"MIK" (space) message & send to 7575

ترکی مغرب کو کیوں برا لگ رہا ہے؟

مسلم دنیا پر مجموعی اعتبار سے جمود طاری ہے۔ عشروں سے اس بات کا انتظار ہے کہ کوئی تو ہو جو طاقتوروں کی آنکھ میں کھٹکے‘ کوئی تو ہو جو مسلم دنیا کو شدید انحطاط اور جمود کی فضا سے نکال کر تحرّک کی فضاء میں سانس لینے کا موقع فراہم کرے۔ دو عالمی جنگوں کے نتیجے میں کئی خطے آزاد ہوئے۔ آزاد ہونے والے ممالک میں مسلم ریاستیں نمایاں تھیں۔ نو آبادیاتی نظام ختم ہونے پر سوچا گیا کہ شاید اب مسلم ممالک کی تقدیر بدلے گی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ آزادی سے خیر غیر مسلم ریاستوں کو بھی کچھ خاص حاصل نہ ہوا۔ سات آٹھ عشروں سے معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ آزادی مل تو گئی ہے مگر برائے نام۔ ایسی آزادی کس کام کی جس میں بالواسطہ طور پر عہدِ غلامی ہی جاری رہے؟ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک دنیا بھر کے مسلم معاشرے پسماندگی اور زوال سے دوچار رہے ہیں۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ مسلم دنیا جمود کی دیوار گراکر آگے بڑھے۔ یہ کام کون کرے گا؟ عرب ممالک تو اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوڑ میں شریک ہیں‘ پاکستان کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جن کی طرف، کسی نہ کسی معاملے میں، امریکا بھی دیکھتا ہے اور یورپ بھی۔پاکستان شاید اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں کہ مسلم دنیا میں کوئی قائدانہ کردار ادا کرسکے۔
ترکی ایک زمانے تک مسلم دنیا کا قائد رہا ہے۔ ترک ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پوری اُمّت کی نہ سہی، ترکی کی نشاۃِ ثانیہ سہی۔ کچھ نہ کچھ ہلچل ہو تو رہی ہے۔ مسلم دنیا میں ترکی کا مقام تیزی سے نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ رجب طیب اردوان کی قیادت میں ترکی نے خود کو منوانے کی غیر معمولی کوششیں کی ہیں۔ موجودہ ترک قیادت مسلم دنیا کی قیادت کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی خواہش مند دکھائی دیتی ہے کہ ایک خاص حد تک مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جائے۔ اس معاملے میں تھوڑے بہت مفادات بھی داؤ پر لگتے ہیں تو لگتے رہیں۔ ترکی نے کئی عشروں کی شبانہ روز محنت کے ذریعے بہت کچھ پایا ہے۔ وہ معاشی اعتبار سے بھی مضبوط ہے اور نظامِ حکمرانی کے حوالے سے بھی پوزیشن کمزور نہیں۔ ایسے میں اردوان کا ڈٹ کر سامنے آنا تھوڑی سی خوشگوار حیرت لیے ہوئے ہے۔ عشروں میں پائی بلکہ کمائی ہوئی ترقی بھلا کون داؤ پر لگاتا ہے؟ ترکی نے ایک زمانے تک یورپ کے بعض حصوں پر بھی حکومت کی ہے۔ یہ حقیقت یورپ اب تک بھولا نہیں ہے۔ ایران بھی ترکی کے ساتھ ہے اور بعض معاملات میں روس بھی ان کا ساتھی ہے۔ ہاں! ملائیشیا کا ان ممالک سے جُڑ کر سامنے آنا اور مغرب کو کسی حد تک للکارنا حیرت انگیز ہے۔ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترکی اور ایران کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور فلسطین کے مسئلے پر ملائیشیا نے اپنے معاشی مفادات کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا اور جب مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں پاکستانی مؤقف کو سراہا تو بھارت نے اُس سے سویا بین کی خریداری کے سودے منسوخ کردیے تھے۔ مہاتیر محمد نے اس کے باوجود آگے بڑھایا ہوا قدم پیچھے لانے پر ذرا سی بھی آمادگی نہیں دکھائی۔ یہ دیگر ممالک کے لیے ایک اچھی مثال ہے کہ اب انہیں بھی تھوڑی بہت ہمت کرنی چاہیے تاکہ معاملات درست کرنے کی راہ ہموار ہو۔
آخر ایسا کیا ہے کہ ترکی اچانک مغرب کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا ہے؟ بات صرف اتنی ہے کہ ترکی نے دُم پر پاؤں رکھنے کا عمل شروع کردیا ہے! چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے بعد اب مغربی میڈیا اردوان کی کردار کُشی میں مصروف ہے۔ اردوان اس لیے بُرے لگ رہے ہیں کہ مغرب کی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہنے کے بجائے وہ مسلم دنیا کی خاموشی کو آواز دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم ہوں یا مغرب میں اسلامو فوبیا کا عملی اظہار، اردوان نے ہر معاملے میں مسلم دنیا کی طرف سے خاصی توانا آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید کرکے بھارت کو ناراض کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کشمیر کے معاملے میں پاکستانی موقف کوخلیجی ریاستوں سے خاطر خواہ تائید اب تک حاصل نہیں ہو سکی۔
مغربی میڈیا کے پیٹ میں اس بات سے بھی مروڑ اٹھ رہا ہے کہ ترکی میں سیاسی نظام قدرے مستحکم ہے اور وہاں طالع آزمائی کو روکنے میں خاطر خواہ کامیابی یقینی بنائی جاچکی ہے۔ منتخب حکومت مستحکم ہے تو جمہوریت خطرے میں دکھائی دے رہی ہے اور جب اقتدار پر ترک فوجی ڈکٹیٹر قابض تھے تب مغرب کو کوئی خرابی دکھائی نہیں دی۔ پنپتے ہوئے ترکی سے مغربی حکومتوں اور میڈیا کو زیادہ پریشانی اس لیے لاحق ہے کہ وہ خطے میں اپنی بات منوانے کے لیے بحیرۂ روم میں طاقت آزمائی بھی کر رہا ہے۔ مشرقی بحیرۂ روم میں ترکی نے یونان اور فرانس کو للکارنے میں ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ اس پر نیٹو اتحادی بھی ناراض ہیں۔ مغرب کے بہت سے تجزیہ کار ترک قیادت کے اقدامات کو حماقت اور جذباتیت پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی انتہائی نوعیت کے اقدامات کے ذریعے خود کو یورپی یونین کی رکنیت کے لیے نا اہل بنارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ترکی مغرب کی پسندیدہ روش پر گامزن تھا تب اُسے کون سی رکنیت دے دی گئی تھی؟ ترکی عسکری اعتبار سے بھی مضبوط ہے۔ وہ اپنا دفاع کرنا بھی جانتا ہے اور کمزور مسلم ممالک کی مدد کرنے کا بھی خواہش مند ہے۔ ترکی نے گزشتہ برس روس سے جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم خریدا‘ جس پر امریکا ایسا ناراض ہوا کہ F-35 (نیکسٹ جنریشن) طیاروں کا سودا منسوخ کردیا۔ اس پر اردوان نے کمزوری نہیں دکھائی اور روس کے ساتھ مل کر چلنے کو ترجیح دی۔ 
دوسری طرف شام میں ترکی کی عسکری موجودگی سے امریکا اور روس دونوں پریشان رہے ہیں۔ شمال مغربی شام میں ترکی کی عسکری موجودگی نے شام کیساتھ ساتھ روس کو بھی الجھن سے دوچار کیا ہے۔ شام میں دباؤ بڑھ گیا ہے۔ امریکا میں بھی اس حوالے سے تقسیم پائی گئی ہے۔ کانگریس چاہتی ہے کہ ترک قیادت شام سے اپنی فوج واپس بلائے اور کرد ملیشیا کے خلاف کارروائیاں بند کرے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے برعکس وائٹ ہاؤس میں اردوان کی میزبانی کی۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کا ساتھ دینے کے لیے ترکی نے جب لیبیا میں قدم رکھا تو روس ناراض سا دکھائی دیا کیونکہ وہ جنرل خلیفہ ہفتار کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی کی آمد پر تو ناراضی ظاہر کی جارہی ہے مگر کوئی بتائے کہ امریکا اور روس اس خطے میں کیا کر رہے ہیں؟ ترکی نے امریکا، یورپ اور روس کی ناراضی کی پروا کیے بغیر اپنی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا ہے تاکہ دنیا کو اندازہ ہو کہ ترکی میں مسلم قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے مطلوب دم خم پایا جاتا ہے۔
حال ہی میں نگورنو کاراباخ کے معاملے پر لڑائی میں ترکی نے آذر بائیجان کا ساتھ دیا۔ اس پر یورپ اور روس اس سے ناراض ہیں۔ روس کا آرمینیا سے دفاعی معاہدہ ہے۔ ایسے میں آذر بائیجان کو بے یار و مددگار تو نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔ ترکی کے بہت سے اقدامات بظاہر جذباتیت کا مظہر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلم دنیا کو جارحانہ رویہ ہی اپنانا چاہیے۔ مغرب نے سات عشروں تک مسلم معاشروں کو دبوچ کر رکھا ہے۔ اگر یہ سب کچھ مزید برداشت کیا تو بقا بھی ممکن نہ رہے گی۔ ترکی نے قدم بڑھایا ہے جس پر مغرب ناراض ہے۔ ترکی، ملائیشیااور اُن کے ہم خیال ممالک کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے ناراض ہونے کی پروا نہ کی جائے۔ جن کی دُم پر پاؤں پڑے گا اُنہیں تو ناراض ہونا ہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں