"MIK" (space) message & send to 7575

مزا جینے کا لینا ہے

ہمیں محض جینا نہیں‘ زندگی سے محظوظ بھی ہونا ہے۔ زندگی سے اچھی طرح محظوظ ہونے کی صلاحیت ہر انسان میں پائی جاتی ہے مگر اِس صلاحیت کو بروئے کار لانے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ بیشتر کو تو یہ احساس بھی نہیں کہ سانسوں کا تسلسل کافی نہیں، ہمیں شعوری سطح پر زندگی سے لطف کشید کرنا چاہیے۔ سیو سٹون (Sue Stone) نے اپنی کتاب ''لَو لائف، لِو لائف‘‘ (Love Life, Live Life) میں جو بحث کی ہے اُس کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ہم زندگی بھر مسرّت کی تلاش میں رہتے ہیں مگر یہ نکتہ کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں کہ مسرّت کے لیے کوشش کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کوشش ہی میں مسرّت پوشیدہ ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اُس مسرّت کو شناخت کر پاتے ہیں یا نہیں۔ سیو سٹون لکھتی ہیں کہ کسی بھی شعبے میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ آپ ڈھنگ سے جی رہے ہوں، معاملات متوازن ہوں اور آپ مجموعی طور پر خاصے پُرسکون انداز سے زندگی بسر کرتے ہوئے نمایاں شادمانی سے ہم کنار ہوں۔ جو خوش رہتے ہیں وہ بالعموم دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں نیت کا اخلاص ہو وہاں حقیقی شادمانی دکھائی ہی نہیں دیتی، محسوس بھی کی جاسکتی ہے۔ کائنات سبب اور نتیجے کے اصول کے تحت کام کر رہی ہے۔ ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے۔ عوامی زبان میں کہیے تو جیسا کروگے ویسا بھروگے یا جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ ہم جو کچھ دیتے ہیں وہی پاتے ہیں۔ اچھی سوچ ہمیں اچھی زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ منفی خیالات کے نصیب میں منفی اعمال لکھتے ہوتے ہیں۔ اگر مزا جینے کا لینا ہے تو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہمیں اپنی ہی نہیں، دوسروں کی زندگی سے بھی پیار کرنا ہے۔ جو رویہ ہم دوسروں کے ساتھ روا رکھیں گے وہی ہمارے بھی حصے میں آئے گا۔ 
خیالات مقناطیس کی طرح ہوتے ہیں یعنی ماحول سے بہت کچھ کھنچ کر ہماری فکری ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ ہماری فکری ساخت میں بہت کچھ ہے جو ہمارے کسی کام کا نہیں۔ ہمیں زندگی بھر اپنے آپ سے لڑنا پڑتا ہے۔ شعور کا کام ہے انتخاب۔ شعور اچھے بُرے خیالات کو ہماری فکری ساخت سے نکال کر پھینکتا رہتا ہے۔ تحت الشعور کا کام صرف حکم ماننا ہے۔ ہم خالص بیداری کی حالت میں جو کچھ بھی سوچتے ہیں وہ غیر محسوس طور پر ہماری فکری ساخت کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ فکری ساخت میں جو کچھ بھی تواتر سے آرہا ہو وہ رفتہ رفتہ پختہ خیالات اور پھر عقائد کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔ اگر عقائد یا نظریات بدلنا ہوں تو سوچنے کا انداز بدلنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ہر معاملے کا منفی رخ دیکھنا شروع کردیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے خیالات اور عقائد منفی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لوگ غیر محسوس طور پر منفی سوچ کو مزاج کا حصہ بنالیں تو زندگی منفی سرگرمیوں کی نذر ہوکر رہ جاتی ہے۔ 
سیو سٹون لکھتی ہیں کہ کسی بھی معاملے میں فکر مند ہونا فطری امر ہے مگر خوفزدہ ہونا لازم نہیں۔ اگر ہم قدم قدم پر، کسی جواز کے بغیر، خوف محسوس کریں تو جینے کا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ منفی سوچ سے بچنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ صرف اُن چیزوں کے بارے میں سوچیے جو آپ کو درکار ہیں۔ جن چیزوں کے ملنے نہ ملنے سے آپ کی زندگی میں کوئی فرق واقع ہوتا ہی نہیں اُس کے بارے میں سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ایسے بہت سے معاملات کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں جن کا ہم سے بہت دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خیالات کی طاقت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم سوچتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں پنپنے والا کوئی بھی خیال ہم پر کوئی اثر مرتب کیے بغیر رخصت نہیں ہوتا۔ 
شخصی ارتقا کے ماہرین اِس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ انسان کو اپنے تمام معاملات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ ہم آج جو کچھ بھی ہیں اُس کے پورے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ جب ہم اپنے وجود اور اس کی کیفیت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تب اصلاح کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جب ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ اپنی ہر پریشانی یا الجھن کے لیے ہم خود ذمہ دار ہیں تب ذہن کام کرنا شروع کرتا ہے۔ خیالات اُسی وقت منظّم ہو پاتے ہیں جب قبولیت موجود ہو۔ انکار کی حالت کے برقرار رہنے تک ہم ڈھنگ سے کچھ سوچ پاتے ہیں نہ کر پاتے ہیں۔ جب ہم اپنی حالت کے لیے دوسروں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں تب بات بات پر گلے شِکوے کرتے ہیں۔ شکایات کے بجائے جو کچھ بھی ہمیں میسر ہے اُس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ماضی کی تلخ یادوں سے دامن چھڑائے بغیر ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ زندگی سے لطف کشید کرنے کی منزل تو اِس کے بعد ہے۔ اگر کسی نے نا انصافی کی ہے تو اُسے بھول جانا بہتر ہے۔ آگے بڑھنے کا اِس سے اچھا راستہ کوئی نہیں۔ معاف کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی بھی ناروا بات کو برداشت کرتے چلے جائیں۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بارے میں سوچتے رہنے سے صرف تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ اس تکلیف سے بچنے کا فیصلہ کسی اور کو نہیں‘ آپ کو کرنا ہے۔ اگر آپ تلخ معاملات کو یاد کرتے رہیں گے تو مثبت سوچ کی طرف نہیں جا پائیں گے۔ 
سیو سٹون اس نکتے پر زور دیتی ہیں کہ اپنے آپ کو معاف کرنا بھی سیکھئے۔ اس کے لیے ماضی کے شکنجے سے نکلنا لازم ہے۔ منفی رویہ ترک کرنے کے بعد ہی نئی زندگی شروع کی جاسکتی ہے۔ خوش رہنے والے منفی نہیں سوچتے یعنی خوش رہنا ہے تو منفی طرزِ فکر سے نجات پائیے۔ عمومی سطح پر نمایاں مسرّت سے ہم کنار رہنا زیادہ آسان اُس وقت ہو پاتا ہے جب انسان پر اُس کا ہدف یا اہداف بالکل واضح ہوں۔ جب تک انسان یقین کی دولت سے مالا مال نہ ہو اور خواب نہ دیکھتا ہو تب تک اہداف کا تعین بھی نہیں کر پاتا۔ خواب دیکھنے ہی سے زندگی کے لیے کچھ طے کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ اہداف بھی اُسی وقت دل کو سکون فراہم کرتے ہیں جب انہیں لکھ لیا جائے۔ ایسی صورت میں انسان کو اچھی طرح یاد رہتا ہے کہ اُسے کرنا کیا ہے۔ اہداف متعین نہ ہوں تو بدحواسی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ ہم زندگی سے بھرپور لطف کشید کرنا تو چاہتے ہیں مگر اِس کے لیے جو کچھ بھی لازم ہے وہ نہیں کرتے۔ قدرت کا طریق یہ ہے کہ ہر کام مرحلہ وار ہو۔ قدرت کے ہاں کسی بات کی جلدی نہیں، کوئی بھی معاملہ جادوئی نوعیت کا نہیں کہ پلک جھپکتے میں سب کچھ ہوجائے۔ قدرت کے کارخانے میں تحمل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جس نے صبر کیا اُس نے جینے کا لطف پایا۔ 
ہمارے وجود کی سب سے بڑی بنیاد ہمارے خیالات ہیں۔ جو کچھ بھی ہم سوچتے ہیں وہ ہماری زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر انہیں زندگی سے بھرپور لطف کشید کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جو سوچنے کے معاملے میں محتاط اور پُراعتماد ہوتے ہیں۔ وہ لوگ زیادہ کامیاب پائے گئے ہیں جو زندگی کو ایک اِکائی کے طور پر لیتے ہیں۔ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی جسدِ واحد ہے یعنی کسی ایک معاملے کا دیگر معاملات پر کچھ نہ کچھ اثر مرتب ہوتا ہی ہے۔ جس نے اس حقیقت کو جانا اُس نے گویا خوش و خرم زندگی کا راز پالیا۔ 
سیو سٹون مزید لکھتی ہیں کہ خیالات کی طاقت اِس قدر ہے کہ اگر کوئی شخص پیچیدہ مرض میں مبتلا ہو تو محض مثبت سوچنے سے اچھا ہوسکتا ہے۔ بہت سوں کو ایسی حالت میں دیکھا گیا ہے کہ بے بنیاد خدشات کو نفسی ساخت کا حصہ بناکر کام سے گئے۔ منفی سوچ اچھے خاصے انسان کے ذہن کو الجھاکر زندگی سے محظوظ ہونے کی گنجائش ختم کردیتی ہے۔ جب تک کوئی واضح مقصد نہ ہو تب تک زندگی مفہوم سے دور رہتی ہے اور ہم حقیقی مسرّت سے محروم رہتے ہیں۔ زندگی سے لطف انداز ہونا کسی منزل کا نام نہیں، یہ تو سفر ہے۔ دائمی یا دیرپا نوعیت کی مسرّت تلاش کرنے کا نہیں، اپنانے یا پیدا کرنے کا معاملہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں