کیریئر کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ ایسا کرنے کے لیے اپنے آپ پر تھوڑا بہت جبر کرنا پڑتا ہے۔ کیریئر کے لیے منصوبہ سازی کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایسا بہت کچھ چھوڑ دیا جائے جو آپ کو بہت پسند ہے۔ لوگ کامیابی تو چاہتے ہیں مگر اُس کے لیے سنجیدہ ہوکر کچھ کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ عمومی سطح پر خواہش یہ ہوتی ہے کہ مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں‘ کام بنتے چلے جائیں۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ اگر حالات کی مہربانی سے کسی کو آسانیاں مل بھی جائیں تو زیادہ دیر اور زیادہ دور تک ساتھ نہیں دیتیں۔
ارشد کا بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا تھا۔ کون نہیں چاہتا؟ ارشد کی بھی خواہش تھی کہ کئی شعبوں میں کامیابی یقینی ہو۔ یہ کوئی جادو کا معاملہ تو ہے نہیں۔ اگر کسی کو کئی شعبوں میں نام کمانا ہے تو بہت کچھ سوچنا اور کرنا بھی پڑے گا۔ ارشد اچھا کرکٹر تھا اور پڑھائی میں بھی تیز تھا۔ وہ دونوں شعبوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا تھا۔ یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ وہ دونوں شعبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہا تھا یعنی ایک دوسرے میں گڈمڈ کر رہا تھا۔ یہ بنیادی غلطی بیشتر نوجوان کرتے ہیں۔ وہ جب کسی کو ایک سے زیادہ شعبوں میں نام کماتے دیکھتے ہیں تو متاثر ہوکر خود بھی ایسا ہی کرنے کا سوچتے ہیں اور پھر اپنی سوچ کو عملی شکل دینے کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ بدحواسی ہم میں سے کس کی زندگی میں نہیں؟ ہم سبھی کسی نہ کسی مرحلے پر بدحواس سے ہو جاتے ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر وقت سارا قصور ہمارا ہی ہوتا ہے۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ ہر انسان پر بُری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور اُسے عمومی سطح پر بدحواس کرکے دم لیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ایجادات اور اختراعات کا بازار گرم نہ تھا۔ آج جو کچھ ہماری زندگی میں ہے اس کا کم و بیش 90 فیصد تب ایجاد نہیں ہوا تھا۔ زندگی سادہ تھی۔ معمولات میں پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ لوگ مل بیٹھنے کو اچھا سمجھتے تھے اور ایسا کرنے کے لیے اچھا خاصا وقت بھی میسر تھا۔ تب اڑوس پڑوس کے لوگوں سے تعلقات استوار رکھنے کو بھی اہم سمجھا جاتا تھا۔ کیریئر کی دوڑ شروع نہیں ہوئی تھی۔ مسابقت تھی مگر ''گلا کاٹ‘‘ قسم کی نہیں تھی۔ لوگ کسی نہ کسی طور سکون سے جی لیتے تھے۔ رشتوں اور تعلقات میں بگاڑ تھا مگر ایسا نہ تھا کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ جائے۔
ارشد کا کیس یہ ہے کہ وہ بیک وقت دو کشتیوں میں سفر کرنا چاہتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ کسی بھی کشتی کا نہ ہوسکا۔ کرکٹ بھی چُھوٹ گئی اور پڑھائی بھی زیادہ آگے تک نہ چل سکی۔ آج وہ عمومی سطح پر جی رہا ہے۔ اگر اپنے معاملات کو ڈھنگ سے چلایا ہوتا‘ متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے مشورہ کیا ہوتا‘ عملی زندگی سے وابستہ افراد سے رائے طلب کی ہوتی اور بھرپور کامیابی کے لیے ذہن بنایا ہوتا تو آج اُس کی زندگی میں بہت کچھ نہ سہی‘ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔ ارشد کے ساتھ کے بیشتر نوجوانوں کا یہی حشر ہوا۔ بات افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ جب زندگی کے لیے سمت کا تعین کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ارشد اور اُس کے ساتھ کے بہت سے نوجوانوں کا معاملہ اتنا سا تھا کہ وہ طے ہی نہیں کر پائے کہ کرنا کیا ہے۔ کبھی یہ شعبہ اچھا لگتا تھا اور کبھی وہ۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ کسی ایک شعبے کے نہ ہوسکے۔ فی زمانہ نئی نسل کا سب سے بڑا حقیقی المیہ یہ ہے کہ وہ کیریئر کے حوالے سے حقیقت پسندی کے ساتھ حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
جب ارشد کے ہاتھ میں بیٹ تھا تب قلم بھی اُس کی توجہ چاہتا تھا۔ اُسے طے کرنا تھا کہ کس شعبے کو ترجیح دی جائے اور اُس شعبے میں قدم جمانے کے بعد دوسرے شعبے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اگر وہ کھیل اور تعلیم کے درمیان بہترین انتخاب کرتا تو ایک شعبے میں محنت کا ثمر پانے کے بعد دوسرے شعبے کی طرف بھی جاسکتا تھا۔ کئی شعبوں میں نام کمانا مسئلہ نہیں۔ بہت سے لوگ کامیابی سے ایسا کر دکھاتے ہیں۔ اس کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی شعبے پر توجہ دی جائے۔ جب اُس شعبے میں خاطر خواہ مہارت ممکن بنالی جائے تب دوسرے شعبے کو اپنانے کا سوچا جائے۔ اسی طور تیسرے یا چوتھے شعبے کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں اس کی مثال یوں بنتی ہے کہ چند ایک کرکٹر اچھی بیٹنگ اور باؤلنگ کے ساتھ ساتھ اچھی فیلڈنگ بھی کرتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب خود کو کھیل کے میدان کے لیے وقف کردیا جائے اور ایک وقت میں کھیل کے ایک ہی شعبے کو گلے لگایا جائے۔ یہی حال دوسرے بہت سے شعبوں کا بھی ہے۔ کوئی اگر میڈیا میں نام کمانا چاہتا ہے تو رپورٹنگ کے علاوہ ایڈیٹنگ‘ کالم نگاری اور انٹرویوئنگ کے ذریعے ایسا کرسکتا ہے مگر یہ سب کچھ بیک وقت نہیں ہوسکتا۔ باری باری مختلف شعبوں میں غیر معمولی محنت کے ذریعے مہارت حاصل کرکے دنیا سے داد وصول کی جاسکتی ہے۔
نئی نسل کا ایک بنیادی مخمصہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ہاتھوں یرغمال سی ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا گراف بھی بہت نیچے آچکا ہے۔ کئی شعبوں میں بہت کچھ کر دکھانے کی آرزو بھی ہے اور کسی ایک شعبے میں ڈھنگ سے کچھ کرنے کی تیاری بھی نہیں کی جاتی۔ ارشد کی طرح ہزاروں‘ بلکہ لاکھوں نوجوانوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاص تیاری کے بغیر بہت کچھ بننے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور جب جوش و خروش کا گراف نیچے آتا ہے تب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ بیک وقت کئی کشتیوں کا سفر کیا تھا جس کے نتیجے میں سفر تو ہو نہ سکا‘ ہاں سنہرے مواقع غرقاب ہوتے گئے۔ ارشد بھی وقت پر فیصلہ نہ کرسکا کہ کرنا کیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کس شعبے میں کتنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ صرف اس امر کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام کیا جائے۔ جب وہ کام ڈھنگ سے کرنا آجائے تب کسی اور طرف جایا جائے۔
شخصی ارتقا کے ماہرین کہتے ہیں کہ فی زمانہ کسی ایک شعبے میں بھی ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل ہو پانا انتہائی دشوار ہے۔ ایک عمر کھپ جاتی ہے تب کہیں جاکر گوہرِ مراد ہاتھ آتا ہے۔ ایسے میں سوچے سمجھے بغیر بہت کچھ کرنے کی خواہش ڈھکے چھپے الفاظ میں معصومیت اور بالواسطہ انداز سے حماقت کے سوا کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ نئی نسل فیصلے کرنے کے معاملے میں بالعموم بُودی واقع ہوتی ہے۔ وہ کیریئر کے تعین میں بھی آسانی سے دھوکا کھا جاتی ہے۔ اور یہ دھوکا کوئی اور نہیں‘ اپنی ہی سمجھ دیتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیریئر کے انتخاب کا معاملہ پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ کامیاب وہ ہوتے ہیں جو کسی ایک شعبے میں غیر معمولی مہارت حاصل کرنے کے بعد کسی اور شعبے میں بھی طبع آزمائی کریں۔ اب کیریئر کے لیے کلیدی شعبہ ایسا منتخب کرنا ہوتا ہے جو تادیر چلے اور کسی غیر ضروری بحران کی زد میں نہ آئے۔ فی زمانہ کامیابی کی ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ بیک وقت دو کشتیوں کا سفر نہ کیا جائے۔ جذبات کے ریلے میں بہہ کر بہت سے نوجوان وہی غلطی کرتے ہیں جو ارشد سے سرزد ہوئی۔ کیریئر کے معاملے میں تحمل بنیادی شرط ہے۔ ایک اور شرط ہے پسندیدہ شعبے کے ممکنہ نشیب و فراز پر نظر رکھنا۔ فی زمانہ کوئی بھی شعبہ تبدیلیوں سے مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ کیریئر کے معاملات میں منصوبہ سازی سے گریز بالآخر انسان کو بدحواسی کی چوکھٹ تک پہنچادیتا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے سوچ سمجھ کر‘ موزوں ترین منصوبہ بندی کے ساتھ کرنا ہے۔ متعلقہ شعبے میں پیش رفت کی رفتار پر بھی نظر رکھنی ہے تاکہ اُس کی مناسبت سے محنت کی جاسکے۔ جو اس مرحلے میں اٹک کر رہ جائیں یا خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کریں وہ بالعموم ناکامی ہی سے دوچار رہتے ہیں۔