"MIK" (space) message & send to 7575

کامیابی کی شاہ کلید

کچھ کرنے کی تحریک دینے والے لٹریچر کی دنیا میں ایک بڑا نام اینڈریو جی مارشل کا بھی ہے۔ انہوں نے زندگی بھر لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ جو کچھ وہ سوچتے ہیں اُس کے حوالے سے اپنا سارا علم اور تجربہ انہوں نے ''Learn to Love Yourself Enough‘‘ میں نچوڑ دیا ہے۔ اس کتاب میں اینڈریو مارشل نے بتایا ہے کہ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کیلئے عزتِ نفس اور خود اعتمادی لازم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اوصاف سے مل کر کامیابی کی شاہ کلید بنتی ہے۔ اس شاہ کلید سے ہر مشکل کو اُسی طرح آسان بنایا جاسکتا ہے جس طرح کسی قفل کو کھولا جاتا ہے۔ بھرپور کامیابی کیلئے عزتِ نفس ناگزیر ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا احترام نہ کرے تو کوئی اور اُس کا احترام کیوں کرنے لگا؟ جو لوگ اپنی قدر و منزلت نہیں جانتے اور اپنی قدر نہیں کرتے وہ بالعموم احساسِ کمتری میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ اپنی ہی نظر میں گرا ہوا ہونا کسی بھی انسان کو پستیوں کی طرف لے جاسکتا ہے۔ ایسے میں باصلاحیت ہونے پر بھی کچھ نہیں ہو پاتا۔ اینڈریو مارشل کہتے ہیں کہ زندگی کے بارے میں کوئی بھی طرزِ فکر و عمل اپنانے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے بس میں کیا کیا ہے اور ہم کس طور عزتِ نفس اور خود اعتمادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ بہت سے معاملات پر ہمارا بس نہیں چلتا مگر اُن کے بارے میں ہم خواہ مخواہ جذباتی ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی سکت کی حد کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ کسی بھی عمل کو منطقی انجام تک پہنچانا مشکل محسوس نہ ہو۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہماری ذہنی ساخت بہت سے واقعات سے مل کر بنتی ہے۔ ہماری طرزِ فکر و عمل بالعموم ہمارے بچپن کے واقعات سے جُڑی ہوتی ہے۔ کوئی بھی بچہ پیدائشی طور پر قنوطیت پسند نہیں ہوتا۔ اس کی سوچ کو منفی بنانے میں حالات مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین اور دیگر بزرگوں کی ایک بنیادی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بچے کو منفی فکری رجحان سے بچائیں۔ بچوں کو اپنے طور پر سوچنے کی اجازت دینے سے گریز بھی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ اگر بچوں کیلئے ہر معاملے میں رہنمائی کا اہتمام کیا جائے تو ان میں خود اعتمادی پنپ نہیں پاتی اور وہ زندگی بھر اہم فیصلوں کیلئے دوسروں کی رائے کے محتاج رہتے ہیں۔ کسی بھی مشکل صورتحال میں بچے کو پہلے مرحلے میں اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اگر وہ ڈھنگ سے سوچ نہ پائے تو رہنمائی کی جائے۔کسی پر غیر ضروری تنقید کی جاتی رہے اور دوسرے اس پر اپنے خیالات تھوپتے رہیں تو اس کی شخصیت پنپ نہیں پاتی۔ شخصیت کی تطہیر و تہذیب کیلئے ماضی کی منفی باتوں کو بھلاکر نئی طرزِ فکر و عمل اپنانا پڑتی ہے۔ منفی خیالات سے جان چھڑائے بغیر بات بنتی نہیں۔ منفی خیالات کبھی کسی کو کچھ نہیں دیتے۔ ان سے صرف نقصان پہنچتا ہے یعنی جو کچھ ہمارے پاس ہے ہم اس سے بھی محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں بزرگوں سے بہت کچھ ملتا ہے۔ ان کی ہدایات کی روشنی میں زندگی کا رخ متعین ہوتا ہے مگر یہ لازم نہیں کہ ان کی ہر بات کو مکمل طور پر قبول اور ہضم کرلیا جائے۔ نسلوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بزرگوں کی بہت سی باتیں اپنے آپ میں درست ہوں مگر آپ کیلئے زیادہ کام کی نہ ہوں۔
اینڈریو مارشل کا کہنا ہے کہ ہر دور میں وہی لوگ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں جو اپنے افکار کو بنیاد بناکر عمل کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ فی زمانہ بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب ہیں جو خود مختار سوچ کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ بعض حقائق ایسے ہیں جن پر ہم کم ہی متوجہ ہوتے ہیں مثلاً جب لوگ ہمیں سراہتے ہیں تو ہم زیادہ متوجہ نہیں ہوتے مگر جب کوئی تنقید کرتا ہے تو ہم صرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ تنقید کو دل پر بھی لے لیتے ہیں۔ جب کوئی سراہے تو اپنی توقیر محسوس ہونی چاہیے۔ اِسی صورت ہم میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ تنقید سے گھبراکر ہم دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سب کو خوش رکھنا کسی کیلئے ممکن نہیں۔ منفی سوچ کے حامل افراد کی ہر بات کو قبول کرنا آپ کیلئے لازم نہیں کیونکہ وہ دوسروں پر تنقید ہی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بچنا لازم ہے اور اُن لوگوں کی صحبت لازم ہے جو مثبت سوچ رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنی ہر بات کو درست سمجھنا بھی کچھ لازم نہیں۔ ہم بہت سے معاملات میں بے بنیاد خیالات کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر قائم کی جانے والی رائے بے مصرف ہوتی ہے۔ اپنے خیالات بلکہ سوچنے کے انداز کا جائزہ لیتے رہیے۔ منفی سوچ رکھنے والے ہر منفی بات کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی بھی سوچ مستقل نوعیت کی نہیں ہوتی۔ ہمیں بے بنیاد تنقید اور منفی باتوں کو پیچھے چھوڑ کر تیزی سے آگے بڑھنا ہے۔ اس کیلئے خیالات کا جائزہ لیتے رہنا ہے۔
بھرپور کامیابی کیلئے زبان پر قابو پانا بھی ناگزیر ہے۔ منفی لوگ بات بات پر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ منفی الفاظ ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور عزتِ نفس کا گراف بھی گراتے ہیں۔ مثبت سوچ رکھنے والے چونکہ کامیابی پر یقین رکھتے ہیں اس لیے وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے امکانات ظاہر ہوتے ہیں۔ غیر معمولی کامیابی کے خواہش مند ہر انسان کو امکانات پر یقین رکھنا چاہیے۔ ایسا اس وقت ہو پاتا ہے جب ہم مثبت سوچ رکھتے ہیں اور محض مایوس ہونے کے بجائے امید کو زندگی کا ایک بنیادی سہارا مانتے ہیں۔ اینڈریو مارشل اس نکتے پر بھی زور دیتے ہیں کہ معیاری زندگی یقینی بنانے کیلئے کسی بہت بڑے ہدف یا چند چھوٹے اہداف کا تعین لازم ہے۔ بہت سے چھوٹے اہداف مل کر بھی ایک بڑے ہدف کو جنم دیتے ہیں۔ اہداف ایسے ہونے چاہئیں کہ انسان ان پر متوجہ رہتے ہوئے مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتا رہے۔ یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ ہم بہت سی چھوٹی کامیابیوں کو ملا کر ایک بڑی کامیابی کی شکل دیتے ہیں۔ کوئی بھی نیا کام کرتے وقت انسان کا تھوڑا سا خوفزدہ ہونا فطری امر ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ یہ خوف حقیقی ہے بھی یا نہیں۔ بہت سے معاملات میں ناکامی کا بلا جواز خوف انسان کو مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ اور یوں ہاتھ آئی ہوئی کامیابی بھی ناکامی میں بدل جاتی ہے۔ اپنی کمزوری اور غلطی کا اندازہ بہت بعد میں ہوتا ہے۔ کامیابی کیلئے تھوڑا بہت خطرہ بھی مول لینا پڑتا ہے۔ غلطی کرنا ہر انسان کیلئے انتہائی بنیادی حقیقت ہے۔ انسان غلطیوں ہی سے سیکھتا ہے۔ زندگی میں سبھی کچھ خراب نہیں ہوتا۔ آپ فہرست بنائیں گے تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر معاملات میں آپ کی سوچ بلا جواز خوف پر مبنی ہوتی ہے۔
کسی بھی شعبے میں بے مثال کامیابی یقینی بنانے کیلئے انسان کو سب سے زیادہ بھروسہ اپنے وجود پر کرنا پڑتا ہے۔ کامیابی کی راہ پر مددگار بھی مل سکتے ہیں اور ملتے ہیں مگر اُن کے آسرے پر معاملات کو التوا کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کو سب سے زیادہ توجہ اپنی اصلاح پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ سوچنے کی مشق ہو اور منفی خیالات سے حتی الامکان دور رہنے کی کوشش کی جائے۔ حقیقی کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے لیے خود سوچے اور کامیابی کی راہ ہموار کرنے کیلئے خود عمل کے مرحلے سے گزرے۔ ہر معاملے میں دوسروں کی رائے قبول کرتے ہوئے اُس پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اپنے باطن کی آواز سُنیے اور اپنے فیصلے خود کیجیے تاکہ ان پر ڈھنگ سے عمل کیا جاسکے۔ جب آپ اپنے وجود پر بھروسہ کرتے ہوئے چلیں گے تب عزتِ نفس اور خود اعتمادی دونوں کا گراف بلند ہوگا۔ کسی بھی صورتحال میں معاملات بالآخر اپنی ذات پر آکر رکتے ہیں۔ یہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں