"MIK" (space) message & send to 7575

لوگ آسانی سے نہیں مانتے

دنیا بھی عجیب ہی مزاج کی واقع ہوئی ہے۔ جو کچھ سو بار‘ بلکہ ہزار بار ہوتا ہوا دیکھ لیتی ہے اُس کے بارے میں بھی یقین کرنے سے کتراتی ہے۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر ہے مکمل طور پر حقیقت۔ دنیا کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی نئی چیز کو آسانی سے قبول کرتی ہے نہ ہضم۔ ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے کچھ نیا پیش کیا اور اُسے منوانے کیلئے بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ دنیا کی ساری رونق ندرت ہی کی بدولت ہے۔ جس ماحول میں لوگ ندرت سے گھبرائیں، کچھ نیا پیش کرنے میں دلچسپی نہ لیں وہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہو جاتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی کی تازگی ختم ہوتی جاتی ہے اور کائی جمتی جاتی ہے۔ رکے یا ٹھہرے ہوئے معاشرے بھی ٹھہرے ہوئے پانی یعنی جوہڑ کے مانند ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں معاملات سڑتے گلتے رہتے ہیں، سڑانڈ بڑھتی جاتی ہے اور کچھ نیا کرنے کیلئے درکار جوش و جذبہ ماند پڑتا جاتا ہے۔ بالی ووڈ کی فلم انڈسٹری میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے کچھ نہ کچھ نیا دیا اور فلم میکنگ کے فن کو زیادہ سے زیادہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اور بامقصد بنانے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ فلم میکنگ کے ہر شعبے میں جدت پسند شخصیات رہی ہیں اور اُن کی کاوشوں ہی سے فلم میکنگ کا فن بامِ عروج کو پہنچا۔ 
سکرین رائٹنگ کے شعبے میں جو توقیر سلیم خان اور جاوید اختر کے حصے میں آئی وہ کسی اور سکرین رائٹر کو نہیں مل سکی۔ ان دونوں نے مل کر ''سلیم جاوید‘‘ کے نام سے فلمیں لکھیں اور رجحان ساز ثابت ہوئے یعنی فلم میکنگ کی سَمت ہی بدل ڈالی۔ 1970 کے عشرے کے اوائل تک بالی ووڈ میں سکرین رائٹنگ ایسی دیوار کی شکل اختیار کرچکی تھی جس کی بنیاد بھی کمزور پڑگئی ہو اور رنگ بھی اڑ چکا ہو۔ لگے بندھے تھیم پر گھسی پٹی کہانیوں کے ساتھ فلمیں بنائی جاتی تھیں اور انہیں موسیقی کی مدد سے کامیابی دلائی جاتی تھی۔ کہانیاں ہی پُھسپھسی نہیں ہوتی تھیں، منظر نگاری بھی کمزور تھی اور مکالموں میں بھی دم نہیں تھا۔ فلم بین یکسانیت زدہ فلمیں دیکھ دیکھ کر تھک چکے تھے، بیزار ہوچکے تھے۔ سلیم جاوید نے وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کچھ نیا کرنا چاہا۔ انہوں نے ''سیتا اور گیتا‘‘ سے سفر شروع کیا۔ پھر ''ہاتھی میرے ساتھی‘‘ آئی۔ اس کے بعد ''انداز‘‘ نے انہیں مزید مستحکم کیا۔ تب تک ندرت کا گراف زیادہ بلند نہیں ہوا تھا۔ سلیم خان اور جاوید اختر غیر معمولی ذہانت کے حامل تھے اور سکرین رائٹنگ کی غیر معمولی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت جلد یہ اندازہ لگایا کہ سکرین رائٹنگ کی سمت بدلنے والی چیز لکھی جائے تو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ معاشرے میں گھٹن تھی۔ اقدار بدل رہی تھیں۔ افلاس کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ایسے میں کسی ایسے دیرپا کردار کی ضرورت تھی جس میں لوگ اپنا عکس دیکھیں اور اطمینان محسوس کریں۔ نئی نسل بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر راستہ نہیں مل رہا تھا۔ ایسے میں سلیم جاوید نے جوشیلے نوجوان (اینگری ینگ مین) کا کردار تخلیق کیا۔ اس ذیل میں ان کا پہلا سکرپٹ ''زنجیر‘‘ تھا جسے منوانے کیلئے انہیں بہت پاپڑ بیلنا پڑے۔ سلیم خان نے ایک ٹی وی شو میں بتایا کہ پہلے انہوں نے دلیپ کمار سے رابطہ کیا مگر بات نہیں بنی۔ شاید اِس لیے کہ دلیپ صاحب کی عمر کردار کے تقاضوں سے زیادہ تھی۔ دیو آنند بھی تب ادھیڑ عمر کے تھے؛ تاہم ان سے بھی رابطہ کیا گیا۔ نامور ولن پران کے گھر پر دیو صاحب کو پورا سکرپٹ سنایا۔ دیو صاحب نے کہا ''میں کسی بھی وجہ سے اس فلم میں کام تو نہیں کرسکوں گا مگر ہاں! میری دعا ہے کہ آپ کامیاب ہوں‘‘۔ 
دھرمیندر نے بھی شائستگی سے معذرت چاہی اور راج کمار نے تو بھونڈے انداز سے انکار کیا۔ خیر! سلیم جاوید نے ہمت نہ ہاری اور پروڈیوسر ڈائریکٹر پرکاش مہرا کو کسی نہ کسی طرح اس بات کیلئے راضی کرلیا کہ امیتابھ بچن کو سائن کرلیں۔ تب تک امیتابھ بچن کا پروفائل زیادہ متاثر کن نہ تھا۔ ''زنجیر‘‘ میں امیتابھ بچن نے جو کردار ادا کیا وہ خاصا چیلنجنگ تھا کیونکہ انہیں ایک امیج کا خول توڑ کر دوسرے امیج میں داخل ہونا تھا۔ انہوں نے محنت کی اور کامیاب رہے۔ ''شیر خان‘‘ کے کردار میں پران بھی خوب جچے اور فلم بینوں کے ساتھ ساتھ تجزیہ کاروں سے بھی داد پائی۔ ''زنجیر‘‘ کی کامیابی نے پرکاش مہرا کی پروفائل بھی مضبوط کی۔ اب دوسرے فلم میکرز نے بھی ہمت دکھائی اور امیتابھ بچن کو اینگری ینگ مین کے امیج کے ساتھ پیش کرنا شروع کیا۔ سلیم جاوید کی لکھی ہوئی جن فلموں میں امیتابھ بچن نے کام کیا اُن میں زنجیر کے علاوہ دیوار، شعلے، مجبور، ایمان دھرم، ڈان، ترشول، دوستانہ، کالا پتھر، شان اور شکتی شامل ہیں۔ اگر امیتابھ کی 10 بہترین فلموں کی فہرست مرتب کی جائے تو اُس میں 7 فلمیں سلیم خان اور جاوید اختر کی لکھی ہوئی ہوں گی! سلیم جاوید کو آج بھی اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اُن کی لکھی ہوئی فلموں نے بالی ووڈ میں فلم میکنگ کی سمت بدل ڈالی۔ اُن کی آمد تک جو فلمیں لکھی جارہی تھیں وہ بے سمت اور کمزور تھیں۔ یہ تماشا دیکھتے دیکھتے فلم بین اُوب چکے تھے۔ وہ کچھ نیا چاہتے تھے۔ سلیم جاوید کا فن فلم انڈسٹری اور فلموں کے شائقین دونوں کیلئے شدید گھٹن کے ماحول میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسا تھا۔ 
سلیم جاوید کو پہلی ہی کوشش میں قبول نہیں کرلیا گیا تھا۔ ''زنجیر‘‘ کا سکرپٹ لے کر وہ ہر اُس فلم میکر تک پہنچے جس سے اُنہیں ذرا سی بھی امید ہوتی تھی۔ کئی فلم میکرز نے فلم میکنگ کا فرسودہ انداز چھوڑ کر نئے انداز کا سکرپٹ اپنانے سے گریز کیا مگر دونوں باہمت سکرین رائٹرز مایوس نہیں ہوئے۔ دونوں طے کرچکے تھے کہ کچھ نہ کچھ نیا کرکے دم لیں گے۔ اور کامیاب ہوکر ہی دم لیا۔ ہاں! یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوا۔ سلیم خان اور جاوید اختر کی کہانی میں بنیادی نکتہ تحمل ہے۔ کامیابی اُسی کو ملتی ہے جو ہمت ہارے بغیر ڈٹا رہے، حالات کی سختی کا سامنا کرے اور پُرامید ہوکر سعیٔ پیہم کے اصول پر کاربند رہے۔ لوگ آسانی سے نہیں مانتے! اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُسے تسلیم کیا جائے، صلاحیت کو بروئے کار لانے کا ماحول یقینی بنانے میں مدد دے تو اُسے ثابت کرنا پڑے گا کہ جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ انوکھا ہے، زیادہ پُرکشش ہے۔
ایک فلم میکنگ پر کیا موقوف ہے، کسی بھی شعبے میں زیادہ کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو دوسروں سے ہٹ کر چلتے ہیں، کچھ نیا پیش کرتے ہیں۔ جو کچھ ہر طرف سے آرہا ہے‘ وہی کچھ اگر آپ کی طرف سے بھی آئے تو پھر آپ نے کیا کمال کیا؟ کچھ تو ہو جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہو، نیا اور زیادہ پُرکشش ہو۔ سلیم خان اور جاوید اختر کی غیر معمولی بلکہ تاریخ ساز کامیابی نئی نسل کیلئے ترغیب و تحریک کا اچھا ذریعہ ہے۔ اس کہانی میں اتنی ڈرامائیت ہے کہ انسان کسی بھی مرحلے پر بیزاری محسوس نہ کرے۔ سوال یہ نہیں کہ کسی کو سکرین رائٹنگ پسند ہے یا نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھرپور کامیابی کے ان دونوں عہد ساز سکرین رائٹرز نے عام ڈگر سے ہٹ کر کیا کِیا، کیا دیا۔ ہر دور میں مسابقت ہی سب سے بڑی حقیقت رہی ہے۔ مسابقت ہی انسان کو کچھ نیا کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ کامیابی یقینی بنانے کیلئے جس قدر دباؤ پایا جائے گا کامیابی کا گراف بھی اُسی قدر بلند ہوگا۔ پتنگ مخالف ہوا ہی سے زیادہ بلندی پر جاتی ہے۔ 
یہ نکتہ ہر گام پر ذہن نشین رہے کہ عمومی نوعیت کی کامیابی کیلئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے مگر فقید المثال کامیابی اُسی وقت ممکن ہے جب صلاحیت و سکت کو اِس طور بروئے کار لایا جائے کہ دنیا کو جدت محسوس ہو۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ جب بھی کچھ نیا پیش کیا جاتا ہے تب دنیا ابتدا میں قبول کرنے سے کتراتی ہی ہے۔ اس منزل میں گھبرا جانے والے کچھ نہیں کر پاتے۔ مستقل مزاجی سے محنت کرتے رہیں تو بالآخر دنیا متوجہ ہوتی ہے، صلاحیت و سکت کا لوہا مانتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں