فرد بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ زندگی جیسی نعمت کو ''جیسی ہے‘ جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر برتا اور بروئے کار لایا جارہا ہے۔ ہم جدت کی تلاش میں رہتے ہیں مگر وہ تو درشن دینے کو تیار ہی نہیں۔ اگر کہیں ہے بھی تو برائے نام‘ خال خال۔ نئی بوتل میں پرانی شراب بیچی جارہی ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ پرانی شراب کیوں بیچی جارہی ہے؟ اِس لیے کہ خریدار موجود ہیں۔ بازار میں وہی چیز بیچنے کے لیے لائی جاتی ہے جو آسانی سے بِک جاتی ہے۔ اتنی سی بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا آئن سٹائن ہونا لازم نہیں۔
یکسانیت کو نئے روپ میں‘ نئے انداز سے سامنے لایا جارہا ہے اور راگ تبدیلی کا الاپا جارہا ہے۔ بڑے پیمانے پر ہاؤ ہُو ہے، شور برپا ہے۔ کہنے کو بہت کچھ کیا جارہا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ محض لیپا پوتی سے کام چلایا جارہا ہے۔ یہ معاملہ بھی پرانی شراب والا ہی ہے۔ لیپا پوتی سے کام کیوں لیا جارہا ہے؟ سیدھی سی بات ہے‘ صرف اس لیے کہ لوگ لیپا پوتی پر نہ صرف یہ کہ معترض نہیں بلکہ اُسے خوشی خوشی قبول بھی کر رہے ہیں۔ اگر وہ لیپا پوتی یعنی نمائشی نوعیت کے اعمال کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو کس کی مجال ہے کہ روش تبدیل نہ کرے۔
پاکستانی معاشرے میں سرِدست عمومی ذہنیت یہ ہے کہ جیسے تیسے کام چلایا جائے۔ کوئی کسی کے احتساب کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں اپنے احتساب پر کیونکر رضامندی ظاہر کی جائے؟ معاملہ یہ ہے کہ جب انسان اپنے حصے کا کام پوری دیانت اور جاں فشانی سے نہیں کرتا تو کسی اورکا احتساب کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتا! گویا ع 
سنگ اٹھایا تھا کہ سَر یاد آیا 
معاشرے کا عام چلن یہ ہے کہ ملازمت پیشہ افراد اپنے کام میں ڈنڈی مار رہے ہیں۔ جو سیلف ایمپلائمنٹ پر یقین رکھتے ہیں یعنی اپنا ذاتی کام کرتے ہیں‘ وہ بھی کرم فرماؤں کو ہر طرح سے مطمئن کرنے میں بالعموم ناکام رہتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ ایسا کرنے یعنی کرم فرماؤں کو مطمئن کرنے کی سعی کی ہی نہیں جاتی۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے حقیقی خواہش اور لگن کا ہونا لازم ہے۔ ہر خرابی پوری توجہ چاہتی ہے۔ اس کے بعد منصوبہ سازی کا مرحلہ آتا ہے اور ہر منصوبہ اُسی وقت کامیابی سے پایۂ تکمل تک پہنچتا ہے جب پوری دیانت اور لگن سے کام کیا جائے۔ کسی بھی شعبے میں نمائشی نوعیت کے افکار و اعمال سے کبھی کوئی حقیقی تبدیلی یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ لیپا پوتی کے ذریعے کسی کی آنکھوں میں دھول تو جھونکی جاسکتی ہے، معاملات کو درست نہیں کیا جاسکتا۔ اور لیپا پوتی بھی کب تک؟ آپ نے سنا ہوگا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ نمائشی افکار و اعمال کا بھی ہے۔
آج ہمارا معاشرہ کھوکھلے دعووں اور بے دم سے وعدوں کے گڑھے میں گرا ہوا ہے۔ اِس گڑھے سے معاشرے کو نکالنے کی ایک ہی صورت ہے... پورے اخلاص کے ساتھ زندگی کے بارے میں سنجیدگی اختیار کی جائے‘ خرابیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اُن کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کی جائے اور نتائج اللہ کی رِضا پر چھوڑ دیے جائیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نمائشی سوچ اور نمائشی اعمال دونوں ہی معاشرے کے لیے زہر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دیرینہ مسائل ٹھوس فکر و عمل کے متقاضی ہیں۔
پستی سے نجات پانے والے معاشروں کی تاریخ پڑھیں‘ اندازہ ہو جائے گا کہ یہ عمل کتنا مشقّت طلب ہے اور اس مشقّت کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ کوئی معاشرہ اپنا قبلہ درست نہ کرنا چاہے اور عارضی نوعیت کے نمائشی افکار و اعمال کو اپنالے تو خرابیاں صرف بڑھتی رہیں گی۔ پستی سے بلندی کا سفر بھرپور محنت مانگتا ہے۔ اس سفر میں لیپا پوتی والی ذہنیت کسی بھی طور کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔
وقت خراج مانگ رہا ہے۔ کچھ کرنا ہے‘ آگے بڑھنا ہے تو فکر و عمل کی سمت درست کرنا لازم ٹھہرا۔ جو کچھ بھی کرنا ہے نیت کے مکمل اخلاص اور کام کرنے کی غیر معمولی لگن کے ساتھ کرنا ہے۔ ہر قوم نے اِسی طور ترقی ممکن بنائی ہے۔ ہم انوکھے نہیں کہ قدرت ہمیں استثنا دے۔ حالات کی پکار ہمیں سنائی نہیں دے رہی یا پھر یوں ہے کہ ہم اِسے اَن سُنی کر رہے ہیں۔ اصلاً اِس کی گنجائش نہیں۔ وقت یا حالات کی پکار کو نہ سننا محض نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔دنیا کے بدلتے ہوئے تیور پوری سنجیدگی کے ساتھ ٹھوس فکر و عمل کے طالب ہیں۔ کوئی اور آپشن نہیں بچا۔ نمائشی فکر و عمل سے نمائشی ترقی بھی ممکن نہیں ہو پاتی۔ یہ دنیا میدانِ عمل ہے۔ یہاں حقیقی اور ٹھوس فکر و عمل ہی کا سکّہ چلتا ہے۔ کوئی اور سکّہ چلانے کی کوشش ہمارے لیے وہ حالات پیدا کرتی رہے گی جو اب تک پیدا ہوتے آئے ہیں ... یعنی گدایانہ طرزِ حیات مقدر بنی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں