عالمی سیاست میں مشرقِ وسطیٰ کے محلِ وقوع کی فیصلہ کن حیثیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ ایک خطہ جب بگاڑ کا شکار ہوتا ہے تو کئی خطوں میں خرابیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ سوال صرف جغرافیے کا نہیں‘ معیشت کے ساتھ ساتھ مذہب اور تاریخ کا بھی ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام‘ تینوں ہی مذاہب کے مقدس ترین مقامات اس خطے میں ہیں۔ بیشتر انبیاء کرام علیہم السلام کی میزبانی کا شرف بھی اِسی خطے کے حصے میں آیا۔ اِسی خطے میں تینوں الہامی ادیان سے تعلق رکھنے والے متصادم رہے ہیں۔ صدیوں سے موجود اور پنپتی ہوئی کشیدگی جب گُل کھلانے پر آتی ہے توپھر معاملات کچھ اِس انداز سے خرابی کی طرف جاتے ہیں کہ درست ہونے کا نام نہیں لیتے۔ پاکستان اگرچہ مشرقِ وسطیٰ کا حصہ نہیں مگر اُس سے اِس طور جڑا ہوا ہے کہ وہاں رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات سے کسی طور محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مشرقِ وسطیٰ کی کلیدی ریاستوں میں پاکستان کے لاکھوں افراد جہدِ معاش سے وابستہ ہیں۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں مقیم پاکستانی جو کچھ کماتے ہیں اُس کا نمایاں حصہ پاکستان بھیجتے ہیں جس کے نتیجے میں قومی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ وہاں پیدا ہونے والی سیاسی، معاشرتی اور معاشی خرابیاں پاکستانی معیشت پر یوں اثر انداز ہوتی ہیں کہ کئی شعبے منفی اثرات کی زد میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا ہم سے محض معاشی نہیں، مذہبی اور تاریخی تعلق بھی ہے۔ اسلام اِسی خطے میں پروان چڑھا اور باقی دنیا میں پھیلا۔ مکمل دین کی حیثیت رکھنے والے اسلام کی مناسبت سے مشرقِ وسطیٰ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے محترم ہے۔ فلسطین کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ فلسطین اور اُس سے ملحق خطوں کا عدم استحکام مسلم دنیا میں اضطراب پیدا کرتا رہتا ہے۔ دنیا بھر کی مسلم ریاستیں فلسطین کے حوالے سے عوامی سطح پر حسّاس واقع ہوئی ہیں۔ عالمی سیاست کا رخ تبدیل کرنے میں مشرقِ وسطیٰ کی کیفیت نے ہر دور میں خاصا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ فی زمانہ امریکا اور یورپ کی توجہ مشرقِ وسطیٰ کو زیادہ سے زیادہ عدم استحکام سے دوچار رکھنے پر مرکوز ہے۔ شعوری کوشش کی جاتی رہی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اور معاشرتی سطح پر خرابیاں پنپتی رہیں۔ سفارتی محاذ پر بھی اس خطے کا کردار بہت الجھا ہوا ہے۔ مغربی طاقتوں نے خاصی جامع منصوبہ سازی کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر الجھاکر رکھا ہے۔ سوال صرف تیل کی دولت کا نہیں‘ تیل کے ذخائر تو امریکا میں بھی کم نہیں، دیگر خطوں میں بھی اچھا خاصا تیل ہے۔ مغربی طاقتوں نے خلیج کو یوں اپنے حصار میں لے رکھا ہے کہاب وہ کسی اور طرف جانے کا سوچنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ اب برف کچھ پگھلنے لگی ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ ؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں
والی کیفیت پیدا ہوچلی ہے۔ چین کمر کَس کے میدان میں آگیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے اب تک مکاری سے متصف ذہانت سے اس خطے کا استحصال کیا ہے۔ برطانیہ کے معروف جریدے ''دی اکانومسٹ‘‘ نے لکھا ہے کہ چین کی حکومت نے اندرونِ ملک کورونا وائرس پر قابو پاتے ہی سفارتی سطح پر خاصا جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اس کی طرف سے آنے والی امداد کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ مصر، خلیجی ریاستوں، ایران اور عراق نے شپمنٹس خوشی خوشی قبول کیں۔ ایک ایسے وقت کہ جب امریکا پیچھے ہٹ رہا ہے اور چین کے اثر و رسوخ کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے، عراق کے وزیر صحت جعفر علاوی نے کہا ''چین نے میڈیکل سپلائز کے علاوہ اپنے بہترین ماہرین کی خدمات بھی فراہم کی ہیں۔ دوسری طرف امریکا نے ہمیں ایک معمولی سا انجکشن بھی فراہم نہیں کیا‘‘۔ چین آج عراق کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ عراق کے ایک سابق وزیر توانائی کہتے ہیں کہ ہمارا بنیادی یا کلیدی آپشن یہ ہے کہ چین سے طویل المیعاد نوعیت کی سٹریٹیجک پارٹنر شپ قائم کی جائے۔ پورے خطے میں ایسے ہی تاثرات و جذبات پائے جاتے ہیں۔ توانائی کے ذرائع تک رسائی چین کی بنیادی ضرورت اور ترجیح ہے؛ تاہم مشرق وسطیٰ سے اس کا تعلق اس ہدف سے کہیں آگے ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ چین نے چار عشروں کے دوران خاصی محنت کی ہے اور اب پھل کھانے کا وقت آیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے لیے بھی یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ ایک زمانے سے یہ خطہ دگرگوں رہا ہے۔ مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی مدد سے پورے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھنے کی پالیسی پر ایسی سفاکی سے عمل کیا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مشرقِ وسطیٰ ایسا خطہ ہے جس پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرکے چین اپنے لیے ایشیا اور افریقہ‘ دونوں میں قدم مضبوط کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کوشش اب تک تو کامیابی کی طرف جاتی دکھائی دی ہے۔ علاقائی ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں سات آٹھ عشروں کے دوران امریکا اور یورپ سے بھی کچھ خاص نہیں مل سکا ہے۔ ایسے میں اگر عالمی سیاست کے میدان میں نیا کھلاڑی ابھرا ہے تو اُس کا ساتھ دینے میں کچھ ہرج نہیں‘ کیا پتا اِس بار نصیب جاگ جائے۔
چین نے مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے جامع منصوبہ سازی کی ہے۔ چینی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکا اور یورپ نے اس خطے کو اب تک وعدوں سے بہلایا ہے اور دعووں کا منجن بیچا ہے۔ یہ سلسلہ اب جاری رہتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں چینی قیادت کے کرنے کا کام یہ ہے کہ علاقائی ممالک کی معیشتی بنیاد مضبوط کرے۔ چین کو توانائی کے حوالے سے ایسی رسد درکار ہے جس میں کوئی رخنہ نہ ہو۔ تیل کے عوض چین صنعتی یونٹس، بندر گاہیں اور ریلوے ٹریک تعمیر کر رہا ہے۔ چین نے سعودی عرب کو جوہری پروگرام چلانے اور آگے بڑھانے میں معاونت فراہم کی ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر میں چین کی ایک بڑی کمپنی مشرق وسطیٰ میں فائیو جی نیٹ ورکس کے بزنس میں بہت بڑا حصہ رکھتی ہے۔ امریکا اب چین کو معاشی اور اسٹریٹیجک معاملات میں اپنے بڑے حریف کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ چین سے زیادہ قربت اختیار نہ کریں۔ یہ تو ہوا امریکا اور یورپ کا بیان۔ عرب دنیا کے بیشتر لیڈر چین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ ہر معاملے میں امریکا اور یورپ پر بھروسا کرنے کا انتہائی خطرناک نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے۔ عرب لیڈر چین کو امریکا کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ امریکا یہ تاثر دینے لگا ہے کہ مشرق وسطیٰ سے اس کا جی بھر گیا ہے۔
یہ بات تو خیر یقینی ہے کہ بہت سی عرب ریاستیں اسلحے اور دفاع کے معاملے میں اب بھی امریکا ہی پر منحصر رہیں گی مگر پھر بھی مغربی قوتوں کو صاف محسوس ہو رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کو مکمل طور پر مٹھی میں رکھنا اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ مشرقِ وسطیٰ میں رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا اور روس کے مقابلے میں چین زیادہ مقبول عالمی قوت ہے۔ علاقائی ممالک کے لیے یہ امر بھی اطمینان کا باعث ہے کہ چین علاقائی پولیس مین کا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ہاں! وہ خطے میں اپنی موجودگی کو دھیرے دھیرے اسٹریٹیجک دائرے تک لے جارہا ہے۔ یہ سلسلہ کسی کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں کیونکہ اِس میں ایک زمانہ لگے گا اور فی الحال چین سے کسی بھی سطح پر جارحانہ فکر و عمل کے اپنائے جانے کا خطرہ نہیں۔ اب مشرقِ وسطیٰ کو بہت سوچ سمجھ کر کھیلنا ہے۔ عالمی سیاسی بساط پر ایک کامیاب چال پورے مشرقِ وسطیٰ کو فیصلہ کن پوزیشن میں لاسکتی ہے۔ اُس کا جھکاؤ فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کو مل کر اب وہ بات کرنی ہے جو معاملات کو حتمی نتیجے تک لے جائے۔ دنیا ایک زمانے سے مشرقِ وسطیٰ کے ''قولِ فیصل‘‘ کی راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ انتظار اب ختم ہونا چاہیے۔