وقت نے ایک کام بہت تیز کردیا ہے، یہ کہ وہ بہت سے معاملات کے چہرے سے نقاب اتارتا چلا جارہا ہے۔ زندگی کا ہر پہلو اب ہمارے سامنے کچھ اِس انداز سے آرہا ہے کہ حیران ہونے کی گنجائش نہیں رہی اور متوجہ ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ جو اب تک یہ سمجھتے آئے ہیں کہ معاملات خود بخود درست ہو جائیں گے اُنہیں اچانک یہ احساس ہوا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی دور میں‘ کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ معاملات خود بخود درست ہوگئے ہوں۔ ہر عہد اُن کے نام رہا ہے جنہوں نے معاملات کو درست کرنے پر توجہ دی ہے۔ اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوشش ہی دوسروں کی نظر میں بھی محترم بناتی ہے۔
ویسے تو خیر کب سوچنا لازم نہ تھا، مگر اب معاملہ یہ ہے کہ نہ سوچنے کی گنجائش نہیں رہی۔ وقت کی پکار ہے کہ ذہن کو متحرک کیا جائے، سوچنے کی عادت پروان چڑھائی جائے۔ عمومی سطح پر ہم جسے سوچنا سمجھتے ہیں وہ محض پریشانی اور بدحواسی ہے۔ کسی بھی صورتحال کو دیکھ کر ہم ابتدائی مرحلے میں اور عمومی سطح پر صرف پریشان ہوتے ہیں۔ جب ہم سوچنے کے بجائے صرف پریشان ہو اٹھتے ہیں تب محض خدشات لاحق ہوتے ہیں، دل اندیشوں اور وسوسوں میں گِھرا رہتا ہے۔ یہ کیفیت معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھاتی ہے۔ قوم سوچ کے معاملے میں اب تک ایڈہاک ازم کے تحت جی رہی ہے۔ اگر کسی معاملے میں کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کر بھی لی جائے تو محض وقتی فائدے کا سوچا جاتا ہے۔ ایسی سوچ میں دور اندیشی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ اس وقت بھی قوم کا حال یہ ہے کہ مجموعی طور پر کیمپوں میں بسر کی جانے والی زندگی ہی کو آپشن کے طور پر اپنالیا گیا ہے۔ عمومی سطح پر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور وقت کو دھکا مارا جائے، معاملات پر جیسے تیسے مٹی ڈال کر گزارہ کرلیا جائے۔ یہ سوچ کسی بھی قوم کو صرف تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے اور ہمیں بھی یہ سوچ اسی طرف لے جارہی ہے۔ کیا زندگی بسر کرنے کا یہ انداز موزوں ہے؟ کیا ہم باقی دنیا سے انوکھے ہیں؟ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور کھڑے بھی کہاں ہیں‘ گِرے ہوئے ہیں، دھنسے ہوئے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے یعنی جو کچھ ہمیں کرنا ہے اُس کی گنجائش تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔
کرنے کے کام تو اور بھی بہت سے ہیں مگر اس وقت سب سے پہلے یہ سیکھنا ہوگا کہ ہمیں کب کب‘ کیا کیا سیکھنا ہے۔ آج کی دنیا صرف اُن کی ہے جو سیکھنے کے لیے تیار ہوں۔ ایک دنیا ہے کہ سیکھنے اور سکھانے پر کمربستہ ہے۔ جن اقوام نے ترقی کی ہے وہ بہت کچھ سکھانا چاہتی ہیں۔ کمزور اور پسماندہ اقوام کو بھی آگے بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی قوم نے اگر ترقی کی ہے تو صرف اپنی صلاحیت اور محنت سے۔ ترقی کوئی ایسی چیز نہیں جو قدرت یا تقدیر نے تھالی میں سجاکر پیش کردی ہو۔ قدرت کے اپنے اصول ہیں۔ ان اصولوں کا احترام کرتے ہوئے اِن پر عمل کرنے والوں کو بہت کچھ ملتا ہے۔ دنیا بھرمیں جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر نظر ڈال کر بہت کچھ کرنے کی تحریک پیدا کی جاسکتی ہے۔ زندگی کو ہر اعتبار سے کامیاب بنانے کا معقول ترین طریق یہی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ معاشروں پر طائرانہ سی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ اُن کا مقدر اُسی وقت بدلا جب انہوں نے سیکھنے کے عمل کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا۔ اور یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ سیکھنا کسی ایک ایونٹ کا نام نہیں۔ یہ تو وہ عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جس قوم نے سیکھنے کا عمل جاری رکھا‘ وہی کامیاب ہوئی۔ اُسی کو دوسروں پر راج کرنے کا موقع ملا اور اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانا بھی اُسی کے لیے ممکن ہوسکا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی معاشرے نے سوچے بغیر ترقی نہیں کی۔ سوچنے ہی سے معیاری زندگی کی راہ ہموار ہوتی ہے، منصوبہ سازی کا رجحان پنپتا ہے۔ سوچنے کا عمل کسی بھی فرد یا قوم کو منزل کا راستہ سُجھاتا ہے۔ یہ عمل فرد اور قوم دونوں میں غیر معمولی اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اعتماد ہی آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرنے والی سب سے بڑی طاقت ہے۔
سوچنے کی عادت یا رجحان کو پروان چڑھانا ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایسا ہنر ہے جو غیر معمولی توجہ اور مشق مانگتا ہے۔ جو لوگ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنانے کی خاطر کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ وہ سوچنے کا ہنر سیکھنے پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے اچھا خاصا پڑھنا پڑتا ہے۔ فی زمانہ بہت سے ماہرین سوچنے کا فن زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے لیے متحرک ہیں۔ وہ اپنی تحقیق و تحریر کے ذریعے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ معیاری انداز سے سوچنا کیا ہوتا ہے۔ ایڈورڈ ڈی بونو کا شمار اُن اہلِ علم میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی بھر سوچا اور سوچنے کا فن سکھایا ہے۔ اُن کی کتابوں سے ایک دنیا نے اکتساب کیا ہے۔ مغربی معاشرے اس حوالے سے بہت متحرک ہیں کیونکہ وہاں اب سوچ ہی سب کچھ ہے۔ حکومتیں سوچ کو زیادہ سے زیادہ منضبط کرنے پر متوجہ رہتی ہیں۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہوکر حکومتیں اپنی مرضی کی پالیسیوں کو مقبولیت سے ہم کنار کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ماہرین بھی سوچنے کے حوالے سے عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ زندگی کا اقتصادی پہلو متوازن اور مستحکم رکھنے کے لیے برقت اور معیاری سوچ اپنانا لازم ہے۔ ع
جو مل گیا اُسی کو مقدر سمجھ لیا
والی سوچ سے گریز لازم ہے۔ ہم روئے زمین پر اِس لیے نہیں بھیجے گئے کہ جو مل جائے اُس پر خوش ہو رہیں۔ ہمیں سوچنا ہے، کچھ پانے کا ذہن بنانا ہے اور پھر اپنے عمل کے ذریعے بہت کچھ پانے کی کوشش بھی کرنی ہے۔ نہ سوچنا بھی ایک آپشن ہے مگر اس آپشن کی گنجائش کبھی نہیں ہوتی۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کسی کا دل کمزور ہو جائے اور فوری علاج ناگزیر ہو، علاج نہ کرانا بھی آپشن ہے مگر یہ آپشن کہاں لے جائے گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ حادثے میں شدید زخمی ہونے والے کا علاج نہ کرانا بھی آپشن ہے مگر یہ آپشن ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ سوچنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں سوچنے کی تحریک پانا مشکل نہیں اور سوچنے کا فن سیکھنا بھی کچھ دشوار نہیں۔ آن لائن کلچر نے بہت کچھ بڑی آسانی سے ہم تک پہنچا دیا ہے۔ استفادہ کرنا‘ نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین کے تجزیے اور تحریریں ہمیں دستیاب ہیں۔ انہیں پڑھ کر ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پڑھنے اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم کچھ پڑھنا اور سیکھنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ شخصیت میں توازن اور استحکام صرف مطالعے سے پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم دوسروں کے تجربات پڑھتے ہیں تب ہمیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ ایسی حالت میں ہم اپنی اصلاح پر مائل ہوسکتے ہیں اور اپنی اصلاح یقینی بنانے کی صورت میں ایسا بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے جو زندگی معیاری انداز سے بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ کچھ پانے کی تمنا رکھنے والے ہر فرد اور معاشرے نے یہی تو کیا ہے۔
سوچنا اور حالات کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہونا ہر انسان پر لازم ہے۔ اگر اور کچھ ممکن نہ ہو تو جس میں جتنی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہو اُتنا تو وہ کرے۔ یونہی‘ الل ٹپ انداز سے گزارے جانے والے وقت کو زندگی قرار دے کر دل بہلانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ایسی ضرورت ہے جس سے نظر چرائی نہیں جاسکتی۔ کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ فکر و عمل میں توازن اور بالیدگی پیدا نہ ہوئی تو پھر تباہی مقدر ہوگی۔