اس دنیا میں کوئی بھی معاملہ اپنے آپ میں جزیرہ نہیں یعنی تمام ہی معاملات سمندر کے مانند ہیں، ایک دوسرے سے اِس طور جُڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک معاملے کو بھی الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کیجیے تو دوسرے بہت سے معاملات یا تو بگڑ جاتے ہیں یا پھر ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کوئی انسان بھی جزیرہ نہیں۔ ہم سب بھی ایک دوسرے سے یوں جُڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی معاملے کو باقی لوگوں کے معاملات سے مکمل طور پر الگ تھلگ نہیں رکھ سکتے۔ روابط اور اشتراکِ عمل بنیادی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا نہ کرنے کی صورت میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ بھی سب پر عیاں ہیں۔ کسی بھی انسان کے معاشی اور معاشرتی معاملات میں خرابیاں اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب وہ کسی بھی معاملے کو نمٹانے کے تسلیم شدہ طریقِ کار کو اپنانے سے یکسر گریز کرتا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھری دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ ہمارا ہے، ہمیں مل سکتا ہے۔ اور اگر چھن جائے یا خرچ ہو جائے تو پھر مل سکتا ہے مگر ایک چیز ایسی ہے کہ ایک بار گئی تو پھر ہاتھ نہیں آتی۔ یہ ہے وقت!
دولت ہم پھر کما سکتے ہیں، یہ لاٹری کی شکل میں پھر بڑے پیمانے پر مل سکتی ہے، یا کوئی مہربان ہوکر ہمیں نواز سکتا ہے مگر وقت کے معاملے میں قدرت یکسر بے نیاز ہے۔ وقت کا جو دورانیہ ہمیں زندگی کے نام پر دیا گیا ہے اُس میں سے جو خرچ ہو جائے وہ پھر واپس آتا نہیں یعنی قدرت ہمارے لیے طے کردہ زندگی کے دورانیے کو وسعت نہیں دیتی۔ وقت کے معاملے میں دانش کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اِسے انتہائی احتیاط کے ساتھ اور سلیقے سے بروئے کار لایا جائے تاکہ ضیاع ممکن نہ ہو۔ وقت کا ضیاع انسان کے لیے محض معاشی خسارے کا باعث نہیں بنتا بلکہ وہ نفسی اور روحانی طور پر بھی الجھن کا شکار رہتا ہے۔ گزرے ہوئے وقت کا جو حصہ ضائع ہوا ہے وہ یاد آ آکر ہمیں اندر ہی اندر کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ بیشتر معاملات میں یہ غیر محسوس طور پر ہوتا ہے۔ ہم ضائع کیے گئے وقت کو یاد کرکے اپنی نظروں میں شرمندہ بھی رہتے ہیں اور اِس کا کچھ خاص شعور بھی نہیں رکھتے۔ اگر انسان نفسی امور کے ماہرین کی آرا سے واقف نہ بھی ہو اور اس حوالے سے زیادہ مطالعہ نہ کرتا ہو تب بھی بہت آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ وقت کے معاملے میں لاپروائی برتنے کی صورت میں صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ وقت کا ضیاع انسان کو حواس باختہ کرتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ عمل اِس قدر سست رفتار ہوتا ہے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم میں کوئی خرابی پنپ رہی ہے اور اچھی طرح پنپ کر کوئی بڑی تباہی لاسکتی ہے۔ پھر جب کوئی بڑی خرابی رونما ہوتی ہے تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جو پھٹا ہے وہ بم تو ہمارے اندر ہی چھپا تھا اور ہمیں کچھ اندازہ ہی نہ تھا ہم بارود کا ڈھیر لیے پھر رہے ہیں!
ہر انسان کی زندگی دن کی طرح ہوتی ہے۔ دن کی ابتدا سورج کے طلوع ہونے سے ہوتی ہے۔ سورج بلند ہوتا جاتا ہے اور دن چڑھتا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ سورج سروں پر پہنچنے کے بعد مزید بلند نہیں ہوتا بلکہ نیچے آنا شروع کر دیتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے یعنی دن کی بساط لپٹ جاتی ہے۔ انسان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ دن کی طرح تین چار مراحل سے گزرتا ہے اور پھر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ سارا کھیل وقت کا ہے۔ وقت کو شیر خوارگی، بچپن، لڑکپن، عنفوانِ شباب، شباب، پختہ عمر، ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ہر مرحلہ وقت سے عبارت ہے۔ شیر خوارگی اور بچپن پر تو ہمارا کچھ اجارہ نہیں۔ لڑکپن کسی حد تک ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ عہدِ شباب عملی زندگی کے آغاز کے لیے ہوتا ہے۔ یہ گویا زندگی کو بنانے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ ہم جو سوچیں گے اور کریں گے وہی ہوگا۔ کامیاب ہوں گے تو ہمیں کریڈٹ ملے گا اور ناکامی ہاتھ لگے گی تو ہم پر تنقید ہوگی یا ہم اپنی نظر میں شرمندہ ہوں گے۔ عہدِ شباب کے گزرنے پر ادھیڑ عمر وارد ہوتی ہے یعنی جو کچھ اب تک کیا ہے اُس کا جائزہ لیجیے اور اصلاحِ نفس کی کوشش کیجیے۔ یہ اہم مرحلۂ عمر ہے کیونکہ جو کچھ اب تک کیا ہوتا ہے اُس کا پوری دیانت سے جامع تجزیہ کرنے کے بعد باقی عمر کے لیے کوئی واضح لائحۂ عمل تیار کرنا ہوتا ہے۔ ادھیڑ عمر کے جاتے ہی بڑھاپا شروع ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں اپنے معمولات بہتر بنانے اور کچھ نیا سیکھنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ پختہ ہو جانے والی عادتوں سے جان چھڑانا ہی مشکل ہوتا ہے تو انسان نیا کیا اور کیسے سیکھے؟ ہمارا معاشرتی ڈھانچا کچھ ایسا ہے کہ انسان منصوبہ سازی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل مشکل ہی سے ہو پاتا ہے۔ لوگ ذہن سازی کے بغیر ہی زندگی بسر کرتے ہیں اور یوں اچھا خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ جب کچھ طے ہی نہ کیا گیا ہو، لائحۂ عمل ترتیب ہی نہ دیا گیا ہو تو وقت کا ضیاع فطری امر ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ بیٹا گریجویشن کرلے تب والدین اُس کی عملی زندگی کے آغاز سے متعلق سوچتے ہیں۔ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جس کا تیسرا عشرہ شروع ہوچکا ہے۔ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے لازم ہوچکا ہے کہ اب بچے کو بارہ تیرہ سال کی عمر میں عملی زندگی کے حوالے سے تیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ ایس ایس سی (میٹرک) کے بعد وہ کسی خاص شعبے پر توجہ مرکوز رکھنے کی پوزیشن میں آسکے۔ ساتھ ہی ساتھ اُس کی عملی زندگی کی ابتدا بھی کی جانی چاہیے یعنی اُسے کچھ نہ کچھ سیکھنے پر لگادینا چاہیے۔
اگر کوئی لڑکا بیس بائیس سال کی عمر تک عملی زندگی کا آغاز کرچکا ہو تو کچھ نہ کچھ کمانے بھی لگتا ہے۔ اپنی کمائی انسان کو غیر معمولی اعتماد سے ہم کنار کرتی ہے۔ یہ اعتماد زندگی کا معیار بلند کرتا ہے۔ باشعور والدین وہ ہیں جو اپنی اولاد کو اٹھتی جوانی میں عملی سطح پر کچھ کرنے کی تحریک دیں اور پھر نظر بھی رکھیں کہ اولاد واقعی کچھ کر بھی رہی ہے یا نہیں۔ حقیقی بدحواسی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب خاصا وقت ضائع ہوچکا ہو۔ وقت کے ضیاع کا احساس انسان کو اندر ہی اندر زخم دیتا رہتا ہے۔ کم ہی لوگ ہیں جو وقت ضائع کرنے کے بعد پچھتاوے کی آگ میں جلنے کے بجائے ازالے کا سامان کرتے ہیں یعنی جو وقت ضائع ہوچکا ہوتا ہے اُس کے ہاتھوں ہونے والے خسارے پر قابو پانے کے لیے باقی عمر کو جامع منصوبہ سازی اور توازن کے ساتھ بسر کرتے ہیں تاکہ وقت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جاسکے۔
آج پاکستانی معاشرے میں ہر طرف بدحواسی ہے۔ عمومی رویوں میں عدم توازن نمایاں ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وقت کا ضیاع روکنے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ پوری زندگی کے لیے منصوبہ سازی کا رجحان آج تک پروان نہیں چڑھایا جاسکا۔ عملی زندگی آج بھی پچیس سال کے بعد شروع کروائی جارہی ہے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے پر جتنی توجہ دی جانی چاہیے‘ والدین اُتنی توجہ دے نہیں رہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ بیشتر والدین خود منصوبہ سازی کی اہمیت سے کماحقہٗ واقف نہیں۔ کیریئر کے حوالے سے منصوبہ سازی کے مرحلے سے نہ گزرنے کا نتیجہ شدید بدحواسی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ جو بدحواس ہوتے ہیں وہ کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے۔ بیشتر معاملات میں اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ نیم دِلانہ انداز کی کاوش سے کام چلایا جائے۔ یہ نیم دِلانہ انداز جب پوری زندگی پر محیط ہو تو انسان کچھ نہیں کر پاتا۔ بسا اوقات گزارے کی سطح پر جینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ترجیحات کا تعین بھی بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ انسان کو درست اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کون سا کام کب کیا جائے کہ بہترین نتائج دے۔ یہ مشکل اگر پوری زندگی پر محیط ہو تو سوچیے کیا کیفیت ہوگی۔ شدید بدحواسی کچے ذہن کو صرف بدعنوانی کی راہ سُجھاتی ہے۔ یہ معاملہ قومی سطح پر ہم سے فوری توجہ کا طالب ہے تاکہ اصلاحِ احوال کی صورت نکلے۔