"MIK" (space) message & send to 7575

کئی کشتیوں کے مسافر

فیصل کو ہم کم و بیش پندرہ سال سے جانتے ہیں۔ وہ بھی عام پاکستانیوں میں سے ہے یعنی سوچے سمجھے بغیر جینے کا عادی ہے! بیشتر معاملات میں اُس کے فکر و عمل سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ذہن کو بروئے کار لانے کا ذرا بھی شوقین نہیں۔ ہم نے اُسے معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے وہی سوچ اپناتے دیکھا ہے جو میلہ دیکھنے والے اپناتے ہیں۔ میلے میں کئی آئٹم ہوتے ہیں۔ لوگ باری باری یہ آئٹم دیکھتے ہیں۔ میلے کا یہی ماحول ہوتا ہے، جو کچھ بھی دستیاب ہو وہ دیکھیے اور حِظ اٹھائیے۔ فیصل نے بھی طے کر رکھا ہے کہ زندگی کو میلے کے درجے میں رکھ کر اُس سے بھرپور حِظ اٹھاتے رہنا ہے۔ 
لڑکپن کے ختم ہونے پر فیصل نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے کیا کرنا چاہیے۔ فیصل نے سیلز مین شپ کو اپنایا۔ آوارہ خرامی اُس کے مزاج کا حصہ تھی اور ہے۔ بچپن میں وہ گھر میں کم ٹِکتا تھا اور گلیوں گلیوں گھومتا پھرتا تھا۔گھومنے پھرنے کا شوق سیلز مین شپ میں بصد شوق پورا کیا جاسکتا تھا‘ سو کیا گیا۔ ڈھائی تین سال تک سیلز مین شپ کے مزے لوٹنے کے بعد فیصل نے جنرل سٹور کھولنے کی ٹھانی اور پھر اِس ارادے پر عمل کرکے ہی سکون کا سانس لیا۔ مگر خیر! اس سانس کا دورانیہ زیادہ نہ تھا۔ فیصل کی سیماب طبع کو بھلا چار دیواری تک محدود رہنا کہاں راس آسکتا تھا؟ ڈیڑھ دو سال میں اس کام سے بھی فیصل اُوب سا گیا اور پھر ٹریک بدلتے ہوئے ایک بڑی مرچنڈائزنگ فرم کا ملازم ہوگیا۔ فرم بھی بڑی تھی اور ملازمت بھی بُری نہیں تھی مگر فیصل زیادہ دن ٹھہرنے والا نہ تھا۔ محض ایک سال میں اُس کا دل اِس ملازمت سے بھی اُچاٹ ہوگیا۔ وہی سوال پھر اُٹھ کھڑا ہوا کہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کیلئے اب کیا کِیا جائے۔ معیشت کے راگ میں متعارف کرائے جانے والے نئے تان پلٹوں نے ایسے کئی کام متعارف کرائے ہیں جو کل تک وجود نہیں رکھتے تھے۔ آن لائن کار منگوانے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ دوسروں کو کامیاب ہوتے دیکھا تو جمع پونجی بروئے کار لاتے ہوئے فیصل نے ایک کار خریدی اور اُسے ایک کیب کمپنی میں لگادیا۔ بس، پھر وہ تھا اور کار تھی۔ گھومنے کا شوق بصد شوق پورا کیا جانے لگا! ؎ 
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کی عادت نے فیصل کو چلتے پھرتے ملغوبے میں تبدیل کردیا ہے۔ اب تک وہ پانچ سے زائد شعبوں میں خود کو آزما چکا ہے۔ کام تو بہت کیا ہے اور اچھا خاصا کمایا بھی ہے مگر چونکہ ترتیب و تنظیم کا خیال نہیں رکھا اس لیے کہیں بھی زیادہ دن ٹِک نہیں پاتا۔ اگر معاملات موافق ہوں تب بھی کچھ ہی دنوں میں بیزاری سی محسوس ہونے لگتی ہے اور فیصل نئے ''ٹِھیے‘‘ کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔ کہیں ٹِک کر کام نہ کرنے کی عادت نے اُسے سُکھ کم اور دُکھ زیادہ دیا ہے۔ عملی میدان بار بار بدلنے والوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ ان کے وجود کا معاشی پہلو عدم استحکام سے دوچار رہتا ہے۔ اللہ ہی کو خبر ہے کہ یہ زبردستی کی تلاش کب تک جاری رہے گی۔
کسی بھی ماحول میں ایسے بہت سے لوگ آسانی سے مل جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے کسی ایک معاملے کو قابلِ توجہ گرداننے کے بجائے بیک وقت بہت کچھ کرنا چاہا اور پھر یوں ہوا کہ جو کچھ وہ کرسکتے تھے وہ بھی نہ کرسکے! پاکستانی معاشرے میں قدم قدم پر فیصل جیسے لوگ ملتے ہیں۔ معاشی جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کیلئے لازم ہے کہ انسان کسی ایک شعبے پر بھرپور توجہ دے اور اگر اُس سے ہٹ کر بھی کچھ کرنے کو جی چاہے تو کچھ ایسا کرے جو بنیادی یا کلیدی شعبے سے بہت حد تک مطابقت رکھتا ہو۔ ہم نے ایسے کئی نوجوان دیکھے ہیں جنہوں لڑکپن کی حدود سے نکلنے کے بعد یعنی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اپنی پسند کے شعبے کے ماہرین سے کیریئر سے متعلق مشاورت کی اور کامیاب رہے۔ فی زمانہ کیریئر کا انتخاب خاصا جاں گُسل مرحلہ ہے کیونکہ ہر شعبے میں خاصی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی جارہی ہیں۔ کم ہی لوگ ہیں جو کیریئر کیلئے اپنے طور پر عمدہ منصوبہ سازی کر پاتے ہیں۔ زندگی بھر کیلئے کوئی شعبہ اپنانا ہو تو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ پانچ یا دس سال بعد اُس شعبے کی مجموعی کیفیت کیا ہوگی۔ ترقی یافتہ معاشروں میں سکول کی سطح ہی سے بچوں کے ذہن ٹٹولنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اساتذہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کس بچے کو کون سا شعبہ بہت اچھا لگتا ہے۔ والدین بھی اساتذہ سے ملاقات کے دوران بچوں کے متوقع کیریئر کے بارے میں مشاورت کرتے ہیں۔ بچوں کیلئے تابناک مستقبل یقینی بنانے کا یہ خاصا معقول اور بارآور طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں نئی نسل اب تک اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ یہ کچھ ایسا غلط نہیں۔ حتمی تجزیے میں تو نئی نسل ہی کو طے کرنا ہوتا ہے کہ اُسے کیا کرنا ہے مگر اِس سے پہلے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے، تبادلۂ خیالات کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ مشاورت ہی اُن کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ نئی نسل میں ہوش کم اور جوش زیادہ ہوتا ہے۔ یہ کیفیت بسا اوقات غلط فیصلے بھی کرادیتی ہے۔ نئی نسل کو زندگی کا عملی تجربہ نہیں ہوتا۔ وہ عملی زندگی کے ایسے بہت سے پہلوؤں کو بالکل نہیں جانتی جنہیں جانے بغیر کامیابی یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔
جو کچھ فیصل نے اب تک کیا ہے ویسا ہی اور بہت سے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ایسا عام طور پر اُس وقت ہوتا ہے جب کیریئر کے حوالے سے سنجیدگی اختیار نہ کی جائے اور اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے کسی سے مشاورت کی زحمت گوارا نہ کی جائے۔ کیریئر بھی ہمارے لیے پانی اور ہوا جیسا ہی معاملہ ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ وہی لوگ کامیاب دیکھے گئے ہیں جو اپنے لیے کسی حتمی شعبے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ایک طرف تو مختلف شعبوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا پڑتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ طویل المیعاد بنیاد پر یافت کے معاملے میں کون سا شعبہ زیادہ قابلِ اعتبار رہے گا۔ جو کچھ فیصل نے اپنے ساتھ کیا ہے وہی کچھ ہمارے ہاں لاکھوں نوجوان اپنے ساتھ کرتے ہیں یعنی سوچے سمجھے بغیر کوئی بھی کام شروع کر دینا اور پھر اُس کام یا شعبے کو الوداع کہتے ہوئے کوئی نیا دَر تلاش کرنا۔ ہمارے ہاں بیشتر افراد کیریئر کے نام پر دَر دَر بھٹکتے رہتے ہیں۔ کیریئر منتخب کرنے کے مرحلے میں صرف دولت اور شہرت پر توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مزاج میں اُس کام کے حوالے سے مطابقت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کرنا یا کرتے چلے جانا خسارے کی منزل تک پہنچانے والی روش ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں اس خسارے سے دوچار افراد بڑی تعداد میں مل جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کا بُرا انجام دیکھ کر بھی لوگ اس روش پر گامزن رہنے سے اجتناب نہیں برتتے۔ وقت بہت تیزی سے بدلا ہے۔ زمانے کی اس کروٹ نے بہت سے معاملات کو کچھ کا کچھ بنا ڈالا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ بڑے اداروں اور ملازمتوں کا تصور دھندلاتا جارہا ہے۔ ''سیلف ایمپلائمنٹ‘‘ کا تصور تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ کیریئر کا معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ کسی بھی وقت کوئی بحران معیشت میں عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے۔ ایسے میں دائمی نوعیت کے استحکام سے ہم کنار شعبوں کو انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں نجی شعبہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔ ایسے میں عملی زندگی کیلئے بار آور اور تادیر مستحکم رہنے والے شعبے کا انتخاب مزید مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں نئی نسل کو عملی زندگی کے میدان میں پُھونک پُھونک کر قدم رکھنا ہے۔ ذرا سی لاپروائی مستقل پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں