"MIK" (space) message & send to 7575

انکار سے گریز لازم ہے نہ بہتر

اسحاق صاحب نے ہم سے ملاقات کی اور بتایا کہ وہ کئی سال سے ہمارے کالم پڑھ رہے ہیں۔ بات خوشی کی تھی کہ کوئی آپ کی مطبوعہ کاوش پڑھے اور پسندیدگی کا اظہار بھی کرے۔ فی زمانہ کسی لکھاری کو پُرخلوص قاری نصیب ہو تو اِسے اللہ کی بڑی نعمت شمار کیجیے۔ سوشل میڈیا پر محض جملے پڑھنے اور سننے کی عادت ایسی پختہ ہوگئی ہے کہ اب لوگ بارہ‘ پندرہ سو الفاظ کا کالم یا کوئی مضمون پڑھنے میں کئی کئی گھنٹے لگا دیتے ہیں! یہ بات ہم بلا خوفِ تردید اس لیے کہہ رہے ہیں کہ بعض احباب سے جب ہم نے کوئی خاص تحریر پڑھنے کی فرمائش کی تو جواب ملا ''ہاں! ابھی پڑھ رہا ہوں، تھوڑی کل پڑھی تھی، باقی آج پڑھوں گا‘‘۔ اخباری کالم کی خواندگی زیادہ سے زیادہ دس منٹ لیتی ہے‘ سوال یہ نہیں کہ کسی کے پاس وقت ہے یا نہیں۔ مسئلہ Attention span کا ہے۔ کسی بھی مقام سے تیزی سے گزر جانے کی عادت پختہ ہوچکی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں تیس چالیس سیکنڈ کے شاٹ بھی ہوا کرتے تھے یعنی کیمرہ کسی چہرے، چیز یا منظر پر ہوتا تھا تو پوری جزئیات پیش کرتا تھا۔ اب ڈھائی تین سیکنڈ کا شاٹ بھی قلب و نظر پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ خیر! بات ہورہی تھی اسحاق صاحب کے خلوص کی، وہ جب ہم سے ملنے آئے تو اپنے ساتھ ایک تھیلا بھی آئے۔ تھیلے میں ہمارے کالموں کی کٹنگز تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارے کالم کاٹ کر محفوظ کرتے ہیں تاکہ جب دل چاہے، پڑھ لیے جائیں۔ ہم یہ دیکھ کر نہال اور اُن کے شکر گزار ہوئے۔ اس معاشرے میں تو لوگ اپنی ذاتی دستاویزات کو بھی اِتنا سنبھال کر نہیں رکھتے‘ ایسے میں اگر کوئی کسی کی مطبوعہ کاوشوں کو سنبھال کر رکھے تو کیا کہنے! اِس حد تک محبت اور احترام کرنے والے تو اللہ کا عطیہ و انعام ہوئے۔ کچھ مدت قبل ایک ای میل ملی تھی جس میں ایک گھرانے نے خلوص و احترام کے ساتھ بتایا تھا کہ وہ کالم کو دن کی پہلی خوراک کے طور پر لیتا ہے۔ 15 سالہ طحہٰ،12 سالہ حجاب اور اِس محبت بھری تکون کے تیسرے، سب سے چھوٹے زاویے 8 سالہ صارم کو ہمارے وہ کالم پڑھنے کی تحریک دی جاتی ہے جن میں شخصی ارتقا سے متعلق دنیا بھر کے اہلِ علم کی عالمانہ و حکیمانہ باتیں درج ہوتی ہیں۔ کوئی اگر باقاعدگی سے اور محبت کے ساتھ پڑھے تو لکھاری کو کتنی خوشی ہوتی ہے اِس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو لکھنے کے بعد پڑھے جانے کا منتظر ہو۔ ہم نے ایک زمانے سے شخصی ارتقا کو اپنے مستقل موضوعات میں شامل کر رکھا ہے کیونکہ ہماری ناقص رائے میں‘ اس معاشرے کو اس حوالے سے بہت پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو خیر ہم خود ابھی سیکھنے کی منزل میں ہیں مگر چاہتے ہیں کہ کوئی ہماری جیسی تیسی کاوشوں کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ ضرور سیکھے۔ صد شکر کہ فیصل آباد میں عامر گجر، رحیم یار خان میں عامر عباسی، سیالکوٹ میں نثار احمد کھوکر، خانیوال میں طارق باجوہ، مریدکے میں طاہرہ اقبال کا گھرانہ اور لاہور میں پروفیسر فرخ محمود ہماری جیسی تیسی محنت کے نتائج پر مبنی کالم پڑھتے ہی نہیں‘ آرا سے بھی نوازتے ہیں۔طحہٰ، حجاب اور صارم ہمارے کالم محفوظ ہی نہیں رکھتے بلکہ کوئی پڑھنے کا شوق ظاہر کرے تو اُسے دیتے بھی ہیں۔ گویا ہمیں بیٹھے بٹھائے اِتنے مخلص ''پروموٹرز‘‘ بھی عطا کردیے گئے! کسی بھی لکھاری کے لیے اِس سے بڑا معاوضہ یا صلہ کوئی نہیں ہوسکتا۔
تینوں بچوں کے حوالے سے ان کی والدہ نے مشورہ مانگا ہے کہ اِنہیں مستقل بنیاد پر فرماں بردار بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ چاہتی ہیں کہ تینوں بچے ہر معاملے میں صرف اثبات کے حامل ہوں، انکار کی طرف نہ جائیں۔ وٹس ایپ پر ان کی تصویر دیکھی تو اُن کی نمایاں معصومیت دیکھ کر دل کو طمانیت سی ہوئی کیونکہ فی زمانہ سوشل میڈیا نے بچوں سے معصومیت اور سادگی چھین کر اُنہیں وقت سے بہت پہلے بڑا کردیا ہے۔ بچے تو خیر سبھی معصوم ہوتے ہیں‘ عمرکا یہ موڑ ہوتا ہی ایسا ہے کہ انسان بعد میں یاد کرکے صرف آہیں بھرتا ہے۔
یقین کیجیے کسی زمانے میں ہم بھی چھوٹے اور معصوم ہوا کرتے تھے۔ یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ہم کالم نگاری کی طرف آئے اور ساری معصومیت اُڑن چھو ہوگئی! ہمارے اہلِ خانہ اب یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ لکھنے والے تو شروع ہی سے ایسے ہوتے ہیں! خیر! حسد تو اپنے ہی گھر کی حدود میں بھی پایا جاسکتا ہے، یہ بحث پھر کبھی سہی۔ بات ہو رہی تھی ہر بات پر ہاں میں گردن ہلانے کی عادت کو پروان چڑھانے کی! ہم سے کہا گیا ہے کہ بچوں میں ہر بات پر ہاں کہنے کی عادت پختہ کرنے کے حوالے سے مفید مشوروں سے نوازیں۔ ہم تو یہ فرمائش پڑھ کر عجیب الجھن سے دوچار ہیں۔ مشورے بھی مانگے گئے ہیں تو اُس سے جو کچھ خاص فرماں بردار نہیں رہا! ہمارا معاملہ تو شروع سے یہ رہا ہے کہ دنیا جس چیز کی طرف جھکتی ہے ہم اُس سے گریزاں رہتے ہیں۔ غالبؔ نے کہا ہے ع
ضد کی ہے اور بات مگر خُو بُری نہیں
سو ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہم اگر زمانے کی عمومی روش سے ہٹ کر چلتے ہیں تو معاملہ ضد کا نہیں، طبیعت کی میلان اور پسند کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں زمانے کی دکان کا ہر آئٹم ناپسند ہے۔ ایسا ہو تو کوئی جیے کیسے؟ بات کچھ یوں ہے کہ بچپن ہی سے میلان یہ رہا ہے کہ جو کچھ لوگ کریں وہ لازمی طور پر نہ کیا جائے۔ تعلیم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ اب یہی دیکھیے کہ جو بچے باقاعدگی سے سکول آتے تھے اور اساتذہ سے اِس باقاعدگی کی داد پاتے تھے اُن سے ہمیں چڑ سی ہو جاتی تھی اور پھر ہم الگ راستہ بنانے کے لیے اکثر سکول سے غائب رہا کرتے تھے! احباب جب واقعات کی کڑیاں ملانے پر آتے ہیں تو پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے بہت سے احباب کا خیال ہے کہ سکول سے غائب رہنے اور باقاعدگی سے نہ پڑھنے ہی کی ''برکت‘‘ ہے کہ آج ہم کالم نگار بنے بیٹھے ہیں! بعض حاسد قسم کے احباب کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مزاج کی نوعیت دیکھتے ہوئے ہم جیسوں سے کوئی مشورہ طلب کرنا دل و دماغ کو موت کی دعوت دینے کے مترادف ہے!
زندگی توازن سے عبارت ہو تو زندگی کہلائے جانے کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ اطاعت اور فرماں برداری زندگی بھر کام آنے والے اوصاف ہیں مگر یہ بات کسی طور نہ بھولی جائے کہ اقرار کے پہلو بہ پہلو انکار کی بھی وقعت ہے۔ ہر معاملے میں سرِ تسلیم خم کرنا کبھی کبھی نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کو اطاعت و فرماں برداری کے ساتھ ساتھ انکار بھی سکھانا لازم ہے۔ جہاں انکار لازم ہو وہاں اقرار بیک فائر کر جاتا ہے۔ ہر اچھے کام کے لیے اقرار کے ساتھ ساتھ بُرے یا ناپسندیدہ کام کے لیے انکار کی عادت شخصیت کو ڈھنگ سے پروان چڑھاتی ہے۔
بچوں کے لیے صائب مشورہ اِس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ خوب پڑھیں تاکہ اچھے اور بُرے میں تمیز کا شعور پیدا کرپائیں۔ یہ شعور ہی سکھاتا ہے کہ اقرار کی راہ پر کہاں تک جانا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ تینوں بچوں میں اطاعت و فرماں برداری کا وصف پروان تو چڑھے مگر انکار کی خُو کچل کر نہ رہ جائے۔ وقت کے معاملے میں انکار کی اہمیت زیادہ ہے۔ ہر اُس چیز کے لیے آپ کی طرف سے انکار ہونا چاہیے جو وقت کے ضیاع کا باعث بنتی ہو۔ ہر بات میں ہاں کہنے کا وصف کبھی کبھی ہمیں غیر متعلق اُمور کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں