انسان ہو یا تہذیب‘ دونوں ہی کو وقت کے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اُنہیں ایک دن کے مختلف مراحل سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تب زندگی کا احساس غیر معمولی شدت سے ہوتا ہے۔ سورج بلند ہوتا جاتا ہے اور پورے ماحول میں تازگی بڑھتی جاتی ہے۔ صبح سات بجے سے کم و بیش ساڑھے گیارہ بجے تک پورا ماحول کام کرنے کی بھرپور لگن سے متصف ہوچکا ہوتا ہے۔ رات بھر کی پُرسکون نیند کے بعد بہت سویرے بیدار ہونے والے کام کرنے کی توانائی ہی نہیں‘ لگن سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ دن کے بارہ بجے تک یہ بھرپور لگن برقرار رہتی ہے اور سب جوش و خروش سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ سورج نصف النہار پر پہنچنے کے بعد آمادہ بہ زوال ہوتا ہے یعنی ڈھلنے لگتا ہے۔ جب ہمارے سروں پر پہنچنے کے بعد سورج مغرب کی سمت لڑھکنے کی ابتدا کرتا ہے تب ہم میں کام کرنے کی توانائی ولگن ماند پڑنے لگتی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی سی کسل مندی حواس و اعصاب پر سوار ہوتی ہے۔ اور پھر یہ کیفیت پختہ تر ہوتی جاتی ہے۔ یوں نصف النہار کے بعد استعدادِ کار بھی گھٹتی ہے اور لگن بھی۔ دوپہر تین بجے کے بعد تو صرف یہ فکر لاحق ہوتی ہے کب دن ڈھلے یعنی سورج ڈوبے اور گھر کی راہ لی جائے۔
یہی حال تہذیب کا بھی ہے۔ کوئی بھی تہذیب جب جنم لیتی ہے تب اُس میں توانائی بھی کم ہوتی ہے اور صلاحیت بھی۔ جب صلاحیت اور سکت کا گراف بلند ہوتا ہے تب تہذیب جڑ اور زور پکڑنے لگتی ہے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے یعنی تہذیب پر جوبن آتا جاتا ہے اور یوں وہ زیادہ لگن اور قوت کے ساتھ اپنے وجود کو منوانے کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ اس حالت میں کئی ادوار گزرتے ہیں یعنی تہذیب کی جوانی کا عہد کئی صدیوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب تہذیب اپنے حتمی منطقی عروج کو چھوتی ہے۔ انگریزی میں اِسے Optimum Level کہتے ہیں۔ اس سطح تک پہنچنے کے بعد تہذیب کا دم خم ماند پڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ خرابیوں کی بنیاد پڑتی ہے، وہ پروان چڑھنے لگتی ہیں اور یوں پوری تہذیب انحطاط کا شکار ہونے لگتی ہے۔ یہ عمل جب زور پکڑتا ہے تو تہذیب کا مکمل زوال یقینی ہوتا چلا جاتا ہے اور یوں دھیرے دھیرے تہذیب دم توڑنے لگتی ہے۔ روئے ارض پر کئی خطوں میں شاندار ثقافتوں نے جنم لیا۔ وہ پروان چڑھ کر تہذیب میں تبدیل ہوئیں اور پھر وقت کی دیمک نے اُنہیں چاٹ لیا۔ آج اُن کی صرف داستانیں رہ گئی ہیں۔
انسان کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ زندگی کو کئی ادوار میں واضح طور پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ شیر خوارگی، بچپن، لڑکپن، عنفوانِ شباب، شباب، پختہ شباب، ڈھلتی عمر، ابتدائی بڑھاپا، پنپتا بڑھاپا اور پھر قطعی بڑھاپا۔ ہر انسان ان تمام مراحل سے گزرتا ہے اور کچھ نہ ہونے کی حالت میں کچھ بننے کی کوشش کرتا ہے، کچھ بن بھی جاتا ہے، پھر وہ پائی ہوئی ہر چیز کھونے لگتا ہے، اچھی خاصی زندگی مٹی میں ملنے لگتی ہے اور ایک دن سب کچھ واقعی خاک ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری اصولوں کے مطابق ہے۔ ہم اس نظام میں کسی بھی طرح کا خلل نہیں ڈال سکتے۔ ہاں! اس نظام سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونا ہمارے اختیار کی بات ہے اور اختیار سے بڑھ کر یہ جبر کا معاملہ ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ فطرت کے اصولوں کے مطابق خود کو بدلیں۔ ایسا نہ کرنا ہر معاملے میں انتہائی خطرناک بلکہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
بچپن میں ہم ماحول کا حصہ ضرور ہوتے ہیں مگر ہماری سمجھ میں کچھ زیادہ آتا نہیں۔ بچپن کی حدود سے نکل کر لڑکپن کے میدان میں قدم رکھنے پر ہم ماحول کو کچھ کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم میں جوش و خروش بھی بڑھنے لگتا ہے۔ جسم چونکہ توانا ہوتا ہے اس لیے ہم لڑکپن میں ہر معاملے کو خاصی دلچسپی کے ساتھ دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ بہت کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا مگر پھر بھی ہم کچھ نہ کچھ کرنے اور ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وقت سیکھنے کی باضابطہ ابتدا کا بھی ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اگر موزوں ترین انداز سے رہنمائی نہ کی جائے تو شخصیت ناپختہ رہ جاتی ہے۔ اور پھر یہ خامی زندگی بھر پریشان کرتی رہتی ہے۔لڑکپن کے بعد عنفوانِ شباب آتا ہے یعنی انسان اٹھتی جوانی کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ اس مرحلے میں دل و دماغ کی عجیب ہی حالت ہوتی ہے۔ انسان توانائی کی سطح غیر معمولی حد تک بلند ہوتی ہے اور وہ بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ سیکھنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ اس مرحلے میں غیر معمولی رہنمائی لازم ہے۔ اگر اٹھتی جوانی میں انسان کو درست سمت نہ ملے تو کیریئر کے حوالے سے کوئی پیش رفت ممکن ہو پاتی ہے نہ زندگی ہی ڈھنگ سے بسر ہوتی ہے۔ جوانی کا رنگ جب پختہ ہوتا ہے تب انسان کسی حد تک سنجیدگی کی طرف مائل ہوتا ہے اور یوں اُس کے لیے حقیقی عملی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے۔
انسان کے لیے حقیقی مہلتِ عمل عہدِ شباب ہی ہے۔ یہی وہ دور ہے جو انسان کو بہت کچھ کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔ جسم بہترین حالت میں ہونے کی بدولت انسان اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق سب کچھ کر پاتا ہے۔ اس عہد ہی میں انسان کو آنے والے ادوار کی تیاری بھی کرنا ہوتی ہے۔ بیس سے پینتالیس سال کی عمر تک انسان کا جسم بھرپور توانائی سے متصف ہوتا ہے۔ اس دوران وہ کیریئر اور سماجی زندگی کے حوالے سے بہت کچھ کرتا ہے۔ یہ دور آنے والے زمانے کے لیے بھی بہت کچھ کرنے کا ہوتا ہے۔ ہر باشعور انسان بھرپور جوانی میں آنے والے زمانے یعنی بڑھاپے کی تیاری کرتا ہے۔ ڈھلتی جوانی میں بھی جسم قابلِ رشک حد تک کام کر رہا ہوتا ہے۔ بڑھاپے کی ابتدا میں بھی جسم کی حالت ایسی بُری نہیں ہوتی کہ کارکردگی کے بارے میں زیادہ تشویش کو راہ دی جائے۔ ہاں! یہ دور انسان سے سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے تاکہ خود کو آنے والے دور کے لیے تیار کیا جائے۔ بڑھاپے کے لیے خود کو تیار کرنا لازم ہے تاکہ سکت نمایاں حد تک ماند پڑ جانے کی صورت میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہر باشعور انسان بڑھاپے کے لیے پورے جوش و خروش اور ہوش مندی کے ساتھ تیاری کرتا ہے تاکہ ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ جانے کی صورت میں مالی مسائل کا سامنا نہ ہو۔ جوانی کے پچیس تیس سال کمانے کے ہوتے ہیں۔ جب جسم میں توانائی کا گراف غیر معمولی حد تک بلند ہو تب ایسا بہت کچھ کرنا ہوتا ہے جو اُس دور کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانے کے لیے بھی ہو۔ جو لوگ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اُن کا بڑھاپا قابلِ دید حد تک پُرسکون اور شاندار ہوتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
جو جا کے نہ آئے‘ وہ جوانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے‘ وہ بڑھاپا دیکھا
انسان کی زندگی کا ہر دور رخصت ہو جاتا ہے، بڑھاپا رخصت نہیں ہوتا۔ یہ صرف پختہ تر ہوتا رہتا ہے اور انسان اِس پختگی کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے۔ شعور کا بنیادی تقاضا اور مظہر یہ ہے کہ انسان اُس وقت آنے والے زمانوں کا سوچے جب دل و دماغ جولانی پر ہوں، جسم میں بھرپور سکت پائی جاتی ہو۔ یہی وہ دور ہے جب انسان اچھی طرح جینے کے قابل ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے کے لیے کچھ نہ کچھ بچاکر رکھ سکتا ہے۔ جوانی جاکے نہیں آتی اور بڑھاپا آکے نہیں جاتا۔ جوانی سے کماحقہٗ مستفید ہونا لازم ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ انسان آکے نہ جانے والے دور کے لیے خود کو تیار کرے۔ دانش مندی تو یہی ہے کہ جب جسم توانا ہو تب کام کرنے کی صلاحیت و سکت کو بدرجۂ اتم بروئے کار لایا جائے تاکہ اُس دور کے لیے کچھ اہتمام کیا جاسکے جب جسم کمزور پڑتا جائے گا۔ اور ایسا تو ہونا ہی ہے۔ اچھا ہے کہ بھری جوانی میں انسان کو بڑھاپے کا خیال آجائے اور وہ اس حوالے سے کچھ کرے۔