ہر انسان منفرد ہے۔ کس بنیاد پر؟ مزاج اور فکری ساخت کے اعتبار سے! یہ سوچ ہی تو ہوتی ہے جو انسان کو شناخت فراہم کرتی ہے، اوروں سے الگ تھلگ دِکھانے یا نمایاں کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بھری دنیا میں کوئی بھی دو آدمی مکمل طور پر ایک جیسے نہیں ہوتے اور یہ عدم مساوات صرف سوچ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ کہتے ہیں دنیا اُمّید پر قائم ہے۔ حق یہ ہے کہ دنیا اُمّید سے کہیں بڑھ کر سوچ پر قائم ہے۔ جسے سوچنا آتا ہے وہی ڈھنگ سے بقا ممکن بنانے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ ہزاروں سال کے عمل میں انسان نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا ہے۔ پانے والوں میں وہ نمایاں ہیں جو سوچنا جانتے بھی ہیں اور چاہتے بھی ہیں۔ ہر اُس معاشرے نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی ہے، مختلف شعبوں میں پیش رفت یقینی بنائی ہے جس نے سوچنے کے عمل کو اہمیت دی ہے، سوچنے والوں کو اہم گردانا ہے اور اُن کی قدر دانی کی ہے۔ کسی بھی انسان کا حقیقی اثاثہ اوّل و آخر اُس کے خیالات ہیں۔ سوچنے کی صلاحیت انسان میں خاصی جاں فشانی کے بعد پنپتی ہے۔ عمومی سطح پر ہم جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں اُس کی بنیاد پر ذہن کے پردے پر جو عمومی سے تاثرات ابھرتے ہیں اور جو ردِعمل سا پیدا ہوتا ہے اُسے کسی بھی سطح پر ٹھوس اور مستحکم خیال قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب انسان کسی بھی صورتِ حال کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد کوئی پختہ رائے قائم کرتا ہے تب معاملات خیالات کی منزل تک پہنچتے ہیں۔
کیا انسان کو کسی بھی معاملے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ یہ سوال کاروباری اور پیشہ ورانہ دنیا میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں اگر انسان کوئی خطا کر بیٹھے تو نتائج خاصے دور رس ثابت ہوتے ہیں۔ ''دی اپالوجی امپلس‘‘ کے مصنفین کیری کُوپر اور سین اومیارا نے لکھا ہے کہ اگر آپ اِس خوف سے معذرت چاہیں کہ کسی کو آپ کی رائے پسند نہیں آرہی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے وجود ہی کے لیے معذرت خواہ ہیں! زندگی کا حق ادا کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ اُسے پوری طرح اپنائیں، خلوصِ دل کے ساتھ اُس کے ہو رہیں۔ یہ دنیا صرف اُس کی ہے جو اِسے اپناتا ہے۔ زندگی کا حق ادا کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنے ماحول کو اُس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کریں اور اپنے وجود میں جذب کریں۔
ہر انسان کو کسی نہ کسی مرحلے پر مخالفت کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کبھی خیالات کی بنیاد پر اور کبھی اعمال کے باعث مزاحمت درپیش ہوتی ہے۔ مخالفت اور مزاحمت بظاہر منفی معاملات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو زیادہ جاں فشانی کے ساتھ کام کرنے پر مائل کرنے میں یہی دو معاملات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ غور کرنے والوں ہی کو اندازہ ہو پاتا ہے کہ ناموافق حالات انسان کو کچھ ایسا کرنے کی تحریک دیتے ہیں جن کی مدد سے شخصیت کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے، سوچ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اعمال کی سمت درست کرنا ممکن ہو پاتا ہے۔ اس نکتے پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی معاملے میں زیادہ واضح سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع اُسی وقت ملتا ہے جب ہم مخالف کا سامنا ڈھنگ سے کرنے کے لیے کچھ ہٹ کر، نیا سوچتے ہیں اور اُسی کے مطابق اپنے اعمال کی تہذیب و تطہیر پر متوجہ ہوتے ہیں۔ موافق حالات بھی انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں مگر اُن سے کہیں زیادہ وہ معاملات سکھاتے ہیں جو بہت حد تک ناموافق ہوں، کوئی نہ کوئی چیلنج کھڑا کرتے ہوں۔ جس طور پتنگ بادِ مخالف کی مدد سے زیادہ اونچی اڑتی ہے بالکل اُسی طرح ناموافق معاملات و حالات انسان کو زیادہ تندہی سے کچھ نیا کرنے کی تحریک عطا کرتے ہیں۔ زندگی ہمیں مختلف مراحل میں پریشان کن حالات سے دوچار کرتی ہے۔ ایسے میں ہمیں حواس اور اعصاب کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ ایسا کرنا ہوتا ہے جو ہماری شخصیت کے مستحکم ہونے کا پتا دے۔ فکر و عمل میں توازن اور استحکام ہی سے ہم دنیا کو بتا پاتے ہیں کہ ہم آسانی سے ہمت ہارنے والے نہیں۔ یہ سب کچھ صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب ہم کسی بھی مرحلے میں غیر ضروری معذرت خواہانہ رویے کے حامل نہ ہوں۔
کیری کوپر اور سین اومیارا کا ایک بنیادی استدلال یہ ہے کہ جو لوگ بات بات پر معذرت خواہ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں وہ دراصل اپنے ہی وجود کو بے تعلق سا بنا رہے ہوتے ہیں۔ عزتِ نفس کا تقاضا ہے کہ کوئی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو صرف ناگزیر صورت میں معذرت چاہی جائے۔ بات بات پر دوسروں سے معذرت چاہنا انسان کو کمزور بناتا چلا جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے ایک مثالی رویہ یہ بھی ہے کہ جیسے ہی کوئی بڑی غلطی سرزد ہو، اپنے فکر و عمل کا جائزہ لے اور اگر دل کو یقین ہوجائے کہ غلطی اپنی ہی کوتاہی کا نتیجہ ہے تو متعلقہ فرد، افراد یا ادارے سے معذرت چاہی جائے۔ ایسا کرنے میں کچھ ہرج نہیں، بلکہ فائدہ ہی پہنچتا ہے۔ خیر! اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ معمولی باتوں پر بھی معافی مانگنے کے لیے تیار رہا جائے۔ کاروباری دنیا اور پیشہ ورانہ معاملات میں بھی معافی کا خواستگار ہونا کوئی ایسا ناپسندیدہ عمل نہیں کہ انسان اُس سے یکسر گریز کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی بھر کسی نہ کسی حوالے سے معذرت خواہ ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی ناگزیر حالت میں ایسی ہی طرزِ فکر و عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے معاشی اور معاشرتی سطح پر اپنے آپ کو دوسروں کی نظر میں کمتر ثابت کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ بات بات پر معذرت چاہی جائے، معافی کا خواستگار ہوا جائے۔
مصنفین کاکہنا ہے کہ ماحول کا بغور جائزہ لینے سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہی لوگ زیادہ کامیاب ہو پاتے ہیں جو کسی بھی معاملے میں ٹھوس موقف اپنائیں اور پھر اُس پر ڈٹے رہیں۔ معاملات معاشی ہوں یا معاشرتی ‘یا پھر خالص گھریلو، بہتر پوزیشن میں وہی لوگ رہتے ہیں جو اپنی بات پر تادیر قائم رہیں اور غیر ضروری طور پر معذرت چاہنے سے گریز کریں۔ کسی بھی ورک پلیس (دفتر، فیکٹری، دکان وغیرہ) میں موجود افراد کا ذرا توجہ سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن میں بہتر وہی ہیں جو اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ کسی بڑی یا نمایاں غلطی کی صورت میں معذرت چاہنے والوں کو پسند کیا جاتا ہے؛ تاہم اُنہیں کم ہی لوگ پسند کرتے ہیں جو بات بات پر جھک جانے کے عادی ہوں۔ یہ رویہ اس امر کا غماز ہے کہ اُنہوں نے مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہونے کا ہنر سیکھا ہی نہیں۔ بات بات پر دوسروں سے معذرت چاہنے والے دوسروں کی نظر میں اپنی وقعت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ غلطی پر ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طور اپنی بات پر کچھ دیر ڈٹے رہیں وہ دوسروں کی نظر میں بہتر تاثر کے حامل ہو پاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان معذرت چاہنے کے وصف کو ترک کر بیٹھے۔ ہر چیز اپنے مقام پر اچھی لگتی ہے۔ اگر کوئی صورتِ حال آپ کی غلطی کی پیدا کردہ ہو تو معاملات اُسی وقت درست ہو پائیں گے جب آپ غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت ہی نہ چاہیں بلکہ کچھ ایسا بھی کریں جو ازالے کی راہ ہموار کرے۔ آپ کی غلطی سے کسی کا زیادہ نقصان ہوا ہو تو غلطی کا اعتراف اور معافی معاملات کو بہت حد تک درست کردیتی ہے۔ ایسے میں ہرجانہ اگر لازم بھی ٹھہرے تو اُس کا گراف ضرور نیچے آ جاتا ہے۔ متوازن رویہ اپنانا ہم سب کے لیے لازم ہے مگر یہ آسان مرحلہ نہیں۔ وہی لوگ متوازن رہ پاتے ہیں جنہیں ایسا کرنے کی تربیت دی گئی ہو۔ گھر اور خاندان کے ماحول کا اس حوالے سے بنیادی کردار ہے۔ معذرت چاہنا ایسا وصف ہے جو کسی بڑی بلا کو ٹالنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ڈھنگ سے معذرت چاہنا بھی خراب معاملات کو تیزی سے درستی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ ہاں! غیر ضروری نرم رویہ اختیار کرنے اور بات بات پر معذرت چاہنے سے شخصیت کی تہذیب و تطہیر کا عمل متاثر ہوتا ہے۔