"MIK" (space) message & send to 7575

جو ٹھہرا وہی سکندر

وقت یا زمانے کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ رہنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ہر انسان معاشرے کا حصہ ہونے کے باعث دوسروں سے بہت کچھ غیر محسوس طور پر لیتا ہے۔ دوسروں کی بُری عادتیں ہمیں بھی بُرا بنادیتی ہیں جبکہ دوسروں کی اچھی عادتیں مشکل ہی سے کسی کے مزاج کا حصہ بن پاتی ہیں کیونکہ اس میں محنت بھی لگتی ہے اور ایثار کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہر بُری عادت کے لیے ہم مقناطیس کی طرح ہوتے ہیں یعنی وہ آکر ہم سے چپک جاتی ہے۔ اچھی عادت ہم سے شعوری سطح پر محنت کا تقاضا کرتی ہے۔ بُری عادتیں تحت الشعور کی سطح پر ہمارے مزاج کا حصہ بنتی جاتی ہیں یعنی جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اُس کا ہمیں فوری طور پر اندازہ نہیں ہو پاتا۔جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تب ہم جاگتے ہیں اور تدارک کے ذیل میں کچھ کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں پیشرفت اب غیر معمولی مشقّت کی طالب ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جو کچھ بھی رونما ہو رہا ہے وہ تمام معاملات پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہوکر اُن کی نوعیت تبدیل کر رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگوں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اب کوئی بھی شعبہ کسی بھی وقت سمت تبدیل کرسکتا ہے۔ ایک دور تھا کہ کیریئر کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے والوں پر زیادہ دباؤ نہیں ہوا کرتا تھا۔ وہ کسی ایک شعبے کو منتخب کرنے کے بعد دن رات ایک کرکے آگے بڑھتے جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے! ہر شعبہ دن رات تبدیلیوں کی زد میں رہتا ہے۔ کیریئر کے حوالے سے بھی نشیب و فراز کا امکان غیر معمولی ہوچکا ہے۔ ایسے میں جامع منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ فی زمانہ کیریئر کے انتخاب کے وقت یہ دیکھنا بھی لازم ہے کہ متعلقہ شعبے میں کب تک رہا جاسکے گا۔ اب کامیابی اُنہیں ملتی ہے جو اپنے شعبے کی جہت بدلنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ عملی زندگی میں قدر و منزلت اُنہی کی بڑھتی ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ خود کو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے کیریئر کی سمت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے اپنے لیے زیادہ گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ شوبز ہی کو لیجیے‘ ایک دور تھا کہ کوئی اداکاری کرتا تھا تو اداکاری تک محدود رہتا تھا۔ آل راؤنڈر قسم کے فنکار کم ہی ہوتے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کیریئر کو مستحکم رکھنے کے لیے مختلف شعبوں میں طبع آزمائی کرنا پڑتی ہے۔ اداکاری کے شوقین گلوکاری کی طرف بھی چلے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعتماد بڑھتا ہے تو ڈائریکشن کی طرف جانے کا مزاج بھی پنپتا جاتا ہے۔ بہت سے اداکار و گلوکار اب تنِ تنہا یا کسی کے ساتھ مل کر پروڈکشن ہاؤس کھولنے پر متوجہ رہتے ہیں تاکہ اپنے ڈرامے تیار کرکے آسانی سے زیادہ کما سکیں۔
رنگیلا نے کامیڈین کی حیثیت سے فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ وہ گانے کے بھی شوقین تھے اور کئی فلمی گانے گائے جن میں سے بیشتر اُنہی پر فلمائے گئے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ رنگیلا کا گایا ہوا ایک گانا مشہور صداکار و اداکار طلعت حسین پر بھی فلمایا گیا تھا۔ ہم 1972ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''انسان اور آدمی‘‘ کے گیت ''ہم نے تم سے پیار کیا ہے‘‘ کی بات کر رہے ہیں۔ ''دیا اور طوفان‘‘ کے لیے رنگیلا کا گایا ہوا گیت ''گا میرے منوا، گاتا جا رے‘‘ اعجاز درانی پر فلمایا گیا تھا۔ نذیر بیگ یعنی ندیم آئے تھے گلوکار بننے اور بن گئے ہیرو۔ فلمی دنیا میں وحید مراد کی انٹری پروڈیوسر کی حیثیت سے تھی۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ انسان کو کسی بھی وقت کیریئر کے حوالے سے تنوع پیدا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت نے اب کسی بھی شعبے کو تبدیلیوں سے محفوظ رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ میڈیا کے محاذ پر غیر معمولی پیشرفت نے ہر انسان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے شعبے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، بالخصوص پیشرفت پر نظر رکھے اور اُس کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کے لیے تیار رہے۔ سوال اب صلاحیت سے زیادہ سکت کا ہے۔ معاملات اب اُس منزل تک آچکے ہیں جہاں صرف ایک نکتہ اس قابل رہ جاتا ہے کہ ذہن نشین رکھا جائے‘ وہ یہ کہ ع 
جس دِیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا
اب مقابلے کی نوعیت بدل گئی ہے۔ جو جتنی دیر ٹکا رہ سکتا ہے وہ اُتنا ہی کامیاب قرار پائے گا۔ نشیب و فراز سے کوئی بھی شعبہ محفوظ و مامون نہیں۔ ایسے میں بہت سے ہیں جو بہت تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ معمولی سی ناکامی برداشت کرنا بھی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ اہمیت میدان میں ڈٹے رہنے کی ہے۔ شخصی ارتقا کے ماہرین اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کیونکہ سارا فرق اِس ایک نکتے پر عمل کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں تادیر رہنے کی اب یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ انسان ہمت ہارے بغیر اپنی جگہ کھڑا رہے، حالات کے مطابق تبدیل ہونے کے لیے تیار رہے اور پُرامید ہوکر کوشش کرتا رہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں مگر ناگزیر ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ یہ سب تو کرنا ہی پڑے گا۔ کیریئر کے حوالے سے جو کچھ بھی کرنا لازم ٹھہرا ہے اُس میں دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے اب یہ بھی لازم ہے کہ انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے تحریک ملتی رہے۔ تحریک کی ضرورت ہر اُس انسان کو پڑتی ہے جو دوسروں سے زیادہ اور بہتر کام کرنا چاہتا ہے۔ عمومی سطح پر جینے والوں کو تحریک کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔ غیر معمولی کامیابی کی خواہش دل میں انگڑائیاں نہ لیتی ہو تو انسان کچھ زیادہ کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں۔ سارے مسائل اُن کے لیے ہوتے ہیں جنہیں کچھ کرنا ہوتا ہے، دوسروں سے آگے جاکر کچھ پانا ہوتا ہے۔ آج ہر شعبہ اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہے۔ تکنیکی ترقی نے معاملات کو اگر سنوارا ہے تو بگاڑا بھی ہے۔ بہت سے معاملات غیر یقینی ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی کے دل میں اپنے وجود کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے کی آرزو ہے تو بہت احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا پڑے گا۔ ذرا سی لاپروائی معاملات کو خطرناک حد تک بگاڑ سکتی ہے۔ جو تادیر میدان میں رہے وہی کامیاب ہو پاتا ہے۔ دولت اور شہرت کے ساتھ ساتھ توقیر بھی اُسی کا نصیب بنتی ہے۔
مثالی نوعیت کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے ایک بنیادی وصف مستقل مزاجی ہے۔ حالات کا جبر برداشت کرنے والوں کو کچھ نہ کچھ مل کر رہتا ہے۔ قدرت کا یہ اصول سب پر اطلاق پذیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں وہی کامیاب رہے ہیں جنہوں نے حالات کی سختی برداشت کی ہے، اپنے قدم اکھڑنے نہیں دیے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کب ملتی ہے اِس کا مدار بہت حد تک اس امر پر ہے کہ آپ کس حد تک قوتِ برداشت رکھتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ معمولی نوعیت کی ناکامی کو بھی جی کا روگ بنا بیٹھتے ہیں۔ کھیلوں ہی کی مثال لیجیے۔ اگر کوئی بڑا کرکٹر بننا چاہتا ہے تو اُسے اپنے عمل سے ثابت کرنا پڑے گا کہ اُس کی نظر بڑی منزل پر ہے۔ گلیوں میں کھیلنے سے کوئی بڑا کرکٹر نہیں بن جاتا۔ اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوانے کے لیے کلب اور اُس سے اوپر کی سطح پر کھیلنا پڑتا ہے تاکہ لوگ دیکھیں، سراہیں اور آگے بڑھنے کی گنجائش پیدا ہو۔ چھوٹے پیمانے پر کھیلتے رہنے سے بڑے کامیابی نہیں ملتی۔ اور اِس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر ابتدا میں تھوڑی سی ناکامی کا منہ دیکھنا بھی پڑے تو انسان دل برداشتہ نہ ہو اور کام سے کام رکھے یعنی محنت جاری رکھے، کھیل کی تکنیک سیکھے اور اپنے آپ کو کسی بھی ٹیم کے لیے زیادہ بارآور ثابت کرے۔
فن کی دنیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جن میں ناکامی سہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا وہ سُشانت سنگھ راجپوت کی طرح بہت تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور دنیا کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ اگر سوچ لیا جائے کہ بڑی کامیابی ہی قبول کرنی ہے تو کوئی بھی چھوٹی ناکامی جینے کا حوصلہ چھین لیتی ہے۔ حتمی تجزیے میں جیتے گا وہی جو میدان میں ڈٹا رہے گا، ہمت ہارنے سے انکار کرے گا۔ یہ اصول ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد پر اطلاق پذیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں