کل بھائی عدیل سے ڈیڑھ‘ دو سال کے بعد ملاقات ہوئی۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اِس لیے تبادلہ ہوتا رہا ہے، آج کل ملتان میں ہیں۔ ملتان کی گرمی مشہور ہے مگر بھائی عدیل کے مزاج کی ٹھنڈک وہاں رہ کر بھی برقرار ہے۔ اُن سے ہماری دعا سلام کم و بیش سات‘ آٹھ سال سے ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ کراچی میں تھے اور کم و بیش روزانہ نشست ہوا کرتی تھی۔ شمالی کراچی میں‘ جہاں ہم رہتے ہیں‘ وہاں ایک ہوٹل پر اُن اصحاب کی بیٹھک ہے جو علم دوستی اور ادب پسندی کا میلان رکھتے ہیں۔ اِن میں چند شعرا بھی ہیں۔ بھائی عدیل، حسن علی امام، بھائی حسیب، عامر شیخ اور نظرؔ فاطمی شعرا میں شامل ہیں۔ ہم بھی رفاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو اُن میں شمار کرلیتے ہیں یعنی لوگ شاعر سمجھ کر داد دیتے ہیں وگرنہ من آنم کہ من دانم!خیر! بھائی عدیل سے طویل مدت کے بعد ع
آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
جیسی کیفیت میں ملاقات ہوئی تو ہم نے عرض کیا کہ آپ تو ملتان تک پہنچ گئے ہیں مگر کچھ بتائیے کہ شاعری کہاں تک پہنچی ہے؟ اُنہوں نے ایک عجیب ہی طرز کا ''انکشاف‘‘ کیا۔ کہنے لگے آج کل شاعری نہیں کر رہا! یہ بات اُنہوں نے کچھ اِس انداز سے کہی گویا گاڑی کو بریک لگا رکھی ہے!ایسی ہی کوئی بات وہ پہلے بھی ذرا مختلف انداز سے کہہ چکے ہیں۔ ''شاعری نہیں کر رہا‘‘ سُن کر ہم چند لمحات کے لیے تو حیرت زدہ رہ گئے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شاعر ہو اور شعر گوئی کے عمل کو pause کردے؟ جہاں تک ہماری سوچ اور اندازے کا تعلق ہے، ایسا ممکن نہیں۔ کہتے ہیں شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ شعر گوئی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ شعرا بھی ایسے شکر خورے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طور شکر مل ہی جاتی ہے یعنی شعر کہہ بھی لیتے ہیں اور کسی نہ کسی طور دوسروں کے گوش گزار بھی کر ہی دیتے ہیں مگر یہ کیا بات ہوئی کہ شکر تو مل رہی ہو اور شکر خورا نہ کھانے پر بضد ہو!کیا کوئی پرندہ خود کو اُڑنے سے باز رکھ سکتا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی کے پردۂ ذہن پر کہانیاں ابھرتی ہوں مگر وہ نہ لکھنے کی ٹھان لے؟ انسان جس شوق پر فدا ہوتا ہے وہ شوق عملی سطح پر اظہار چاہتا ہے۔ اظہار کا وصف ہی انسان کو وہاں تک لے جاتا ہے جہاں تک وہ جانا چاہتا ہے۔
بھائی عدیل سے ہم نے عرض کیا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شاعر ہو اور شعر نہ کہے، کسی کو اداکاری کا شوق ہو اور وہ اداکاری سے اجتناب برتے، گانا آتا ہو اور نہ گائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی طور اپنا اظہار یقینی بناکر ہی سُکون کا سانس لیتا ہے۔ علوم و فنون کا معاملہ تو یہ ہے کہ بسا اوقات انسان کا اپنے آپ پر اختیار بھی برائے نام رہ جاتا ہے۔ کس میں دم ہے کہ اللہ نے کوئی وصف دیا ہو اور اُس کے سامنے دیوار کھڑی کرکے سُکون کا سانس لے؟ ہم اپنے وجود کو واضح طور پر دو خانوں میں بانٹ کر جیتے ہیں۔ ایک خانہ معاشی سرگرمیوں کا ہے اور دوسرا غیر معاشی سرگرمیوں یعنی ذوق و شوق سے متعلق افعال کا۔ ہر انسان اس تقسیم کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ ایسی تقسیم ہے جس کے شدید منفی اثرات سے بچنے یا پیچھا چھڑانے میں کم ہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں۔وہ لوگ کبھی خوش نہیں رہتے جو اپنے فطری میلان کے خلاف جاکر زندگی بسر کرتے ہیں۔ کم ہی خوش نصیب ایسے ہیں جو اپنے فطری میلان کو معاشی جدوجہد کا میدان بنانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ زندگی بھر معاشی جدوجہد کو بہانہ بناتے ہوئے اپنے مشاغل کو کا گلا گھونٹتے رہتے ہیں۔ اگر اللہ نے کسی کو شعر کہنے کا وصف بخشا ہے تو طبیعت کی موزونیت کو جان بوجھ کر داؤ پر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد بھی جاری رہے اور مشاغل کی گاڑی بھی کسی مقام پر نہ رُکے۔ بھائی عدیل ہی کی طرح عامر شیخ بھی شاعری کو بریک لگانے کے قائل ہیں۔ اُن کے والد بھی شاعر تھے۔ تازہ غزل سنانے کی فرمائش کیجیے تو عامر شیخ کا جواب ہوتا ہے کہ طبیعت مائل بھی نہیں ہو رہی اور وہ مائل کرنے کوشش بھی نہیں کرتے۔ ایک بار ہم نے یوں ہی پوچھ لیا کہ نئی غزل کیوں نہیں سُنا رہے، کیا ابا جان کی غیر مطبوعہ غزلوں کا سٹاک ختم ہوگیا! اُس دن سے انہوں نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی کنارہ کرلیا! پیٹ سب کے ساتھ لگا ہوا ہے اِس لیے اُس کی آگ بجھانے کی خاطر کچھ نہ کچھ کرتے رہنا پڑتا ہے۔
صاحب! دماغ بھی تو سب کے حصے میں آیا ہے۔ ذہن کے پردے پر ایسا بہت کچھ ابھرتا ہے جو مزاج سے مطابقت رکھتا ہے اور جسے نظر انداز کرنے کی صورت میں اچھے خاصے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمانا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ بالکل اِسی طور جو سرگرمی دل کو پسند ہو وہ بھی تو مرتے دم تک کا سَودا ہے۔ اگر کسی کو گانے کا شوق ہے تو معاشی جدوجہد کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طور تھوڑا سا وقت گانے کے لیے بھی نکال ہی سکتا ہے۔ مطالعہ انسان کو بہت کچھ دیتا ہے۔ اگر کسی کو مطالعے کا شوق ہے تو وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سے تھوڑا بہت وقت نکال کر اِتنا مطالعہ تو کر ہی سکتا ہے جس سے زندگی کی معنویت کا گراف بلند ہو۔ یہ دنیا ہمیں صرف ایک بار ملی ہے۔ جو سانسیں ملی ہیں اُنہیں زندگی بنانا ہے۔ یہ مرحلہ ہے بہت جاں گُسل۔ ہم نے دیکھا ہے کہ زندگی کو بامعنی انداز سے بسر کرنے کی کوشش انسان سے بہت بڑی قیمت وصول کرتی ہے۔ آپ سوچیں گے سب کچھ داؤ پر لگانے کی کیا ضرورت ہے، الجھنوں کو دعوت دیے بغیر جیے جانے میں کیا قباحت ہے۔ آپ کی سوچ بھی درست مگر معاملہ یہ ہے کہ جو لوگ زندگی کے معاشی و غیر معاشی پہلوؤں میں نمایاں توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں اُن کے دل میں طمانیت کا تناسب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بامعنی زندگی بسر کرنے کی کوشش میں کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں کے دل کا سکون چہرے سے نمایاں ہوتا ہے۔ اُن میں انوکھی طرز کی تمکنت دکھائی دیتی ہے۔ انسان کا اپنے وجود پر بھی اچھا خاصا حق ہوتا ہے۔ اگر دل کو کچھ اچھا لگتا ہے تو اُس سے محض اس لیے کنارہ کش نہیں ہوا جاسکتا کہ کمانے سے فرصت نہیں ملتی۔ ہر انسان اپنے لیے کچھ نہ کچھ وقت نکال سکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ ایسا چاہتا ہے یا نہیں۔ ہم نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو اہلِ خانہ کی کفالت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر بصد شوق اٹھاتے ہیں اور مشاغل بھی ترک نہیں کرتے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کمانے کے جھمیلے میں پڑنے کے بعد کرکٹ اور دیگر آؤٹ ڈور کھیلوں کے لیے وقت نکالنا خاصا دشوار ہوتا ہے؛ تاہم مطالعہ اور شعر گوئی تو ایسا معاملہ نہیں۔ اب تو انسان اپنے تازہ اشعار کچھ ہی دیر میں پوری دنیا میں پھیلا سکتا ہے۔ مطالعے کے شوقین ہر انسان کو اب گھر بیٹھے بہت کچھ پڑھنے کی سہولت میسر ہے۔ ایسے میں اگر کوئی معاشی سرگرمیوں کی ہماہمی کو جواز یا بہانہ بناکر اپنے مشاغل کو بالائے طاق رکھے تو یہی کہا جائے گا کہ وہ اپنے وجود کا گلا گھونٹ رہا ہے۔
بھائی عدیل اور عامر شیخ دونوں سے ہم یہی استدعا کریں گے کہ اللہ نے شعر کہنے کا محض شوق نہیں، بلکہ سلیقہ بھی بخشا ہے تو اپنے ہی وجود کے آگے بند باندھنے سے گریز کریں۔ یومیہ بنیاد کر کچھ وقت نکال کر وہ اساتذہ کے کلام کا مطالعے اور پھر زبان و بیان کی درستی کے ساتھ تھوڑی بہت مشقِ سخن کے ذریعے اپنی آتشِ شوق کو یوں بھڑکا سکتے ہیں کہ دنیا دیکھے۔ یہ طمانیتِ قلب یقینی بنانے کا عمل ہے۔ اگر ہمارا مشورہ اچھا لگے تو بھائی عدیل اور عامر شیخ کیلئے اضافی مشورہ یہ ہے کہ شعر گوئی کے وصف کو مہمیز دینے کا عمل شہرِ آشوب کہنے کے بجائے ہم جیسے مخلص دوستوں کیلئے کوئی قصیدہ نما چیز کہنے سے شروع کریں تاکہ کچھ حقِ رفاقت بھی ادا ہو!