جینا بہت آسان ہے۔ سبھی‘ جیسے تیسے‘ جی لیتے ہیں۔ ہاں‘ اس طور جینا بہت مشکل ہے کہ انسان کا اپنے معاملات پر اختیار بھی ہو اور لوگ اُسے سراہیں‘ یاد بھی رکھیں۔ یہ منزل یونہی ہاتھ نہیں آجایا کرتی۔ کنور مہندر بیدی سَحرؔ نے کہا ہے ؎
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل؟
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آرپار چلے!
ڈھنگ سے جینا‘ کچھ سوچنا‘ کچھ کر دکھانے کا عزم کرنا‘ اُس عزم کو عملی جامہ پہنانا ... یہ تمام معاملات ریاضت مانگتے ہیں۔ کوئی اگر کچھ ہو پاتا ہے تو ایسے ہی نہیں ہو جاتا۔ کئی جاں گُسل مراحل خیرمقدم کیلئے تیار رہتے ہیں۔ دلاور فگارؔ مرحوم نے خوب کہا ہے ؎
جادۂ فن میں کئی سخت مقام آتے ہیں
مِٹ کے رہ جاتا ہے فنکار اَمر ہونے تک
انسان کسی انسان سے محبت کرے یا اپنے وجود سے ... دونوں ہی معاملات محض توجہ اور اخلاص نہیں‘ غیر معمولی مشقّت کے بھی طالب ہوتے ہیں۔ اپنے وجود سے محبت کا مطلب ہے کسی خاص معاملے میں کچھ کر دکھانے کا عزم اور پھر اُس عزم سے مطابقت رکھنے والی محنت شاقّہ کا اہتمام۔ جو لوگ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی ٹھان لیتے ہیں اُنہیں بہت سی آزمائشوں کا سامنا رہتا ہے۔ زندگی قدم قدم پر اُنہیں آزماتی ہے۔ بیٹھے بٹھائے تو کبھی کسی کو کچھ نہیں ملا۔ انسان کو مرتے دم تک اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ دوسروں سے الگ دکھائی دینے اور امتیازی حیثیت کا حامل ہونے کیلئے پورے وجود کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ زندگی تیز دھار والا چاقو ہے اور چاقو سے کھیلنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں!
''پہلی نظر میں محبت‘‘ والی بات آپ نے کئی بار سُنی ہوگی۔ حقیقی زندگی میں ایسا کچھ ہوتا نہیں۔ کوئی کتنے ہی دعوے کرے‘ حقیقی یا عملی زندگی تو قدم قدم پر سنجیدگی اور اِخلاص کا ثبوت مانگتی ہے۔ جو زندگی بسر کرنے اور اپنے وجود کو بروئے کار لاکر کوئی فرق پیدا کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں اُنہیں بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کوئی پل میں کسی کا ہوسکتا ہے؟ فلموں‘ ڈراموں‘ کہانیوں اور ناولوں میں تو ایسا ہوسکتا ہے مگر عملی زندگی ایسی مثالیں کم ہی پیش کرتی ہے۔ ؎
پل میں کیسے کسی کے ہو جائیں؟
یہ تو اک عمر کی ریاضت ہے!
جی ہاں‘ کسی کا ہونے کیلئے ایک عمر کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ یہی حال کچھ بننے اور کر دکھانے کا بھی ہے۔ ہمارے لیے اہم ترین معاملات میں یہ بھی ہے کہ کہ اپنی صلاحیت اور رجحان کو پہچانیں۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے ہی پر ہم کچھ بن پاتے ہیں‘ کچھ کر پاتے ہیں۔ اگر ہمیں یہی اندازہ نہ ہو کہ ہمیں آتا کیا ہے اور ہم کیا کرنے کے موڈ میں ہیں تو کچھ نہیں ہو پاتا یا کچھ خاص نہیں ہو پاتا۔
ہمارے شعرا نے زندگی کو بامقصد انداز سے بسر کرنے اور اہلِ جہاں کو کچھ دے جانے کی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے حوالے سے بہت کچھ کہا ہے۔ بامقصد زندگی کی تحریک دینے والے مصنفین کی بھی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ عام آدمی میں بھی بہت سی صلاحیتیں چھپی ہوتی ہیں مگر وہ اس طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں اُسے بھرپور تحریک دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تحریک اس لیے لازم ہے کہ اپنے طور پر بہت کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے اور پروان چڑھانے والے کم ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اکثریت اُن کی ہے جو بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر اس طرف متوجہ نہیں ہو رہے‘ ذہن نہیں بنارہے۔انسان کسی بھی شعبے میں اپنی صلاحیت کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہ کوئی ایسا مشکل مرحلہ نہیں۔ ہاں‘ خود کو منوانا دردِ سر ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر پاتے ہیں جو سنجیدہ ہوتے ہیں اور کچھ کرنے کا عزم لے کر میدان میں آتے ہیں۔ آج صلاحیت کے اظہار کیلئے بہت سے فورم اور پلیٹ فارم موجود ہیں۔ اگر کسی کو اداکاری کا شوق ہے تو ایک سے ڈیڑھ منٹ کے خاکے بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر سکتا ہے۔ ایسا کرنے میں کسی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہ یہ کوئی کمال کی بات ہے۔ کسی بھی شعبے میں طبع آزمائی اور نام کمانے کی طلب بہت کچھ طلب بھی کرتی ہے۔ بھرپور کامیابی اور حقیقی روحانی تشفّی کیلئے جو کچھ درکار ہوا کرتا ہے اُس میں ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ تحمل بھی نمایاں ہے۔ عجلت پسندی انسان کو کسی بھی شعبے میں نام کمانے کا موقع حاصل نہیں کرنے دیتی۔ ایک طرف تو عمر بھر کی ریاضت کا معاملہ ہے اور دوسری طرف تحمل پسندی کی شرط۔ جو کچھ بھی کرنا ہے پورے تحمل کے ساتھ کرنا ہے۔
حمید کاشمیری ایک بڑے مصنف تھے۔ انہوں نے زندگی بھر کہانیاں لکھیں‘ ناول نگاری کی۔ کئی جرائد میں ان کے لکھے ہوئے سلسلے غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوئے۔ اٹھتی جوانی میں جب انہوں نے لکھنے کا سوچا تب جوش و جذبے کا تو جواب نہ تھا مگر نہ تو وہ اچھی طرح لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی یہ جانتے تھے کہ اچھا لکھنا ہوتا کیا ہے۔ مطالعہ برائے نام تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ باضابطہ لکھاری بننے کیلئے کسی سے مشورہ کرو۔ پھر کسی نے اُس وقت کے مقبول مصنف ابراہیم جلیس سے ملنے اور اُن کے سامنے اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کا مشورہ دیا۔ حمید کاشمیری نے مشورے کے مطابق ابراہیم جلیس مرحوم سے ملاقات کی۔
ابراہیم جلیس نے اُن کا ذہن ٹٹولنے کی کوشش کرتے ہوئے اُن سے بہت کچھ پوچھا۔ حمید کاشمیری میں چھپے ہوئے مصنف کو ابراہیم جلیس نے پہچان لیا مگر وہ جانتے تھے کہ عجلت پسندی سارے کام بگاڑ دیتی ہے۔ انہوں نے حمید کاشمیری سے کہا کہ تین چار سال تک کچھ نہ لکھنا‘ صرف پڑھنا۔ تمام بڑے مصنفین کی کاوشیں اور بالخصوص شاہکار پڑھنے کے بعد ہی وہ ذہن تیار ہوسکے گا جو کسی بڑے مصنف کے سَر میں ہونا چاہیے۔ حمید کاشمیری کو اللہ نے دانش سے نوازا تھا۔ انہوں نے ابراہیم جلیس کے مشورے کے مطابق وہ سب کچھ پڑھ ڈالا جو ایک اردو داں کو پڑھنا چاہیے۔ انہوں نے تمام بڑے ناولوں اور مقبول ترین افسانوں کا مطالعہ کیا کہ اپنا اُسلوب وضع کرنے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تین چار سال تک صرف مطالعہ کرنے اور لکھنے کی تیاری کرنے کے بعد جب حمید کاشمیری نے قلم سنبھالا تو لوگوں نے دل تھام لیے۔ اُن کے قلم میں جان تھی۔ جو کچھ وہ لکھتے تھے وہ لوگوں پر سِحر سا طاری کردیا کرتا تھا۔ انہوں نے ڈائجسٹ اور جرائد کی دنیا میں بڑا نام کمایا۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوسکا کہ انہوں نے تحمل سے کام لیا اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار اُسی وقت کیا جب وہ ایسا کرنے کے قابل ہو پائے۔
ہر فن محنت بھی مانگتا ہے اور تحمل بھی۔ عمر بھر کی ریاضت ہوتی ہے تو کوئی کچھ بن پاتا ہے۔ اگر کچھ کر دکھانا ایسا ہی آسان ہوا کرتا تو کوئی بھی نمایاں نہ ہو پاتا اور دوسروں کو متاثر نہ کر پاتا۔ جب زیادہ ترقی نہیں ہوئی تھی تب بھی کامیاب وہی ہو پاتا تھا جو میدان میں ڈٹا رہتا تھا اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر متوجہ رہتا تھا۔ آج بھی وہی کامیاب ہیں جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے تحمل کا دامن بھی تھامے رہتے ہیں۔ نئی نسل کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور ہمیں بھی اُسے یہ سمجھانا چاہیے کہ آج مختلف پورٹلز اور پلیٹ فارمز کی مدد سے صلاحیتوں کا اظہار تو آسانی سے ممکن ہے مگر حقیقی کامیابی یقینی بنانے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ واقعی عمر بھر کی ریاضت کا معاملہ ہے۔ فقید المثال کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر بروئے کار لانے کیلئے جنون سے کام لیتے ہیں اور ایک عمر اپنے شعبے میں کھپادیتے ہیں۔ اپنا آپ منوانا گویا شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے۔
اکیسویں صدی کے انسان کو عجیب ہی چیلنج کا سامنا ہے۔ وہ اپنی صلاحیت کا اظہار تو کسی بھی طور کرسکتا ہے اور دنیا سے متعارف ہوسکتا ہے مگر فی الواقع کچھ کرنے کیلئے پورے وجود کو کھپانا پڑتا ہے۔ آج کوئی بھی لکھ سکتا ہے اور سوشل میڈیا‘ بلاگز یا پھر ذاتی ویب سائٹ کے ذریعے اپنا لکھا ہوا دنیا کے سامنے رکھ بھی سکتا ہے مگر اچھا لکھنا اور اپنی انفرادیت کو منوانا جسم و جان کو نچوڑ لینے والا مرحلہ ہے۔