"MIK" (space) message & send to 7575

وقت کو سمجھے بنا چارہ نہیں

فرصت کے لمحوں میں کبھی یہ سوال آپ کے ذہن میں ابھرا کہ وقت کیا ہے؟ درحقیقت وقت اپنی اصل میں وہی ہے جو رہا ہے۔ ہاں! وقت سے متعلق ہمارے ادراک اور تصور و تاثر میں نمایاں تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔ ڈھائی تین ہزار پہلے کی بات کیا کیجیے، اب تو دو ڈھائی صدی پہلے والی دنیا بھی نہیں رہی۔ انسان کو جو کچھ بھی درکار تھا وہ ایجاد یا دریافت کیا جاچکا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر اِتنی تبدیلیاں آچکی ہیں کہ ع 
...پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
وقت سے متعلق ہمارا بنیادی تاثر یا تصور یہ ہے کہ یہ تیزی سے گزر رہا ہے۔ پچیس تیس سال پہلے تک وقت بہت سکون سے گزرتا تھا۔ تب یہ ہماہمی نہ تھی۔ انسان اُس کیفیت سے دوچار نہیں تھا جس کے بارے میں کہا گیا ہے ع 
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں
آج کے انسان کا ماحول یا زندگی سے ایک بنیادی شکوہ یہ ہے کہ یہ اِتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ گزرنے کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔ کیا واقعی؟ وقت ہاتھوں سے پھسل رہا ہے؟ بات تو کچھ ایسی دکھائی دیتی ہے مگر اِس میں وقت کا کیا قصور؟ وہ تو جیسا تھا ویسا ہی ہے۔ وقت نہیں بدلا، ہم بدل گئے ہیں اور اِس طور کہ اپنا ہی وجود عجیب دکھائی دینے لگا ہے۔ فی زمانہ معمولات کی نوعیت ایسی ہے کہ وقت کے بہت تیزی سے گزرنے کا تاثر مزید توانا ہوتا جارہا ہے۔ انسان کا ایک بڑا مخمصہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے معاملات کو اس قدر الجھا بیٹھا ہے کہ وقت بروئے کار کم لایا جاتا ہے اور ضائع زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی سے دشواری سے شاید شکیل بدایونی بھی دوچار تھے ؎
ان کا ذکر، ان کی تمنا، ان کی یاد
وقت کتنا قیمتی ہے آج کل
وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش وقت کے مزید ضیاع کی راہ ہموار کرتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ لوگ باضابطہ تیاری کیے بغیر ''مشن امپاسبل‘‘ کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں! آج کے انسان کا سب سے بڑا چیلنج یہی مشن امپاسبل ہے یعنی وقت کا بہتر نظم و نسق۔ وقت کو موزوں ترین طریقے سے بروئے کار لانا یعنی اُس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ یقینی بنانا ہی آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے اس حوالے سے بہت پہلے بیدار ہوگئے تھے۔ ہونا ہی تھا کیونکہ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت نے وہاں وقت کے نظم و نسق کا مسئلہ بہت پہلے پیدا کردیا تھا۔ وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کی بیشتر کوششوں میں اہلِ مغرب خاصی نمایاں حد تک کامیاب رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اُن کے ہاں دکھائی بھی دیتا ہے۔ مغرب کے اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ وقت کا ضیاع روکنے کے حوالے سے جنونی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ بس یا ٹرین میں یومیہ سفر کے دوران بھی محض بیٹھے رہنے کے بجائے کچھ نہ کچھ پڑھنے اور سُننے کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ یومیہ سفر کا دورانیہ بے مصرف نہ گزرے۔ساحر لدھیانوی نے کہا تھا ؎
وقت سے دن اور رات، وقت سے کل اور آج
وقت کی ہر شے غلام، وقت کا ہر شے پہ راج
جو وقت کی غلامی قبول کرتے ہیں‘ وقت بھی ان کی غلامی میں ہی آتا ہے۔ مغربی معاشروں میں عام آدمی کی شعوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، وقت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جائے۔ یہ معاشرے چونکہ وقت کے معاملے میں بہت حسّاس ہیں اس لیے ہر معاملے کو منصوبہ سازی کے آغوش میں دیا جاچکا ہے تاکہ وقت اور وسائل سے کماحقہٗ مستفید ہوا جاسکے۔ 
یہ سال کی اختتامی گھڑیاں ہیں، جب آپ کی نظروں سے یہ کالم گزرے گا تو سالِ نو کی ابتدائی ساعتیں ہو گی۔ ایسی ہی کیفیت میں ابن انشا نے کہا تھا؎ 
اک سال گیا، اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو 
آج کا انسان نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سی الجھنوں سے دوچار ہے۔ اگر خاطر خواہ منصوبہ سازی نہ کی جائے تو وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ جہاں وقت ہی کو سب کچھ گردانا جائے وہاں ہر معاملے کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک طرف تو غیر معمولی تیزی دکھائی دیتی ہے اور دوسری طرف توازن بھی یقینی بنانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ وقت کا بہترین نظم و نسق ہی ترقی یافتہ معاشروں کو متوازن اور مستحکم رکھ پارہا ہے۔ فی زمانہ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ ہر معاملے کو زیادہ سے زیادہ سمارٹ بنایا جائے۔ کسی بھی معاملے کو سمارٹ بنانے کا مطلب اب یہ ہے کہ وقت سمیت تمام وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔دواکر راہی کا ایک شعر اسی حوالے سے ہے؎ 
وقت برباد کرنے والو!
وقت برباد کر کے چھوڑے گا
جہاں وقت ہی سب کچھ ہو وہاں کسی بھی معاملے کے تمام فضول یا غیر ضروری پہلو ایک طرف رکھ دیے جاتے ہیں۔ یومیہ معمولات میں ذہانت اور احتیاط در آتی ہے۔ وقت کو سب سے بڑی دولت گرداننے کا ایک نمایاں نتیجہ تو یہ برآمد ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ ہی بدل جاتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی بھی اِس طور زندگی بسر کرتا ہوا ملتا ہے کہ وقت ضائع کرتا ہے نہ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے معاملے ہی سے توجہ ہٹاتا ہے۔ شعوری سطح پر کوشش کی جاتی ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے اُس کا کوئی نہ کوئی واضح مقصد ضرور ہو۔ یہ نہ ہو کہ بے مقصد کوشش کی جائے اور آخر میں منیر نیازی کا یہ شعر گنگنا رہے ہوں؎ 
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے 
خالص مادّہ پرستانہ سوچ کے تحت زندگی بسر کرنے والے اِسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مسرّت چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول میں بہت حد تک کامیاب بھی رہتے ہیں۔ جو اللہ سے ڈرتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اُن کیلئے یہ زندگی بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ نہیں۔ ہاں! بامقصد زندگی بسر کرنے کی کوشش ہمیں دنیا میں اپنے قیام کو زیادہ سنوارنے اور آخرت کیلئے زیادہ سے زیادہ تیاری کا ذہن بنانے میں مدد دیتی ہے۔ ایک دور تھا کہ لوگ ہر معاملے میں پوری تفصیل اور جزئیات پر توجہ دیا کرتے تھے۔ تب چونکہ زندگی میں عمومی سطح پر غیر معمولی فراغت تھی اِس لیے وقت ضائع کرنے والے معاملات برائے نام تھے۔ لوگ خاصی پُرسکون اور متوازن زندگی بسر کرتے تھے۔ تب کوئی بھی نہیں سوچتا تھا کہ وقت کو زیادہ سے زیادہ بارآور کس طور بنایا جائے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے زندگی کا دورانیہ چھوٹا ہوتا جارہا ہے۔ کل تک معاملہ یہ تھا کہ چوبیس گھنٹوں کا دن پورا کرنا دردِ سر ہو جایا کرتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کچھ پتا ہی نہیں چلتا کب صبح ہوئی اور کب شام ڈھلی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ذہن ہر وقت الجھا ہوا رہتا ہے۔بقول ظفر اقبال ؎
سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا 
میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جواں ہونے کی خاطر 
حاصلِ کلام یہ ہے کہ زندگی کے ہر بنیادی اور اہم معاملے کو اب سمارٹ سوچ سے ہم کنار کیجیے۔ ہم سوشل میڈیا کے عہد میں جی رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے صرف محظوظ نہ ہوا جائے بلکہ کچھ سیکھنے کی بھی کوشش کی جائے تاکہ زندگی بے مصرف گزارنے کے تصور اور رجحان سے نجات ملے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں