کمفرٹ زون میں جینا کسے اچھا نہیں لگتا؟ ہر انسان چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سُکون کے ساتھ جیے۔ یہ خواہش غیر فطری ہے نہ نامناسب۔ ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ کسی بھی غیر ضروری دباؤ کے بغیر جیے۔ زندگی مزے سے بسر کرنے کی تمنا کم و بیش ہر انسان کے دل میں پائی جاتی ہے۔ اس تمنا کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کیلئے انسان مختلف نوعیت کی مساعی بھی کرتا ہے۔ کمفرٹ زون میں جینے والوں کو ہر معاملے میں آسانی پسند ہوتی ہے۔ جب زندگی میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہ ہو اور معاملات سیدھی راہ پر چل رہے ہوں تو یافت بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ لگی بندھی زندگی بسر کرنے کی صورت میں انسان کچھ زیادہ نہیں کر پاتا اور جب زیادہ نہیں کر پاتا تو کچھ زیادہ حاصل بھی نہیں کر پاتا۔
جنہیں آگے بڑھنا ہے، کچھ کرنا ہے اُن کے لیے لازم ہے کہ خطرات مول لیں۔ لگی بندھی اور ایک طے شدہ ڈگر پر چلنے والی زندگی میں ہمارے لیے زیادہ کشش نہیں ہوتی۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو معاملات کو معمولات کی حدود سے نکال کر کچھ نہ کچھ ایسا کرتے ہیں جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہو۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم طے کریں کہ جہاں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کرنا لازم ہوگا وہاں خطرات مول لیں گے، کچھ نہ کچھ ایسا کریں گے جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہو تاکہ غیر معمولی نوعیت کی کامیابی یقینی بنانے میں مدد ملے۔ اگر آپ کچھ کر دکھانے کے لیے خطرات مول لینے کو تیار ہیں تو سب سے پہلے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ آپ کو درست اندازہ ہے کہ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں اہداف بالکل واضح ہوں تو خطرات مول لینا زیادہ الجھن پیدا کرنے والا عمل نہیں رہتا کیونکہ آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے آپ کس طرف جائیں گے۔ ایسی حالت میں آپ کو زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ عام ڈگر سے ہٹ کر کامیاب ہونے کے لیے تھوڑے بہت خطرات مول لینا ہی پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھیے کہ جو کچھ آپ نے اپنے لیے طے کیا ہے وہ سب کچھ خطرات مول لینے سے حاصل ہوسکے گا یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو خطرات مول لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ ہر بڑی کامیابی ایسا ایکشن چاہتی ہے جس میں کسی حد تک خطرہ موجود ہو۔ کچھ داؤ پر لگائے بغیر ہم کچھ زیادہ حاصل نہیں کرسکتے۔ کون ہے جو کامیاب نہیں ہونا چاہتا؟ ہر انسان چاہتا ہے کہ زندگی قابلِ رشک انداز سے بسر ہو۔ انسان جس شعبے سے وابستہ ہو اُس میں بڑی کامیابی چاہتا ہے۔ ہر بڑی کامیابی ہم سے غیر معمولی ایکشن کی طالب ہوتی ہے۔ کوئی بھی بڑا قدم اٹھاتے وقت ہمیں کسی نہ کسی حد تک خطرہ تو مول لینا ہی پڑتا ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ خطرے کو ایک اہم عامل کی حیثیت سے قبول کرنا پڑتا ہے۔ جن چند معاملات کے ملنے سے کامیابی کوئی واضح شکل اختیار کرتی ہے ان میں خطرات بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ خطرات مول لینے سے درحقیقت کیا ہوتا ہے؟ کیا خطرات مول لیے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہوتا؟ کیا خطرات کا سامنا کیے بغیر شخصیت پنپ نہیں پاتی؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ خطرات مول لینا ہمارے لیے بھرپور کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب دینے کے لیے ہمیں پانچ معاملات کا جائزہ لینا ہوگا۔ تاکہ اندازہ ہوسکے کہ خطرات ہمارے لیے کیا ہوتے ہیں اور اُن کی کوکھ سے کیا کیا برآمد ہوسکتا ہے۔
پہلا معاملہ : کمفرٹ زون میں شخصیت کو پروان چڑھانے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ جی ہاں! کسی بھی ایسے انسان کو کبھی زیادہ یا قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی جس نے بھرپور محنت کے ذریعے اپنی لیاقت کو بروئے کار لانے کی کوشش تو کی ہومگر خطرات مول لینے سے گریز کیا ہو۔ خطروں سے کھیلنے والے اگر کچھ کھوتے ہیں تو بہت کچھ پاتے بھی ہیں۔ معاملات میں نیاپن نہ ہو تو بھرپور کامیابی کی راہ کبھی ہموار نہیں ہوتی۔
دوسرا معاملہ : خطرات مول لینے کی عادت آپ میں پائے جانے والے بے جا خوف کو ختم کرکے آپ کی نفسی تربیت بہتر بناتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ کوئی بڑا خطرہ مول لینے سے محض اس لیے گریز کرتے ہیں کہ انہیں ناکامی کا خوف گھیرے رہتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کیلئے ناکامی کے خوف سے دامن چھڑانا لازم ہے۔ بعض شعبوں میں خطرہ مول لینا واقعی بہت مشکل ہوتا ہے مگر اس کا صلہ بھی خاصا زیادہ ہوتا ہے مثلاً کرداروں کی یکسانیت سے تنگ آخر اگر کوئی اداکار خطرہ مول لے اور اپنے امیج یا شناخت سے ہٹ کر کوئی کردار ادا کرے تو کبھی کبھی کیریئر کو نئی راہ بھی مل جاتی ہے۔ بالی ووڈ میں امریش پوری اس کی واضح ترین مثال ہیں۔ انہوں نے ولن کی حیثیت سے کیریئر شروع کیا اور صفِ اول کے ولن بنے۔ پھر انہوں نے کرداروں کی یکسانیت سے تنگ آکر مثبت کردار منتخب کیے تو اپنی محنت سے اُس شعبے میں بھی کامیاب رہے اور لوگ اُن کی ولن والی حیثیت کو بھول گئے۔ پاکستان میں آغا طالش اس کی نمایاں مثال ہیں۔ انہوں نے سخت گیر مزاج والے انسان کی حیثیت سے کئی منفی کردار ادا کیے اور کامیاب رہے مگر پھر انہوں نے ہلکے پھلکے مثبت کردار چُنے اور اِن میں بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ اگر امریش پوری، آغا طالش اور دوسرے بہت سے اداکاروں نے خطرہ مول لینے کو ترجیح نہ دی ہوتی تو یکساں کردار کی دلدل میں دھنس کر رہ جاتے اور فن کے حوالے سے ان کی شخصیت کبھی پروان نہ چڑھ پاتی۔تیسرا معاملہ : غور کیجیے یعنی لوگوں کے مزاج اور کردار کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ خطرہ مول لینے سے انسان کی اچھی خاصی تشفّی ہوتی ہے۔ خطرہ مول لینے کا مطلب ہے اپنے وجود پر بھروسہ۔ جب انسان کوئی خطرہ مول لیتا ہے تو دنیا کو بتاتا ہے کہ اس میں غضب کا اعتماد ہے اور یہ کہ اعتماد ہی اُسے کامیابی سے ہم کنار کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں خطرہ مول لینے سے شخصیت کسی نہ کسی حد تک نکھرتی ہے، پروان چڑھتی ہے۔ اس سے اپنے وجود پر اعتماد بھی بڑھتا ہے۔ آپ بھی اگر اپنے کیریئر کے حوالے سے کوئی خطرہ مول لیں گے یعنی عمومی ڈگر سے ہٹ کر چلیں گے تو اپنے اندر نیا اعتماد اور نئی لگن محسوس کریں گے۔
چوتھا معاملہ : کسی بھی معاملے میں کوئی بڑا خطرہ مول لینے سے انسان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ جن معاملات کو ہم اہمیت نہ دیتے ہوں اُن کی طرف جانا ہم پر فکر و عمل کی نئی راہیں کھولتا ہے اور ہم اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں پاتے ہیں۔ جب تک ہم خطرہ مول لینے سے ڈر رہے ہوتے ہیں تب تک خود کو کسی نئے کام کے سیکھنے سے بھی دور رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ کچھ سیکھنا یعنی اپنی پسندیدہ ڈگر سے ہٹ کر چلنا پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ جو لوگ کیریئر کے حوالے سے پنپنا چاہتے ہیں وہ سیکھنے کی اہمیت اچھی طرح جانتے ہیں اور اِسی لیے خطرہ مول لینے کو تیار بھی رہتے ہیں۔ خطرہ مول لینے کا مطلب سب کچھ داؤ پر لگانا نہیں ہوتا بلکہ خود کو آزمانا ہوتا ہے اور یہ عمل کچھ نہ کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔
پانچواں معاملہ : خطرات مول لینے کی عادت ان سے نمٹنے کے طریقے بھی سکھاتی ہے۔ جو لوگ اپنے شعبے میں کوئی بھی نیا کام کرنے سے ڈرتے ہیں وہ کچھ نیا نہیں سیکھ پاتے۔ ڈرتے رہنے سے ان کی شخصیت محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ قدرت نے انہیں سمندر جیسا خلق کیا ہے مگر خوفزدہ رہنے سے وہ کنویں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
اگر دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا ہے تو کچھ سوچنا پڑے گا، چند ایک معاملات میں خطرہ مول لینا ہی پڑے گا۔ یہ سب کچھ کیریئر کو پروان چڑھانے کیلئے لازم ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اس عمل سے گزرے بغیر بھرپور اور مثالی نوعیت کی کامیابی یقینی نہیں بناسکتے۔