ذہن الجھ گئے ہیں‘ کام کرنے سے انکار کر بیٹھے ہیں۔ کوئی کچھ کرنا چاہے تو کرنے کو بہت کچھ ہے۔ انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ عمل کی طرف کیسے بڑھے، اپنے وجود کو کیونکر بروئے کار لائے۔ سوال صلاحیت کی کمی کا ہے نہ سکت کے فقدان کا۔ یہ دونوں نعمتیں میسر ہوں تب بھی بہت سی آرزوئیں نامکمل اور تشنہ سی رہ جاتی ہیں۔ شدید خواہش کے باوجود ارادوں کو عمل کی منزل تک لانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ انسان کو روئے ارض پر بخشا جانے والا وقت اپنی اصل میں کچھ بھی نہیں۔ وقت کے اتھاہ ساگر سے جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ ایک بوند سے بھی کم ہے۔ اب اِتنے سے وقت میں کوئی کرے تو کیا کرے؟ ؎
کہتے ہیں زندگی ہے یہی کوئی چار دن
لیکن یہ چار دن تو قیامت کے ہو گئے
یوں تو ہر دور کا انسان اِسی اُدھیڑ بُن کا شکار رہا ہے کہ زندگی کو زیادہ بارآور کیسے بنائے مگر آج کے انسان کا مخمصہ بہت عجیب ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں انسان اپنی تمام آرزوؤں کی تکمیل میں ناکام رہا ہے مگر آج کا انسان اس حوالے سے انتہائی قابلِ رحم حالت میں ہے۔ گزرے ہوئے ادوار میں لوگ کچھ نہ کچھ کرکے سکونِ قلب کا سامان کرلیا کرتے تھے۔ ارادے باندھ لیے جاتے تھے تو جیسے تیسے اُن پر عمل بھی ہو ہی جاتا تھا۔ آج کا انسان سَر سے پاؤں تک شش و پنج کی تصویر ہے۔ یہ تو ع
سب کچھ ہے پھر بھی کچھ نہیں اختیار میں
والی کیفیت ہے۔ ذہن کو منتشر کرنے والے عوامل اس قدر ہیں کہ زندگی کے لیے کوئی حقیقی بارآور راہ متعین کرنا انتہائی دشوار ٹھہرا ہے۔ کسی اور کی بات تو رہی ایک طرف، یہاں تو اپنے ہی وجود پر اعتبار باقی نہیں رہا۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ ؎
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
کی منزل میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی الجھن دامن گیر رہتی ہے۔ بہت کچھ ہے جو سامنے اور بالکل واضح ہے مگر اُس کی طرف بڑھیے تو پاؤں من من بھر کے ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ سوچیے تو ذہن مزید الجھتا ہے۔ آج کا انسان عجیب دلدل میں دھنس گیا ہے۔ ایک تماشا سا لگا ہوا ہے۔ دنیا کی محبت ہے کہ بڑھتی جاتی ہے مگر دنیا سے لطف کشید کرنے کی گنجائش مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ جس کے ہاتھ خالی ہیں اُس کا پریشان ہونا تو بہت حد تک سمجھ میں آتا ہے مگر جن کے ہاتھ اور جیبیں ہی نہیں، تجوریاں بھی بھری ہوئی ہیں وہ کیوں پریشان ہیں؟ ؎
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
پہلے تو کبھی جی کو یہ آزار نہیں تھے
کہیں ایسا تو نہیں کہ انسان نے اپنے وجود سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرلی ہیں؟ کہیں آج کے انسان کے گرد فریب کا جال تو نہیں بُن دیا گیا؟ شخصی ارتقا سے متعلق موضوعات پر لکھنے والوں نے لوگوں کو بہت سبز باغ دکھائے ہیں۔ حقیقت پسندی کی طرف لے جانے کے بجائے عمومی سطح پر جینے والوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ وہ طے کرلیں تو کچھ بھی بن سکتے ہیں، کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ شخصی ارتقا اور تحریکِ عمل یقینی بنانے کی نیت سے لکھنے والوں نے ایسا بہت کچھ لکھا ہے جس میں حقیقت پسندی برائے نام ہے اور چَھل بہت زیادہ۔ چَھل یوں کہ جن میں صلاحیت اور سکت برائے نام تھی اور کام کرنے کی لگن سرے سے ناپید تھی اُنہیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ہاتھ بڑھاکر تاروں کو صرف چُھو نہیں سکتے بلکہ توڑ بھی سکتے ہیں۔ شخصی ارتقا کے نام پر منتر پڑھ کر پُھونکا جاتا رہا ہے کہ ع
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
شخصی سطح پر کامیابی یقینی بنانے کی تحریک دینے والے لکھاریوں نے اپنے قارئین کو قطب مینار پر چڑھا کر سیڑھی ہٹا لی ہے! تحریک (motivation) کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے اُس نے پڑھنے والوں کو خیالی جنت میں آباد کردیا ہے۔ متن کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش اور قابلِ قبول بنانے کے لیے قارئین کو یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور تھوڑی سی محنت سے وہ ایک دنیا کو حیران کرسکتے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کوئی بھی انسان اگر کچھ کرنے کی ٹھان لے تو ایک دنیا کو حیران کردے مگر یہ سب آسانی سے ہوتا ہے نہ راتوں رات۔ ہر بڑی کامیابی اور اس کا تسلسل برسوں، بلکہ عشروں کی محنت کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ شخصی ارتقا یا انفرادی کامیابی سے متعلق موضوعات پر لکھنے والے اپنے قارئین کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں ہر طرف ''سب اچھا ہے‘‘ کے بورڈ لگے ہوتے ہیں۔
آج کے انسان کو اس بھرم میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ سپرمین بن سکتا ہے۔ آج کی نئی نسل کو زمین پر ڈھنگ سے قدم رکھنا آتا نہیں اور مختلف سمعی و بصری ہتھکنڈوں کی مدد سے اُسے یہ باور کرادیا جاتا ہے کہ یہ دنیا تبدیل ہوا چاہتی ہے اور تبدیلی اُسی کے ہاتھوں واقع ہوگی! کھوکھلی باتیں، کھوکھلے دعوے اور کھوکھلے نعرے۔ زندگی اس لیے نہیں ملی کہ پورے وجود کو ہر سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کے حوالے کردیا جائے اور یہ بھی ہر وقت یاد رہنا چاہیے کہ زندگی ہر معاملے کو ہر اعتبار سے جامع بنانے کے لیے بھی عطا نہیں کی گئی۔ مگر کچھ نہیں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر سب کچھ نہیں کرسکتے۔ اپنی تمناؤں اور آرزوؤں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے انسان تھک جاتا ہے مگر کچھ دیر ٹھہر کر سکون کے سانس لیتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ وہ یہ زبردستی کی بھاگ دوڑ کیوں کر رہا ہے۔ کسی سے پوچھئے کہ وہ اس قدر دوڑ دھوپ کا عادی کیوں ہے تو جواب ملے گا کہ زندگی کا مفہوم تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اگر یہ جاننے کی خواہش ظاہر کیجیے کہ زندگی کے مفہوم سے کیا مراد ہے تو جواب ندارد۔ صرف آئیں بائیں شائیں!
اگر زندگی کو واقعی پُرلطف بنانا مقصود ہے تو ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہر وقت کام کرتے رہنے کو ترجیح مت دیجیے بلکہ جب آرام کرنا لازم ہو تب صرف آرام کیجیے۔ تھکے ہوئے جسم کے ساتھ ذہن بھی تھکتا ہے اور ایسے میں کچھ نہیں سُوجھتا، بالکل سامنے کی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی۔ جسم کی تھکن اُترتی ہے تو کام کرنے کی لگن توانا ہوتی ہے اور انسان کسی بھی کام کو محنت کا حق ادا کرتے ہوئے انجام تک پہنچاتا ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ زندگی الف سے یے تک توازن کا نام ہے۔ عقلِ سلیم کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کیجیے گا تو کچھ پائیے گا۔ ہماری صلاحیتوں کی بھی ایک حد ہے اور سکت کی بھی۔ کسی بھی نام نہاد مفکر کی باتوں میں آکر خود کو لامحدود مت سمجھیے۔ ایسا نہ ہو کہ بہت کچھ کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں آپ کچھ بھی نہ کر پائیں۔
اللہ کے کرم سے عطا ہونے والی زندگی ہر اعتبار سے اس قابل ہے کہ پوری دانائی سے گزاری جائے۔ صلاحیتوں میں اضافہ کرنا اور اُنہیں پروان چڑھانا بھی لازم ہے اور سکت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانا بھی معیاری زندگی کی بنیادی شرط ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ حقیقت پسند ہوں، خیالی جنت میں نہ رہتے ہوں۔ ''آپ سب کچھ کرسکتے ہیں‘‘ خاصا میٹھا راگ ہے جو حقیقت کی دنیا سے بہت دور لے جاتا ہے۔ کوئی بھی انسان ایک خاص حد تک ہی جاسکتا ہے۔ اُسے اپنی صلاحیت اور سکت کا علم تو ہونا ہی چاہیے مگر ساتھ ساتھ حدود کا بھی علم ہونا چاہیے۔ کوئی کوزے میں سمندر بند کرسکا ہے نہ کرسکے گا۔ ایسی کسی بھی بات سے متاثر مت ہوئیے جس میں بڑھک نمایاں ہو۔ خوش فہمی کی میٹھی ڈلی چوسنے والے ہر انسان سے صرف اِتنا کہنا ہے ؎
بھرا ہے کس نے کوزے میں سمندر
یقینا آپ دیوانے ہوئے ہیں