معاشرے راتوں رات نہیں بدلتے۔ عشروں کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے اور کئی بڑی تبدیلیوں کے لیے تو کبھی کبھی معاشروں کو صدیوں تک کام کرنا پڑتا ہے۔ مغرب اور بالخصوص یورپ کے معاشروں نے ثابت کیا ہے کہ زندگی کا رخ مکمل طور پر تبدیل کرنا کھیل نہیں‘ اس کے لیے غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ صدیوں کی محنت بھی درکار ہوتی ہے۔
باقاعدگی سے فیڈ بیک دینے والوںمیں عامر عباسی نمایاں ہیں۔ وہ بھی شخصی ارتقا سے متعلق موضوعات پر مطالعے کے شوقین ہیں۔ بلاگز کی شکل میں خود بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ اُن کی پُرخلوص فرمائش ہے کہ نئی نسل کو بہتر زندگی کے اوصاف بتانے کے معاملے میں ''زر فہمی‘‘ کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ آج کا پاکستان بالعموم معاشی اور بالخصوص مالیاتی معاملات کو سمجھنے کی خاطر خواہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ نئی نسل کو پہلے مرحلے میں ''زر شناس‘‘ بنانا لازم ہے تاکہ وہ زر فہمی کی طرف بڑھ سکے۔ بھائی عامر عباسی کی فرمائش سر آنکھوں پر۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے پاکستان کو اگر کوئی چیز سب سے زیادہ سمجھنی ہے تو وہ ''زر‘‘ ہے۔ معاشی معاملات کی تفہیم کے بغیر بات بن نہیں سکتی۔
انسان کے لیے معاشی معاملات کا فہم ہر دور کی بنیادی ضرورت رہا ہے۔ اس بنیادی ضرورت کو تسلیم کرنے سے گریز بیشتر معاملات کو بگاڑ دیتا ہے۔ علم الاقتصاد سے ہر انسان کا بنیادی نوعیت کا تعلق ہے۔ ہمیں زندگی بھر معاشی جدوجہد کرنا پڑتی ہے تاکہ ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموار ہوسکے۔ کسی نہ کسی سطح پر معاشی جدوجہد ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ جو لوگ معاشی جدوجہد کے حوالے سے انقلابی نوعیت کی سوچ رکھتے ہیں اور دوسروں سے زیادہ کمانا چاہتے ہیں اُن کی معاشی جدوجہد الگ ہی پہچانی جاتی ہے۔ اُن کے معاشی افکار و اعمال میں تحریک و تحرّک صاف دکھائی دیتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کے لیے بھی تحریک و تحرّک کا مآخذ بن جاتے ہیں۔
نئی نسل کو زر کے بارے میں بتانا اس لیے ناگزیر ہے کہ چھوٹی عمر میں زر کی حقیقت کو سمجھنے کی صورت میں عملی زندگی کے بنیادی تقاضوں کو سمجھنا اور تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ نمایاں کامیابی یا ترقی یقینی بنانے والے معاشروں میں نئی نسل کو اقتصادی امور کے بارے میں بتانے کا چلن عام ہے۔ عمومی تعلیم میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر سے زر کی حقیقت کو سمجھنے کی لگن پیدا ہو۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ زر کو سمجھنا زندگی کے بیشتر معاملات کو سمجھنے میں مدد دیتاہے۔ ہمارے کم و بیش تمام معاملات اقتصادی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں۔ خالص نظریاتی امور بھی کسی نہ کسی مرحلے پر زر کے سامنے آکر فکر و نظر کے اعتبار سے بحرانی کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔ کبھی کبھی زر کا سامنا ہونے پر زندگی کا نظریاتی و روحانی پہلو بھی سخت آزمائش میں پڑ جاتا ہے۔ اگر کسی کو چھوٹی عمر سے زر کی حقیقت بتائی اور سمجھائی گئی ہو تو فکر و نظر اور روحانیت کے اعتبار سے بحرانی کیفیت میں قدم ڈگمگانے کا احتمال کم ہوتا ہے۔ زر شناسی و زر فہمی کے معاملے میں جامع تربیت انسان کو ہر بڑی بحرانی کیفیت میں متوازن طرزِ فکر و عمل اختیار کرنے کی راہ سُجھاتی ہے۔
عام آدمی کو علم الاقتصاد کی سنگلاخ اصطلاحات اور پیچیدہ مباحث سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی اور یہ سب کچھ اس کے لیے زیادہ کام کا ہے بھی نہیں۔ اُس کے لیے اتنا سمجھ لینا ہی بہت ہے کہ اقتصادی امور کا بنیادی یا اصولی نوعیت کا فہم زندگی کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ معیشت کس طور کام کرتی ہے اس کے بارے میں طائرانہ نوعیت کی سوچ ہر اُس انسان کے لیے لازم ہے جو پورے ہوش و حواس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ عنفوانِ شباب میں انسان پر فکر و نظر کم اور جذبات زیادہ حاوی ہوتے ہیں۔ جذباتیت کے ہاتھوں انسان ایسے کام بھی کر گزرتا ہے جو بالعموم بالارادہ نہیں ہوتے۔ زندگی کے اقتصادی پہلو کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ حاصل کرنا لازم ہے اُس کے حصول کی جدوجہد انسان سے بہت سے معاملات میں بالغ نظری اور تحمل پسندی کا تقاضا کرتی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ نوجوان اس بنیادی تقاضے کو نظر انداز کرتے ہوئے دل کا کہا مانتے ہیں اور اپنی کشتی اپنے ہی ہاتھوں ڈبو بیٹھتے ہیں۔
انسان اور دولت کا زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ علم الاقتصاد کی اصطلاح میں ہر وہ چیز دولت ہے جس کی کوئی نہ کوئی قدر ہو اور جس کے حصول کے لیے محنت کرنا پڑے یعنی مفت نہ ملے۔ پانی اور ہوا ہمیں مفت ملے ہیں اس لیے انہیں علم الاقتصاد کی رُو سے دولت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دولت سے کہیں بڑھ کر یہ ہمارے لیے نعمت ہیں۔ نعمت کا موازنہ اس دولت سے نہیںکیا جاسکتا جو انسان کو جدوجہد کے ذریعے حاصل کرنی پڑے۔
نئی نسل کو عملی زندگی کی ابتدا سے قبل اُس کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کی غرض سے بتانا چاہیے کہ اُس کا اور دولت یا زر کا زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ یہ ساتھ اُسی وقت نِبھ سکتا ہے جب زر کے حوالے سے ذہن بالکل واضح ہو۔ زر کے بارے میں نئی نسل کا ظن اُسی وقت واضح ہوسکتا ہے جب اُسے زر کے حصول کے لیے کی جانے والی محنت کا اندازہ ہو۔ ترقی یافتہ معاشروں میں خاصی چھوٹی عمر سے پریکٹیکل یعنی عمل پسند ہونے کی تربیت دی جاتی ہے۔ والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو ضایع کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اُس کے حصول پر محنت بھی کی جاتی ہے اور وقت بھی صرف کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان کو چھوٹی عمر سے معلوم ہو کہ کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے تو وہ اُس سے بھرپور استفادہ یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ضیاع کا تو سوچتا بھی نہیں۔
کوئی بھی نوجوان جب عملی زندگی کی ابتداء کرتا ہے تو اپنی کمائی کا نشہ سا طاری ہونے لگتا ہے۔ جیب میں اپنا کمایا ہوا مال ہو تو نوجوان کسی اور ہی دنیا میں رہنے لگتے ہیں۔ ایسے میں بہک جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی بُرے کاموں میں نہ بھی پڑے تو فضول خرچ تو ہو ہی جاتا ہے۔ نئی نئی کمائی کو مختلف مدوں میں خرچ کرنے کا ایک اپنا ہی لطف ہے۔ اور پھر لوگوں کو بتانا بھی ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنے بُوتے پر کیا ہے! یہی وہ وقت ہے جب نئی نسل کو زر فہمی کے حوالے سے راہ نمائی درکار ہوتی ہے۔
زر کی آمد شروع ہوتی ہے تو انسان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر یعنی اٹھتی جوانی میں توقع سے کہیں زیادہ آمدنی ذہن پر منفی اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ زر کی روانی (cash-flow) انسان سے تحمل کا تقاضا کرتی ہے۔ جب زر آرہا ہو تو اُسے سنبھالنا اور ڈھنگ سے بروئے کار لانا بڑا فن ہے۔ یہ فن بھی سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ کاروباری گھرانے اپنی اولاد کو چھوٹی عمر سے زر کی روانی اور فراوانی سمجھنے کا فن سکھاتے ہیں تاکہ وہ محنت سے کمائے ہوئے زر کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے میں کامیاب ہوں۔ اگر کوئی زر کی روانی اور فراوانی کو سمجھنے کا شعور نہ رکھتا ہو تو بہک اور بگڑ سکتا ہے۔ نئی نسل کو شخصی ارتقا کے حوالے سے کچھ سکھاتے وقت زر فہمی کو بھی غیر معمولی اہمیت دی جانی چاہیے۔ نئی نسل کو آگے چل کر اپنی اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کمانا ہوتا ہے۔ اگر وہ زر کو سمجھتی ہو تو اُسے بروئے کار لانے میں بھی دانش سے کام لے گی۔ اگر نئی نسل کو زر کی حقیقت کا زیادہ علم نہ ہو تو اُسے برتنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں اچھی خاصی کامیابی بھی ناکامی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ زندگی کے چند بنیادی تقاضوں میں زر شناسی و زر فہمی بھی ناگزیر ہے۔ معاشی جدوجہد چونکہ زندگی کے بڑے حصے پر محیط ہوتی ہے اِس لیے ہماری خصوصی توجہ کی طالب ہے۔ اس ایک معاملے کے درست رہنے سے بہت کچھ درست رہتا ہے۔