"MIK" (space) message & send to 7575

کیسے دعوے‘ کہاں کا موازنہ؟

فی زمانہ ہر اُس چیز کی طلب ہے جو متنازع ہے۔ ریٹنگ کے چکر میں لوگ زیادہ سے زیادہ متنازع معاملات کو اچھالتے ہیں۔ یہ رجحان اب فن کی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔ کسی دور میں یہ معاملہ اچھلا تھا کہ کس نے زیادہ گانے گائے ہیں۔ شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے دعویٰ کیا کہ وہ 54 ہزار گانے گاچکے ہیں! 1978 کے آس پاس محمد رفیع مرحوم اور لتا منگیشکر کے درمیان بھی اس حوالے سے تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لتا منگیشکر نے سب سے زیادہ گانے ریکارڈ کرانے کا دعویٰ کیا تو محمد رفیع صاحب نے بھی 24 ہزار سے زائد گانے ریکارڈ کرانے کا دعویٰ کردیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اُن کے گائے ہوئے فلمی گانوں کی تعداد تقریباً 6 ہزار ہے۔ اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ہندی فلموں کے لیے لتا منگیشکر کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد بھی 6 ہزار تک ہے۔
مہدی حسن کے گائے ہوئے فلمی گانوں کی تعداد 650 تک ہے! ان میں منسوخ گانے بھی شامل ہیں۔ فلم، ٹی وی، ریڈیو اور ریکارڈنگ کمپنیز کے لیے مہدی حسن کے ریکارڈ کردہ گانوں یا آئٹمز کی تعداد 2 ہزار سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ملکہ ٔ ترنم نور جہاں نے اپنے گانوں کی تعداد کے حوالے سے کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ اُن کے گائے ہوئے فلمی گانے تقریباً 1200 ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں مجیب عالم نے کہا تھا کہ وہ فلموں میں تین چار ہزار گانے گاچکے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اُن کے ریلیز ہونے والے فلمی گانوں کی تعداد 92 ہے! چار پانچ گانے منسوخ ہوگئے تھے۔ مہناز کے گائے ہوئے فلمی گانوں کی تعداد 192 ہے۔ ناہید اختر کا حساب کتاب بھی 400 تک محدود ہے۔ آنجہانی سلیم رضا (نوئل دیاس)نے کم و بیش 250 فلمی و غیر فلمی گانے گائے۔ مسعود رانا نے تقریباً 800 گانوں کے ساتھ فلمی میدان مار لیا جبکہ احمد رشدی اور مالا نے تقریباً چھ‘ چھ سو گانے گائے۔
گانوں کی تعداد کے حوالے سے بڑھکیں مارنے کے بعد اب فنکاروں کے موازنے کا رجحان متعارف کرایا جارہا ہے۔ ایک سوشل میڈیا پورٹل کی وڈیو میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مہدی حسن ورائٹی (تنوع) کے اعتبار سے محمد رفیع صاحب سے کم نہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے! یہ موازنہ بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ ان دونوں عظیم فنکاروں کے میدان مختلف تھے۔
ایک انٹرویو میں آنجہانی مَنّا ڈے نے کہا تھا کہ بھارت بلکہ پورے برصغیر میں محمد رفیع صاحب کے بعد وہی ہر اعتبار سے مکمل گلوکار ہیں۔ اُن کا دعویٰ بالکل درست تھا کیونکہ اُنہوں نے بھی رفیع صاحب کی طرح ہر قسم کے آئٹم گائے اور ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ رفیع صاحب مکمل فلمی گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ کلاسیکل گلوکار بھی تھے۔ انہوں نے فلموں کے لیے ہیروز پر فلمائے جانے والے طربیہ، المیہ، کامیڈینز پر فلمائے جانے والے شوخ، فلم کی بنیادی تھیم (تصور) پر مبنی، فلم کی سچویشنز کی مناسبت سے اور بالخصوص کلائمیکس میں استعمال ہونے والے اونچے سُروں کے تیز چال والے، فلم میں بھکاریوں پر فلمائے جانے والے اور خالص کلاسیکل انگ کے حامل نیچے اور اونچے سُروں کے گیت بے مثال مہارت اور آسانی سے گائے۔ خالص فلمی انداز کی غزل گانے میں بھی محمد رفیع صاحب کا کوئی ثانی نہ تھا۔ بعض گانوں میں باضابطہ ابتدا سے قبل موسیقی کے بغیر شعر کو تان لگاکر پڑھنے میں بھی رفیع صاحب اپنی مثال آپ تھے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ چلن اُنہی کا دیا ہوا ہے۔ بیجو باورا، بسنت بہار، کوہِ نور، سنگیت ،سمراٹ، تان سین، گونج اٹھی شہنائی اور دوسری بہت سی فلموں کے ذریعے رفیع صاحب نے خود کو خالص کلاسیکل گائیکی کے میدان میں بھی منوایا۔ یہی کچھ مَنّا ڈے نے بھی کر دکھایا۔ رفیع صاحب نے ہندو دیو مالائی فلموں کے گیت بھی خاصی مہارت سے گائے، بھجن گائیکی میں بھی وہ بے مثال تھے۔
ہیمنت کمار انتہائی سُریلے مگر آواز کی نوعیت کے لحاظ سے خاصے محدود گلوکار تھے۔ آنجہانی مکیش ماتھر اور کشور کمار گانگولی کی بھی ایک حد تھی۔ یہ دونوں عظیم فنکار تھے مگر قوّالیاں اور بھجن وغیرہ اچھی طرح نہیں گاسکتے تھے۔ کشور کمار لمبی تان اور سرگرم تھیم سانگ اور کلائمیکس میں استعمال ہونے والے گانے ریکارڈ کرانے میں بالعموم دِقّت محسوس کرتے تھے۔ راجیش کھنّہ کی فلم ''ہاتھی میرے ساتھی‘‘ کے کلائمیکس کے لیے گوائے جانے والے گانے ''مطلب کی دنیا کو چھوڑ کے‘‘ سے خود کشور کمار بھی مطمئن نہ ہوئے اور صاف کہہ دیا کہ یہ گانا رفیع صاحب سے ریکارڈ کرایا جائے کیونکہ فلم کی تھیم کے مطابق مطلوب جذبات صرف رفیع صاحب کے پاس ہیں! یہ 1971ء کی بات ہے۔ 1959 کی فلم ''شرارت‘‘ کا بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ کشور کمار کی آواز میں ایک گانا ''عجب ہے داستاں تری اے زندگی‘‘ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ سچویشن کی مناسبت سے آواز میں جو کچھ درکار تھا وہ کشور کمار نہیں دے سکے تھے اور انہوں خود ہی کہا تھا کہ یہ گیت رفیع صاحب سے گوایا جائے۔ اور پھر رفیع صاحب کا گایا ہوا ورژن ہی فلم کا حصہ بنا تھا۔
جو لوگ محمد رفیع اور مہدی حسن کا موازنہ کرکے دونوں کو برابر کا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بالعموم دونوں پر اور بالخصوص مہدی حسن صاحب پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ مہدی حسن مدھم سُروں کے انتہائی سُریلے گلوکار تھے۔ غزل اُن کا بنیادی میدان تھا۔ اس میدان میں اُن کے مقابل کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہدی حسن نے غزل کے سامعین پیدا کیے! اُن سے قبل غزل بھی ٹھمری کے سے انداز سے گائی جاتی تھی۔ برصغیر میں فلم انڈسٹری نے زور پکڑا تو غزل فلمی انداز سے گائی جانے لگی جو دراصل گیت کا انگ تھا۔ مہدی حسن کا کمال یہ تھا کہ غزل کو خالص غیر فلمی انداز اور گیت کے انگ سے ہٹ کر گاتے تھے۔
رفیع صاحب اصلاً اونچے سُروں میں گانے والے فنکار تھے۔ اُن کی پِچ دیکھ کر دنیا حیران رہ جاتی تھی۔ اوپر پہنچ کر بھی اُن کی آواز بگڑتی تھی نہ مٹھاس ختم ہوتی تھی۔ اُنہوں نے ایسے بیسیوں گیت دیے جن کی رینج کو دوسرا کوئی گلوکار چھو بھی نہیں سکتا۔ ''او دنیا کے رکھوالے‘‘ کے علاوہ ''بڑی دیر بھئی نند لالا‘‘ بھی رفیع صاحب کی رینج کا نمایاں ترین مظہر تھا۔ بھارت میں آنجہانی مہیندر کپور اور پاکستان میں مسعود رانا مرحوم بھی رفیع صاحب کی طرح بہت اونچائی تک جاتے تھے مگر وہاں اُن کی آواز میں مٹھاس باقی نہیں رہتی تھی۔ ایسی ہائی پِچ کی مہدی حسن سے توقع رکھنا اُن سے زیادتی ہے۔ مہدی حسن کھرج کے سُروں کے انتہائی نفیس اور سُریلے گلوکار تھے۔ انہوں نے غزل سرائی کو ایسا عروج بخشا کہ اب کوئی اور اُن کا ہمسر ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اُن کی آواز انتہائی نازک اور میٹھی تھی۔ ''روز کہتا ہوں بھول جاؤں تجھے‘‘ ایک ایسا ہی گانا ہے جس کا پہلا مصرع ''جانتا ہوں کہ بے وفا تو ہے‘‘ مہدی حسن نے موسیقار کی ہدایت کے مطابق کھینچ کر ادا کیا مگر ایسا کرنا اُن کی آواز پر جچتا نہیں تھا۔ بنیادی طور پر فلمی نہج کے گلوکار نہ تھے۔ ''بھانڈے قلعی کرالو‘‘ اور ''دلہن میں لے کے جاؤں گا‘‘ جیسے گانے اُن کے لیے نہیں تھے مگر اُنہیں ریکارڈ کرانا پڑے۔ پھر ایک سوال سانس کا بھی ہے۔ رفیع صاحب کا سانس بہت پختہ تھا جو کسی بھی مرحلے پر ٹوٹتا نہیں تھا۔ مہدی حسن اس معاملے میں زیادہ دور تک نہیں چل پاتے۔ اُن کے فن میں پکا سانس اور بلندی تلاش کرنے کے بجائے مٹھاس، نرمی، ٹھنڈک اور ٹھہراؤ ڈھونڈنا چاہیے۔ رفیع صاحب نے وہ سب کچھ گایا جس کے بارے میں صرف سوچا جاسکتا ہے۔ مہدی حسن اپنی آواز کی نوعیت کے حوالے سے مجبور و محدود تھے، ہر طرح کا آئٹم گانا اُن کے بس میں نہ تھا۔ صرف یہ یاد رہے کہ غزل سرائی اور لَے کاری میں اُن کا ثانی یا متبادل کوئی نہیں۔ ہاں! ہر اعتبار سے مکمل گلوکار تو محمد رفیع صاحب ہی تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں