دنیا بھر میں جمہوریت خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ نظام ہائے حکومت پر نظر رکھنے والے عالمی اداروں کی رپورٹس خاصی مایوس کن ہیں۔ دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے وضع کردہ ڈیموکریسی انڈیکس کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری حکومتیں غیر معمولی کمزوریوں سے نبرد آزما ہیں۔ آمرانہ رویوں کو فروغ مل رہا ہے۔ منتخب حکومتیں کمزوری کے باعث بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پارہیں۔ ویسے تو خیر دنیا بھر میں منتخب حکومتوں بالخصوص پارلیمانی نظم و نسق کو خطرات لاحق ہی تھے، 2020 ء میں کورونا وائرس کی وبا نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ وبا کو کنٹرول کرنے کی آڑ میں ایسے اقدامات کیے گئے جن کا بنیادی مقصد نقل و حرکت کو محدود کرنا اور لوگوں کے رویوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ لاک ڈاؤن کے ذریعے لوگوں کو گھروں تک محدود رکھا گیا۔ کام کے مقامات پر بھی ایسے اقدامات کیے گئے جن کا مقصد لوگوں کا آپس کا میل جول کم کرنا اور کسی بھی معاملے میں اجتماعی نوعیت کے احتجاج کی راہ روکنا تھا۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ ہی چیک اینڈ بیلنس کا اہتمام کرتی ہے مگر کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر یہ چیک اینڈ بیلنس بھی ختم کردیا گیا اور فیصلے یکطرفہ طور پر مسلط کیے گئے۔ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ اس کے نتیجے میں امریکا جیسا ملک بھی جمہوری اقدار کی توقیر کے حوالے سے قابلِ رشک حالت میں نہیں رہا۔ ڈیموکریسی انڈیکس میں امریکا اُن ریاستوں کی صف میں کھڑا ہے جہاں جمہوریت خاصی ناقص اور حکومتی کارکردگی افسوس ناک حد تک کمتر ہے۔ دوسری طرف امریکا کا پڑوسی کینیڈا قابلِ رشک حالت میں ہے اور وہاں جمہوری اقدار کو شاندار اور قابلِ تقلید انداز سے پروان چڑھایا جارہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کینیڈین معاشرے میں جرائم کا گراف بھی نیچے ہے اور لوگ مجموعی طور پر خاصے پُرسکون رہتے ہوئے خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔
سوچا جارہا تھا کہ بیسویں صدی میں انسان کو جو کچھ دیکھنا پڑا تھا وہ اکیسویں صدی میں دیکھنا اور جھیلنا نہیں پڑے گا۔ اور یہ کہ فطری علوم و فنون کے حوالے سے غیر معمولی پیش رفت عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ حکومتی نظام کے معاملے میں بھی انسان کے بنیادی مسائل حل کردے گی۔ میڈیا کی رفتار اور ترقی دیکھ کر لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ اب رائے عامہ کی حکمرانی کا دور آئے گا، آمریت کی راہ مسدود ہوگی اور پارلیمانی جمہوریت کی روایت مضبوط تر اور تابندہ تر ہوکر سامنے آئے گی مگر وائے ناکامی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
جب بھی جمہوریت کو لاحق خطرات کی بات ہوتی ہے تب یہ نکتہ بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی کے گُن گاتے نہ تھکنے والی مغربی ریاستیں ہی دنیا بھر میں اور بالخصوص پس ماندہ خطوں میں جمہوری اقدار کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہیں۔ بات مشرقِ وسطیٰ کی ہو یا وسطِ ایشیا، جنوبی ایشیا کی ہو یا پھر جنوب مشرقی ایشیا کی، شمالی افریقا کی ہو لاطینی (جنوبی) امریکا کی ... غیر جانبدار تجزیے کی صورت میں یہ شرم ناک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ امریکا اور یورپ مل کر اِن خطوں میں جمہوریت کو پروان چڑھنے سے روک رہے ہیں۔ ان خطوں کی بیشتر ریاستوں میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے اور محفوظ بنانے کے لیے مغرب کی ترقی یافتہ اور طاقتور ریاستوں نے اپنے حاشیہ برداروں کو اقتدار سے نواز کر عوام پر یوں مسلّط کیا ہے کہ اب گلو خلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن ٹرانسپیرنسی انڈیکس کے ذریعے 180 ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ ان میں سے دو تہائی میں بدعنوانی اِتنی زیادہ ہے کہ کسی بہتری کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہے۔ یہ سب کچھ مغربی طاقتوں ہی کا کیا دھرا ہے۔ 150 سے زائد ممالک میں مغرب کے پروردہ حکمران عوام پر مسلّط ہیں۔ جمہوریت کے نام پر عوام کو صرف دھوکا دیا جاتا رہا ہے۔ مغرب کے حاشیہ بردار چونکہ اقتدار پر قابض ہیں اس لیے غیر معمولی بدعنوانی کے ذریعے وہ قومی وسائل کو ملک و قوم کی بھلائی کے لیے استعمال ہونے نہیں دیتے اور یوں بیرونی امداد ملنے پر بھی ملک و قوم کا کچھ بھلا نہیں ہو پاتا اور مسائل جوںکے توں رہتے ہیں۔ انتہائی تلخ اور درد ناک حقیقت یہ ہے کہ ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا کے بیشتر ممالک میں عوام کو پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت بھی آسانی سے میسر نہیں۔ بیرونی قرضوں کے باعث ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں ہو پاتا۔ بدعنوانی نے یوں پَر پھیلائے ہیں کہ کوئی بھی اِس کی دسترس سے دور نہیں۔ تمام معاملات خرابی سے شروع ہوکر خرابی پر ختم ہو رہے ہیں۔ قرضے دینے والے عالمی ادارے قرضوں کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کی راہ مسدود کرتے ہیں۔ وہ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کی راہ میں بھی دیوار بن جاتے ہیں۔ قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں جن پر عمل کی صورت میں پوری کی پوری رقم ترقی یافتہ ممالک کے اکاؤنٹس میں واپس آجاتی ہے۔ بدعنوانی روکنے کے حوالے سے کیے جانے والے نیم دِلانہ اقدامات پس ماندہ ممالک تو کیا، ترقی پذیر ممالک میں بھی معاملات کو درست ہونے نہیں دیتے۔ یہ سب کچھ مجموعی طور پر ترقی یافتہ مغرب کا کیا دھرا ہے۔ دنیا بھر میں لبرل ڈیموکریسی کے فروغ کے نام پر مغرب صرف دھوکا دیتا آیا ہے۔ وہ جمہوریت کے فروغ کا ابتدائی مرحلہ بھی ڈھنگ سے مکمل ہونے نہیں دیتا اور ڈنڈی مار دیتا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اب یہاں سے کہاں جائیں ہم؟ بہتر نظامِ حکومت عوام کا حق ہے مگر پس ماندہ دنیا میں اس حق کا حصول بھی دور کی منزل بنادیا گیا ہے۔ ایسے میں عمومی سطح پر قنوطیت کا بڑھنا افسوس ناک سہی، حیرت انگیز نہیں۔ اظہارِ رائے پر قدغن لگاکر لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے بولنے سے روکا جارہا ہے۔ منظّم سازش کے ذریعے بدعنوانی کو یوں پروان چڑھایا جارہا ہے کہ عمومی سطح پر بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ بدعنوانی پر قابو پانا ناکام جمہوری معاشروں کا انتہائی بنیادی مسئلہ ہے۔ گورننس کا معیار بلند کرنے کی کوششیں اوّل تو کی نہیں جاتیں اور اگر کی بھی جاتی ہیں تو خاصی نیم دِلانہ ہوتی ہیں۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی نادیدہ رکاوٹ معاملات کو روک کر بگاڑ دیتی ہے۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جمہوریت کا عَلم خاطر خواہ حد تک بلند نہیں کیا جاسکا۔ بھارت اگرچہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے مگر وہاں بھی کم و بیش ایک ارب افراد شدید افلاس سے دوچار ہیں۔ ملک کے وسائل پر ایک ایسا طبقہ قابض و متصرف ہے جسے بہبودِ عامہ سے کچھ غرض نہیں۔ مختلف شعبوں میں غیر معمولی ترقی کے باوجود بھارتی عوام کو اُس کے ثمرات اب تک میسر نہیں۔ بنگلہ دیش اور نیپال کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ اور پاکستان...؟ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں پارلیمانی نظام کس حال میں ہے؟
بدعنوانی کی روک تھام وہ مرحلہ ہے جس سے کامیاب گزرنے کی صورت ہی میں ہم جمہوریت کو بچانے اور پروان چڑھانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ جمہوریت محض نظامِ حکومت نہیں بلکہ فکر اور رویّے کا نام ہے۔ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط طرزِ فکر و عمل ہے۔ دوسروں کی رائے کا احترام اور اپنی بات کو حرفِ آخر قرار نہ دینا جمہوریت کا بنیادی تقاضا اور حُسن ہے۔ آج دنیا بھر میں جہاں کہیں جمہوریت کمزور ہے وہاں عوام کو نئے عزم کے ساتھ میدان میں آنا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔ ایک دوسرے کی رائے کے احترام کی روایت کو توانا کرنے کے ساتھ ساتھ منتخب نمائندوں کے احتساب کا نظام بھی بہتر بنانا ہوگا۔ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے پارلیمانی سطح پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی خامیاں بھی دور کرنا ہوں گی۔ جمہوریت کی بقا کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب منتخب نظامِ حکومت کو احترام کی نظر سے دیکھنے کی روایت پروان چڑھائی جائے۔ عام آدمی اس دیوار کی اینٹ ہے۔ ہر اینٹ کو پوری دیوار کے مفاد کا خیال رکھنا ہے۔