"MIK" (space) message & send to 7575

اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا

جون بھائی سے ٹھیک ہی تو کہا تھا ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اِتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!
یہ شعر جون بھائی نے اپنے لیے کہا تھا مگر پوری قوم یا معاشرے ترجمانی ہوگئی۔ عشروں سے ہم خود کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں اور شرمندہ ہیں نہ ملول۔ اِس طرف کبھی دھیان گیا ہی نہیں۔ جائے بھی کیسے؟ خود کو تباہ کرنے کے عمل میں جو لذت چھپی ہے اُس سے جان چھوٹے تو کچھ اور سوچا جائے۔ کل مرزا تنقید بیگ سے ہفتہ وار ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد حالاتِ حاضرہ کا ذکر چھڑا تو ع 
بات پہنچی تِری جوانی تک
کے مصداق مرزا راشن پانی لے کر ہم پر چڑھ دوڑے۔ قصور بہت حد تک ہمارا ہی تھا۔ ہم ہر بار بھول جاتے ہیں کہ مرزا کسی اور دنیا کے ہیں۔ اُن سے بتیانے میں کوئی قباحت نہیں۔ ہاں! اُن سے کسی بھی موضوع پر بے دھیانی اور لاپروائی کے ساتھ بحث کرنا اپنی سوچ و فکر کو موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ اب تک بیسیوں بار مرزا سے بھڑ چکے ہیں۔ یہی بات مرزا کو دُکھ دیتی ہے کہ اُن سے کئی بار گرما گرم بحث و تمحیص کے باوجود ہم سلامت کیونکر ہیں!خیر! مرزا سے جب بھی ملیے مہنگائی کا رونا وہ ضرور روتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کے بارے میں گفتگو کرنا اور پھر اشیائے خور و نوش کے بلند نرخوں کا رونا روتے رہنا اُن کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ اگر یہ رونا اُن کی ذات تک محدود رہتا تو کوئی بات نہ تھی‘ مشکل یہ ہے کہ مہنگائی کا رونا روتے روتے وہ دوسروں کے دماغ کی دہی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اور دوسروں میں اوّل و آخر ہم ہی تو ہیں‘ کسی اور میں اِتنی ہمت کہاں کہ اُن سے باقاعدگی سے ملاقات کرے اور اپنے اعصاب و حواس کا تیا پانچا کرائے!
مرزا کے دن کا آغاز پُرتکلّف ناشتے سے ہوتا ہے۔ اب گھر میں بہوئیں بھی ہیں اس لیے ناشتے کو تو پُرتکلّف ہونا ہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بچے چھوٹے تھے اور پورے گھر کا بوجھ بھابھی کے ناتواں کاندھوں پر تھا تب مرزا کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے وہ اَدھ مُوئی ہو جاتی تھیں۔ ایسے میں گھریلو چپقلش عام بات تھی۔ اُس دور میں ہم جب بھی مرزا کے گھر جاتے تھے پورے ماحول کو اکھاڑا سا پاتے تھے۔ میاں بیوی میں ٹھنی رہتی تھی اور بچے بے چارے دل تھام کر یہ یومیہ تماشا ٹکٹ کے بغیر دیکھا کرتے تھے۔ اب میاں بیوی میں تھوڑی سی ''برد باری‘‘ پیدا ہوگئی ہے۔ وہ ایسے کہ ڈھلی ہوئی عمر میں لڑنے جھگڑنے کی سکت ہی باقی نہیں رہی۔ ہمیں بھی اس بات پر حیرت ہے کہ مرزا کی آنکھوں میں اِتنی شرم پیدا ہوگئی ہے کہ پوتوں‘ پوتیوں اور نواسوں‘ نواسیوں کے سامنے بھابھی سے جھگڑا کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ چلیے! ڈھلی ہوئی عمر کا ایک بڑا فائدہ تو ہم نے بھی دیکھ ہی لیا۔ کل کی ہفتہ وار ملاقات بھی یادگار ثابت ہوئی۔ مرزا حسبِ عادت و توقع بھرے بیٹھے تھے۔ ڈیڑھ دو ماہ سے وہ مہنگائی کا رونا رو رہے تھے۔ بنیادی شکوہ یہ تھا کہ اشیائے خور و نوش کے دام واقعی جال بن گئے ہیں جن میں کم آمدنی والے شہری بے چارے پھنس کر رہ گئے ہیں۔ مرزا کی اِس بات کو غلط قرار دینا ہمارے بس میں نہ تھا کیونکہ خود ہمیں بھی اندازہ ہے کہ مہنگائی نے دام بچھا رکھا ہے اور قوم اُس میں پھنسی ہوئی ہے۔ پورے معاشرے کی نکیل جن کے ہاتھ میں ہے وہ اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کا عمل جاری رکھا جاتا ہے اور جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ عوام اَدھ مُوئے ہوگئے ہیں اور کھال سکڑ کر ہڈیوں سے جا لگی ہے تو تھوڑی سی ڈھیل دیتے ہیں کہ کچھ دن آرام سے گزریں اور لوگ اس قابل ہوسکیں کہ اُن کی رگوں سے خون دوبارہ نچوڑا جاسکے۔ 
عوام کے دکھوں کا ہمیں بھی اچھا خاصا اندازہ ہے۔ ہم کون سے خواص میں شمار ہوتے ہیں؟ ہم بھی تو اوّل و آخر عوام ہی میں سے ہیں۔ مرزا نے جب اپنے پسندیدہ معمول کے مطابق‘ مہنگائی کا رونا روتے ہوئے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی تو ہم نے عرض کیا کہ حالات چاہے جتنے خراب ہوجائیں اِتنے خراب کبھی نہیں ہوسکتے کہ انسان کے لیے جسم و جاں کا تعلق برقرار رکھنا ممکن نہ رہے۔ یہ برداشت اور کمپرومائز کا معاملہ ہے۔ انسان کو بہت سے معاملات میں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ پسپائی کسی بھی اعتبار سے شکست تسلیم کرنے کا نام نہیں۔ یہ تو حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ 
مرزا سے ہماری یہ بات ہضم نہ ہوئی۔ تنک کر بولے ''یہاں لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا ہے اور تم فلسفہ جھاڑ رہے ہو۔ تم جیسے لوگ صرف فلسفہ جھاڑ سکتے ہیں۔ کبھی گھر سے نکلو، بازار تک جاؤ اور کچھ خریداری کرو تو معلوم ہو کہ آج کے دور میں ڈھنگ سے جینا کیسا جاں گُسل مرحلہ ہے‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم بازار بھی جاتے ہیں اور خریداری بھی کرتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مہنگائی نے اچھے اچھوں کا پتّہ پانی کردیا ہے۔ مرزا بولے ''اگر یہ سب کچھ جانتے ہو تو معلوم ہوگا کہ آج کل اشیائے خور و نوش کے نرخوں کی کیا کیفیت ہے‘‘۔ ہم نے دست بستہ عرض کی کہ سبزیوں اور پھلوں کے دام ایک ڈیڑھ ماہ قبل تک عام آدمی کی دسترس سے باہر تھے، ڈیڑھ ماہ قبل مٹر 300 تا 400 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہے تھے۔ اب 60، 70 روپے فی کلو کے نرخ پر بک رہے ہیں۔ ٹماٹر 150 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت کیا جارہا تھا اور یہی حال آلو، پیاز، مرچ، لوکی، بھنڈی وغیرہ کا بھی تھا۔ اب اِن تمام اشیاء کے دام گرچکے ہیں۔ دھنیے کی ایک معمولی گڈی ڈیڑھ ماہ قبل بیس روپے کی تھی‘ آج دس روپے میں تین یا چار گڈیاں فروخت ہو رہی ہیں۔ مرزا نے سبزیوں کے گرے ہوئے داموں پر شکر ادا کرنے کے بجائے ہمیں لتاڑنے کی غرض سے کہا ''سبزیوں کے دام گرے ہیں تو راہوں میں کوئی پھول نہیں بچھ گئے۔ پہلے اِن ظالموں نے جی بھرکے لُوٹا، اب اشک شُوئی کی خاطر تھوڑی سی آسانی پیدا کی ہے‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ ٹماٹر اِس وقت 100 روپے میں تین‘ چار کلو مل رہے ہیں مگر اُن سے مستفید ہونے والے کم ہیں۔ پورا سیزن اعلیٰ درجے کا سیب زیادہ سے زیادہ 100 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہوا مگر لوگ سیب کھانے سے گریزاں دکھائی دیے۔ اب اعلیٰ درجے کا کینو 60 تا 90 روپے فی درجن کے نرخ پر مل رہا ہے مگر لوگ ایسے پھل تلاش کر رہے ہیں جو مہنگے ہوں اور آسانی سے دستیاب بھی نہ ہوں!ہمارا استدلال تھا کہ قوم کا مزاج ہی عجیب ہوگیا ہے۔ جو چیز مہنگی ملتی ہے اُس کے پیچھے بھاگتی ہے اور جو کچھ آسانی سے اور کم نرخ پر دستیاب ہو اُس کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ دنیا بھر میں عمومی دستور ہے کہ لوگ گرمی کے موسم میں تیل اور مسالوں والی چیزیں کھانے سے گریز کرتے ہیں تاکہ ہاضمہ بھی درست رہے اور دن کے ڈھلنے پر بھوک بھی خوب لگے۔ کئی خطوں میں لوگ ایک وقت محض اُبالا ہوا کھانا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ بجٹ قابو میں رہے۔ اس پر مرزا کا بِھنّایا ہوا جواب آیا ''مویشیوں کی طرح کچی سبزیاں کھانا تمہیں مبارک! ہم تو چیز کو پکاکر کھانے والے حیوان ہیں‘‘۔ ہم نے کہنا چاہا کہ ساری توجہ کھانے پینے پر مرکوز رہنے ہی سے تو آج ہم بند گلی میں پھنس گئے ہیں مگر خوفِ فسادِ خلق سے خاموش ہی رہے۔ قوم کا یہ حال ہے کہ کوئی چیز بہت مہنگی ہو تو روتی ہے اور وہی چیز بہت سستی ہو جائے تو سوچ میں ڈون جاتی ہے، سہم جاتی ہے۔ گویا ع 
اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں