امریکا کی الجھن شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ جس نے دنیا کے ہر خطے کی حالت بگاڑی ہے‘ نسلوں کو تباہی سے دوچار کیا ہے‘ اُس کی پریشانی دیکھ کر ایک دنیا محظوظ ہو رہی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر امریکا نے سوچ لیا تھا کہ دنیا اب یک قطبی رہے گی یعنی وہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے تمام معاملات پر حاوی و متصرف رہے گا۔ سرد جنگ کے خاتمے پر جو کچھ دکھائی دے رہا تھا اُس کی روشنی میں امریکی پالیسی میکرز اور قائدین کا ایک طویل مدت تک بلا شرکتِ غیرے پوری دنیا پر راج کرنے کے بارے میں سوچنا بلا جواز تھا نہ بے بنیاد۔ امریکا ہائی ٹیک اور بالخصوص عسکری ٹیکنالوجیز کے حوالے سے نمبر ون تھا۔ خالص پیشہ ورانہ یا کاروباری معاملات کے لیے جو ٹیکنالوجیز درکار تھیں وہ بھی امریکی ہائی ٹیک سیکٹر بخوبی دے رہا تھا۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا‘ یہ گویا ہنی مون پیریڈ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپ جیسا انتہائی تعلیم یافتہ، مہذب، جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت کا حامل اور معیشت و معاشرت میں ایک دنیا کے لیے قابلِ تقلید ٹھہرنے والا خطہ بھی امریکا کے ساتھ تھا،یا شاید یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ امریکا کی جیب میں تھا۔
آج معاملات بہت مختلف ہیں۔ یورپ نے بہت حد تک اپنی راہ الگ کرلی ہے‘ وہ نئی اور بدلی ہوئی دنیا میں زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے چلنا چاہتا ہے۔ امریکا سے دوستی بہت اچھی بات سہی مگر جغرافیائی حقیقتوں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ کے قائدین نے محسوس کرلیا ہے کہ ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ دینا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں ساتھ دینے کی گنجائش ہو بس وہیں ساتھ دیا جانا چاہیے۔ امریکا اب تک یورپ پر دباؤ ڈال کر اُسے اپنی غلط پالیسیوں کی اندھی حمایت پر مجبور کرتا آیا ہے۔ یورپ اب ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ وہ جانتا ہے کہ امریکی پالیسیوں کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت اُسے گرداب کی نذر بھی کرسکتی ہے۔ یورپ میں رائے عامہ بھی یہی کہتی ہے کہ ہر معاملے میں سوچے سمجھے بغیر امریکا کی حمایت سے گریز کیا جائے۔ افغانستان، عراق، شام اور دوسرے بہت سے ممالک میں امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنے کا جو خمیازہ یورپ نے بھگتا ہے وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اب ہوش کے ناخن لیے جائیں۔
اکیسویں صدی کا تیسرا عشرہ شروع ہونے کو ہے۔ تین عشروں کے دوران امریکا نے خود کو آنے والے زمانے کے لیے اچھی طرح تیار کرنے کے بجائے صرف خود سَری کا ثبوت دیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق چلتا رہے، اسی طرح ہوتا رہے۔ یورپ نے اپنی راہ الگ کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ دانش و حکمت کے سہارے آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یورپ کے پاس آپشنز بھی محدود ہیں۔ افریقہ کو ایک زمانے تک نظر انداز کیا گیا مگر اب ایسا ممکن نہیں۔ چین نے افریقہ پر بہت محنت کی ہے۔ سوال اس خطے کے قدرتی یا معدنی وسائل تک رسائی اور ان پر تصرف پانے کا نہیں بلکہ خطے کے ممالک کا عمومی معیارِ زندگی بلند کرنے کا بھی ہے۔ چین نے اس حوالے سے بھی کچھ کام کیا ہے۔ امریکا اور یورپ دونوں کے لیے یہ انتہائی خطرناک امر ہے کیونکہ دونوں نے اب تک افریقہ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ یورپ جغرافیائی اعتبار سے افریقہ سے جُڑا ہوا ہے مگر پھر بھی اُس نے اس بڑے خطے کو صدیوں تک یوں نظر انداز کیا ہے گویا اُس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ امریکا نے بھی ایک طرف تو جنوبی امریکا کو بربادی کی نذر کیا اور دوسری طرف وہ ایشیا کے مختلف حصوں میں گھناؤنا کھیل کھیلتا رہا۔ نکارا گوا، ویتنام، افغانستان، عراق، شام اور لیبیا کی تباہی امریکی پالیسیوں کے گھناؤنے پہلوئوں کی کھل کر نشاندہی کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب چلتا رہے گا؟ سچ یہ ہے کہ اب امریکا کے لیے خرابیاں پیدا کرنے کی کچھ زیادہ گنجائش رہی نہیں۔ چین کی شکل میں ایک ایسی ہڈی نمودار ہوئی ہے جو امریکا کے گلے میں پھنس سی گئی ہے۔ یورپ کے لیے بھی چین کم خطرناک نہیں بلکہ یورپ کے قائدین تعقل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں جن میں چین کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی گنجائش ہے اور یوں کسی بڑے تصادم کی راہ ہموار کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن ہوسکے گا۔ امریکا کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ ہضم کرنا تو دور کی بات ہے، امریکا اب تک چین کو ایک بڑی زمینی حقیقت کی حیثیت سے قبول بھی نہیں کرسکا ہے۔ وقت اور عقل کا تقاضا ہے کہ چین کی بڑائی بھی تسلیم کرلی جائے اور اُسے عالمی نظام میں اس طور سمویا جائے کہ کسی کے لیے کوئی بڑی الجھن باقی نہ رہے۔ امریکی قیادت اب تک ایسا کرنے سے گریز کرتی آئی ہے۔ وہ شاید یہ سوچ رہی ہے کہ چند ایک سخت اقدامات کے نتیجے میں چین کو دبوچ کر ایک طرف بٹھادیا جائے گا۔ حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ ایسا کرنا امریکا کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اُس کی پالیسیوں میں تضادات بہت زیادہ ہیں۔ ایک طرف تو وہ چین اور اس کے ہم خیال ممالک کو دبوچ کر رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ ترقی پذیر دنیا کو ہم خیال بنانے اور اُس کے لیے نرم رویہ اختیار کرنے کو تیار نہیں۔
کیا امریکا کے لیے چین کو دبوچنا ممکن ہے؟ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کئی شعبوں میں چین آج بھی امریکا سے پیچھے ہے۔ ہائی ٹیک ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس شعبے میں چینی ادارے امریکی اداروں سے مقابلے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عسکری برتری میں بھی چین اب تک امریکا سے خاصا پیچھے ہے۔ پھر کیا سبب ہے کہ امریکا اب تک چین سے شدید خوفزدہ ہے؟ ٹرمپ انتظامیہ چین سے اتنی خوفزدہ ہے کہ اُس سے ہر طرح کے معاشی و مالیاتی تعلقات ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ یہ تو انتہا ہے۔ اب ایسا بھی کیا خوف کہ چین کو ایک طرف ہٹانے کی سوچ پروان چڑھائی جائے؟ کیا چین کو عالمی معیشت سے الگ تھلگ کیا جاسکتا ہے؟ ایسا کرنا چین کو کم اور دوسروں کو زیادہ نقصان پہنچائے گا؟ اور پھر یہ حقیقت بھی تو اپنی جگہ ہے کہ چین اب امریکا سمیت بہت سے بڑے ممالک کی معیشت سے اس طور وابستہ و پیوستہ ہے کہ اُسے اچانک الگ کرنے پر کئی معیشتیں جھاگ کی طرح بیٹھنے لگیں گی۔ ماہرین اور تجزیہ کار بھی اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ چین کو اچانک تمام معاملات سے الگ کردینا کسی بھی لحاظ سے ممکن نہیں۔ ایسی کوئی بھی کوشش صریح حماقت کا مظہر سمجھی جائے گی۔ درجنوں بڑی امریکی کمپنیاں اپنی مصنوعات کے لیے بہت کچھ چین سے اور چین میں بنواتی ہیں۔ لاگت کا عنصر یورپ کے متعدد کاروباری اداروں کو بھی چین کی راہ دکھا رہا ہے۔ چین نے کم و بیش چار عشروں تک غیر معمولی مشق و مشقّت سے خود کو عالمی معیشت میں کسی بڑے کردار کے لیے تیار کیا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین سے مقابلہ کرنے کی ہمت امریکا میں بھی نہیں۔ یورپ تو خیر چین سے براہِ راست متصادم ہونے کا خیال بھی ذہنوں سے جھٹک چکا ہے۔ اور یہی دانش مندی ہے۔ چین کو ایک بڑی معاشی اور سیاسی حقیقت کی حیثیت سے تسلیم و قبول کرلینا ہی امریکا اور یورپ کے لیے بہترین آپشن ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے درجنوں بڑے ادارے چین پر انحصار کرتے ہیں۔ چین کو سپلائی چین سے مکمل طور پر الگ کرنا فی الحال ممکن نہیں۔ امریکی پالیسی میکرز کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ چین رقبے، آبادی اور معاشی قوت کے اعتبار سے اتنا بڑا ہے کہ امریکا سمیت کسی بھی ترقی یافتہ ملک کو منہ کے بل گرا سکتا ہے اور ایسا ہی کر رہا ہے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ چین کو گلے کی ہڈی یا چھچھوندر سمجھنے کے بجائے ایک مضبوط حریف سمجھتے ہوئے اُس کا کماحقہٗ احترام کیا جائے اور غیر دانش مندانہ و عاجلانہ طریقوں سے سائیڈ لائن کرنے کے بجائے صحت مند مقابلے کے ذریعے اُس کا سامنا کیا جائے تاکہ معیشتوں کا چین پر انحصار معقول حد تک کم کرنا ممکن ہو اور معاملات کو بگڑنے سے بچایا جاسکے۔ یہ حقیقت نظر انداز نہ کی جائے کہ چین ایک حقیقت ہے۔