نفسی پیچیدگیوں کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جو لوگ اس شعبے میں تعلم و تحقیق کے بعد سند حاصل کرکے کام شروع کرتے ہیں وہ بھی بہت سے معاملات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ذہنی پیچیدگیاں دور کرنے کی راہ میں ایسے بہت سے مقام آتے ہیں جہاں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ دل بہت کچھ چاہتا اور مانگتا ہے اور جو کچھ مانگتا ہے وہ نہ ملے تو الجھن سی رہتی ہے۔ یہ تو ہوئی بالکل سامنے کی بات! لطیفہ یہ ہے کہ جو کچھ دل نے مانگا ہو وہ اگر مل جائے تو بھی الجھن ختم نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی بہت بڑھ جاتی ہے! جو کچھ ہمیں درکار ہو وہ دل کی تمنّا ہوتا ہے۔ نہ ملے تو اس تمنا کو حسرت میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ مگر یہ کیا؟ دل جو کچھ مانگتا ہو وہ مل جائے تو دل کی حالت عجیب ہو جاتی ہے۔ دل جو کچھ طلب کر رہا ہوتا ہے اُسی کے نہ ملنے کی خواہش بھی اپنے کسی گوشے میں پروان چڑھا رہا ہوتا ہے۔ کسی نے اِس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے ع
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی
ہم فطری علوم و فنون کے عہدِ زرّیں میں جی رہے ہیں۔ کیا ہے جو آج آسانی سے میسر نہیں؟ ہر معاملے میں آسانی کو انسان ہزاروں سال سے ترس رہا تھا۔ مگر اب اِسی آسانی نے ذہن کو الجھا دیا ہے، دل کو اُداسی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ جو کچھ ہماری خواہشات کا حصہ ہو وہ تجسّس کی سطح ابھارتا رہتا ہے۔ وہ سب کچھ مل جائے تو ہم میں تجسّس کا مادّہ کمزور پڑتا جاتا ہے۔ اِسی حوالے سے جون ایلیا کہتے ہیں ؎
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے!
کسی چیز کے حصول کی خواہش کو پروان چڑھاتے رہنے کی کیفیت کبھی کبھی فرحت و تسکین کا ایسا سامان کرتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ انسان سوچتا ہی رہتا ہے کہ جو کچھ دل نے چاہا ہے وہ ملے گا تو کیسا ہوگا۔ انسان بہت سے مواقع پر سوچتا ہے کہ جو کچھ دل نے چاہا تھا وہ مزید کچھ دن نہ ملتا تو اچھا تھا کیونکہ ہاتھ آجانے پر وہ چیز وقعت کھو بیٹھتی ہے۔ نداؔ فاضلی نے خوب کہا ہے ؎
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹّی ہے، کھو جائے تو سونا ہے
آج ہم سب اِسی کیفیت کے ساتھ تو جی رہے ہیں۔ جو کچھ کل تک محض خواب تھا وہ آج زندگی کا حصہ ہے۔ بہت کچھ تھا جو ہمارے دل نے خواہشات کے آنگن میں سجا رکھا تھا۔ تب اس آنگن میں میلے کا سماں تھا۔ ہم بہت کچھ پانا چاہتے تھے مگر یہ نہ سوچا کہ جو کچھ بھی پانا چاہتے ہیں وہ اگر مل گیا تو کیا ہوگا۔ اب جبکہ خواہشات کے آنگن میں لگے ہوئے میلے کی رونق بڑھانے والی بہت سی چیزیں مل گئی ہیں تو من اُوب سا گیا ہے۔ بقول جاوید اختر ؎
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی؟
ہر دور کے انسان کا ایک بنیادی المیہ یہی رہا ہے کہ جو کچھ چاہتا ہے اُس کے نہ ملنے پر رنجیدہ رہتا ہے اور جب وہی چیز مل جاتی ہے تو کفِ افسوس ملتا ہے کہ خواہش کی وہ کیفیت رخصت ہوگئی۔ آسانیاں تلاش کی جاتی ہیں اور آسانیاں ممکن بنالی جائیں تو مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ یہ تو عجیب ہی مخمصہ ٹھہرا۔ یہ پورا کھیل خواہش، تحمل اور قناعت کا ہے۔ ہم بہت کچھ چاہتے ہیں‘ یہ ہماری مرضی یا منشا کا معاملہ ہوا۔ اِس کے مقابل بہت کچھ ہے جو ہمارا رب چاہتا ہے۔ رب کی مرضی اور منشاء کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ہماری خواہشات لامحدود ہیں اور اُن میں سے بیشتر یکسر بلا جواز ہیں۔ بہت کچھ ہے جو انسان اپنی سکت سے بڑھ کر چاہتا ہے۔ رب نے ہمارے لیے وہی طے کر رکھا ہے جو ہمارے لیے موزوں ہے۔ ہمیں کب کیا ملے گا یہ بھی رب ہی نے طے کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بہت کچھ بہت تیزی سے مل جائے۔ ہمیں اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ کب کیا ملنا چاہیے۔ اور ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہمیں کس چیز کی خواہش کرنی چاہیے اور کس چیز کی نہیں۔ ''دل مانگے اور‘‘ کی کیفیت ہمارے حواس پر مسلّط رہتی ہے۔ تسلّط کی یہ نوعیت ہماری الجھنوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ یہ دنیا آزمائش کی منزل ہے۔ یہاں قدم پر ہمارے اعصاب کی آزمائش ہے۔ اس آزمائش میں وہی کامیاب رہتے ہیں جو خواہشات کی غلامی ترک کرکے اپنے وجود کو اللہ کی رضا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جو کچھ ہمارا نفس مانگتا ہے وہ لازمی طور پر ہمارے مفاد میں نہیں ہوتا۔ کسی بھی انسان میں اِتنی صلاحیت نہیں پائی جاتی کہ اللہ سے صرف وہی چاہے جو اُس کے مفاد میں ہو۔ شیطان مختلف حوالوں سے بدحواس کرکے انسان کو نفسی خواہشات کا غلام بناکر ہی دم لیتا ہے۔ کامیاب وہی رہتے ہیں جو اس مرحلے میں شدید الجھن محسوس کرتے ہوئے اپنے معاملات کو اپنے خالق و مالک کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ معاملہ فطرت ہی کو طے کرنے دیں کہ ہمارے لیے کس معاملے میں کتنی الجھن یا مشکل درست رہے گی یعنی ہماری کس حد تک آزمائش ہونی چاہیے اور کس معاملے میں کتنی آسانی ہم سے ہضم ہوسکے گی۔ ہر مشکل ہمیں کچھ سکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ اللہ کے طے کردہ نظام کے تحت ہے۔ ہماری نفسی و روحانی تربیت اِسی طور ممکن ہو پاتی ہے۔ کبھی کبھی ہم جس مشکل صورتِ حال سے پریشان ہو اٹھتے ہیں وہی ہمارے حق میں اُس وقت کا بہترین معاملہ ہوتا ہے۔ جو دیکھنے اور سمجھنے پر آمادہ ہوں اور رب سے اِس کی توفیق بھی مانگیں اُنہیں بہت کچھ دکھائی بھی دیتا ہے اور سمجھ میں بھی آتا ہے۔ کبھی کبھی مشکلات میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ہوتے ہیں۔ اِن مشکلات کو شکست سے دوچارکرنے ہی پر شمشیرِ ادراک کو مزید آب دار بنانا ممکن ہو پاتا ہے۔ اصغرؔ گونڈوی نے کہا ہے ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے
ہم دنیا کو مٹھی میں لیناچاہتے ہیں۔ کیا واقعی؟ دنیا کو پالینا حتمی کامیابی ہے؟ کیا اِس دنیا کے مل جانے پر یہ سمجھ کر مطمئن ہو رہنا چاہیے کہ جو چاہا تھا‘ وہ مل گیا، اب کسی اور چیز کی ضرورت نہیں؟ ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ ہمارے خالق و رب نے ہمارے لیے طے کر رکھا ہے وہ ہماری حدِ ادراک سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ وہ سب کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا۔ ایسے میں اپنے لیے خیر کی راہ منتخب کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی ہوا جائے، راضی رہا جائے۔ دینی، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے دنیا کو ''دارالمحن‘‘ کا درجہ ملا ہوا ہے یعنی یہاں ڈھنگ سے اور اللہ کی مرضی کے مطابق جینے والوں کے لیے قدم قدم پر الجھنیں ہیں، کلفتیں ہیں۔ الجھنوں اور کلفتوں سے نبرد آزما ہونے ہی میں زندگی کا حقیقی لطف پوشیدہ ہے۔ ذرا سوچئے کہ قدم قدم پر صرف آسانیاں ہوں تو کیا ہو؟ ایسا ہو تو جینے میں کچھ خاص لطف نہ رہے، زندگی بے رَس ہوکر رہ جائے۔ پنڈت برج نارائن چکبستؔ کہتے ہیں ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
انسان کے لیے کسی بھی سودے میں حقیقی نفع اُسی وقت ممکن ہے جب وہ معاملات کو محض اپنی منطق کے منہج پر استوار کرنے کے بجائے اللہ کی مرضی پر چھوڑ دے اور اللہ سے خیر و فلاح کا خواستگار ہو۔ جب تک ہم روئے ارض پر ہیں تب تک یعنی سانسوں کا ربط برقرار رہنے تک اِس دنیا کو اپنا سمجھنا ہے، اِس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے رہنا ہے۔ آسانیاں بھی تلاش کرنی ہیں مگر اِس حد تک نہیں کہ زندگی میں صرف دشواریاں رہ جائیں۔ ہماری نظر اُخروی زندگی پر ہونی چاہیے۔ حقیقی کامیابی یہی ہے کہ وہ دنیا ہمارے ہاتھ آئے۔ یہ عارضی قیام گاہ اگر ہاتھ نہ بھی آسکے تو کچھ رنج کا محل نہیں۔ اِسے جادو کے کھلونے سے زیادہ کوئی درجہ دیا بھی نہیں جاسکتا۔