بہت سی باتیں اور عادتیں ہمارے مزاج کا حصہ ہیں۔ ہم تحت الشعوری یا لاشعوری سطح پر بہت کچھ اپنائے ہوئے ہیں۔ کچھ عادتیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں فیض پہنچاتی ہیں البتہ نقصان پہنچانے والی عادتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ''قلم برداشتہ‘‘ سوچ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ قلم برداشتہ کی اصطلاح لکھنے کے فن سے تعلق رکھتی ہے۔ جو تحریر مکمل ہونے پر جوں کی توں یعنی کسی بھی تبدیلی یا اصلاح کے بغیر شائع کردی جائے وہ قلم برداشتہ کہلاتی ہے۔ بہت سے لکھنے والے زندگی بھر اِس گمان کے اسیر رہتے ہیں کہ جو کچھ وہ ایک بار لکھ دیں بس وہی حرفِ آخر ہے یعنی اُس میں کوئی تبدیلی کی نہیں جاسکتی۔ بہت سے مصنفین یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی کسی بھی تحریر میں ایسا کوئی نقص پایا ہی نہیں جاتا کہ کوئی تبدیلی کی جائے۔ ایسے مصنفین اس گمان میں بھی مبتلا رہتے ہیں کہ وہ جب بھی کچھ لکھتے ہیں تو قلم توڑ دیتے ہیں! ایسے کسی بھی شخص کو سمجھانا اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے مترادف ہوتا ہے!
عام آدمی بھی بہت حد تک قلم برداشتہ سوچ رکھتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں اُسے سب سے پہلے جو کچھ سُوجھتا ہے وہی حرفِ آخر ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں عمومی سوچ ایسی راسخ ہوچکی ہے گویا پتھر پہ لکیر ہو۔ قلم برداشتہ سوچ بنیادی طور پر محنت اور اصلاح سے گریز کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لوگ تساہل کا شکار ہوکر اپنی کسی بھی سوچ یا کوشش پر نظرِ ثانی سے بھاگتے ہیں۔ ماحول میں پائی جانے والی بہت سی پیچیدگیاں قدرے لاشعوری انداز سے فرد کی فکری ساخت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ فرد کو ماحول سے بہت کچھ لینا ہوتا ہے مگر لازم نہیں کہ جو کچھ لیا جائے اُسے جوں کا توں اپنالیا جائے۔ سوچ اپنی ہو یا کسی اور کی، اُس میں اصلاح کی گنجائش رہتی ہے۔ کوئی بھی خیال ابتدائی مرحلے میں حتمی نوعیت کا یعنی جامع نہیں ہوتا۔ اکیسویں صدی میں کامیابی کی شاہ کلید یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات پر نظرِ ثانی کرتا رہے۔ یہی حقیقی معنوں میں بزنس سپر پاور ہے۔ ہمیں خالص ذاتی یا انفرادی سطح پر نئے خیالات کو اپنانا ہوتا ہے۔ اِس سطح پر خیالات کو نظرِ ثانی کے مراحل سے گزارتے ہوئے پختہ تر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آتا ہے اشتراکِ فکر و عمل کا مرحلہ۔ ہمیں دوسروں کے خیالات جاننے پر بھی متوجہ رہنا چاہیے۔ کوئی ہم سے اختلافِ رائے رکھتا ہو تو جھنجھلاکر اُس کی بات کو یکسر مسترد کردینے کے بجائے تحمل سے بات سُننی چاہیے اور جہاں تک اتفاقِ رائے ممکن ہو، کرنا چاہیے۔ بالکل اِسی طور ہم خیال افراد کا گروہ یا حلقہ بھی ترتیب دیا جاسکتا ہے یعنی ایسے لوگ جو کسی ایک نکتے تک محدود رہنے کے بجائے سوچ کے معاملے میں نظرِ ثانی کے مرحلے سے گزرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہوں‘ ایسے لوگ ہی کچھ نیا سیکھ پاتے ‘ کچھ نیا کر پاتے ہیں۔
ایڈم گرانٹ نے اپنی کتاب ''تھنک اگین‘‘ میں اِس موضوع پر بحث کی ہے کہ ہمیں زندگی بھر سوچتے ہی رہنا ہے کیونکہ ایسا کرنے ہی سے ہم اچھا سوچ پاتے ہیں اور جن معاملات پر خاطر خواہ توجہ دینی ہو وہ تشنۂ توجہ نہیں رہتے۔ ایڈم گرانٹ آرگنائزیشنل سائیکالوجسٹ ہیں۔ وہ ایک سکول میں نظم و نسق اور نفسیات کے پروفیسر ہیں اور نیویارک ٹائمز کے لیے لکھتے ہیں۔ ایڈم گرانٹ کا شمار کارپوریٹ ملازمین میں تحرک پیدا کرنے والے اہم مقررین میں ہوتا ہے۔ ایڈم گرانٹ نے ''تِھنک اگین‘‘ میں لکھا ہے کہ وہی مصنف زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو اپنی تحریر کا حُسن بڑھانے کے لیے اُس پر کئی بار نظرِ ثانی کرتے ہیں، اغلاط دور کرتے ہیں، اصلاح کے ذریعے مسودے کی وقعت بڑھاتے ہیں۔ یہی اصول دوسرے بہت سے معاملات پر بھی اطلاق پذیر ہوتا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائننگ میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو کسی ایک خیال تک اٹک کر نہیں رہ جاتے بلکہ ذہن پر زور دے کر نئے خیالات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کسی بھی خیال کو حتمی تصور کرلینا تساہل کا یا پھر اعتماد کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایڈم گرانٹ نے اپنی کتاب میں اس بات پر زور دیا ہے کہ کسی بھی معاملے میں بہتر نتائج کا حصول یقینی بنانے کے لیے ہمیں چند عادتیں پروان چڑھانا پڑتی ہیں مثلاً یہ کہ کسی بھی معاملے پر خوب غور کرنے، نظرِ ثانی کی عادت ڈالیے تاکہ نئے خیالات کی راہ ہموار ہو۔ کسی ایک خیال کو حرفِ آخر سمجھ لینے سے فکر و نظر کی راہ مسدود ہو جاتی ہے۔ اعتماد کی سطح بلند کرنے پر متوجہ رہنا بھی لازم ہے۔ جو لوگ اپنے شعبے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں اُن میں غیر معمولی درجے کا اعتماد ہونا چاہیے۔ اعتماد ہی نئی سوچ کی راہ سُجھاتا ہے۔
فکر و عمل کا معیار بلند کرنے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ آپ اپنے خیالات سے متعلق دوسروں کو سوال کرنے کی دعوت دیں۔ کوئی آپ کی رائے یا سوچ پر اعتراض کرے گا تو آپ کو متبادل خیال سجھائی دے گا۔ اگر آپ اپنے خیالات میں اعلیٰ معیار، تنوع، گہرائی اور گیرائی دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو ہر اُس انسان کی رائے کا احترام کیجیے جو آپ سے اختلافِ رائے رکھتا ہو۔ اختلافِ رائے رکھنے والے ہی نئی سوچ کی طرف لے جانے والی راہ سجھاتے ہیں۔ اختلافِ رائے والی گفتگو سے بچنا یا گریز کرنا عمومی سطح پر اپنایا جانے والا رویہ ہے مگر یہ کسی بھی درجے میں زیادہ سودمند نہیں۔ اختلافِ رائے سے دور بھاگنے والے لگی بندھی سوچ کے اسیر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یاد رکھیے! اختلافِ رائے دو بدو لڑائی نہیں بلکہ محض رقص ہے۔ اِسے قبول کرتے وقت زیادہ دل گیر ہونے سے گریز کیجیے۔ اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں سوچنے کی عادت پروان چڑھائیے۔ فی زمانہ ہر شعبے میں معلومات بہت تیزی سے تازہ دم ہو جاتی ہیں۔ تازہ ترین معلومات اور اعداد و شمار کی روشنی میں سوچنے سے خیالات کو بالیدگی ملتی ہے۔ ایسے میں کچھ نیا سوچنا بھی آسان ہوتا جاتا ہے۔ نیا سوچنے سے متعلق ذہنی تیاری ہی آپ کے طرزِ عمل میں لچک بھی پیدا کرتی ہے۔ ہم خواہ کسی ماحول میں ہوں، اپنی طرزِ فکر و عمل میں لچک پیدا کیے بغیر ڈھنگ سے جینے اور متاثر کن انداز سے کام کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو ہم نے بہت پہلے سیکھا مگر وہ فی زمانہ کام کا نہیں۔ اُسے اَن سیکھا کرنا ہے۔ اس مرحلے سے گزر کر ہی ہم کچھ نیا سیکھ سکیں گے۔ کچھ اَن سیکھا کرنا ہو یا کچھ نیا سیکھنا ہو، دونوں ہی مراحل ہم سے نظرِ ثانی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ جامد سوچ کے ساتھ کبھی کچھ بھی بامقصد نہیں کیا جاسکتا۔ خود بھی کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے پر مائل رہیے اور اپنے حلقے کے لوگوں کو بھی کچھ نیا سیکھنے پر مائل کرنے کی کوشش کیجیے۔ زندگی کا حُسن ایسی ہی طرزِ فکر و عمل میں پوشیدہ ہے۔
اپنے خیالات پر نظرِ ثانی کا مطلب ہے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنا۔ جو لوگ حرفِ آخر والی سوچ رکھتے ہیں یا ہر معاملے میں قلم برداشتہ ذہنیت کے حامل رہتے ہیں وہ جوہڑ کے مانند ہوتے ہیں۔ جوہڑ یعنی رُکا ہوا، ٹھہرا ہوا پانی۔ ایسا پانی کائی والا اور بدبو دار ہوتا ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی فکری ساخت کا جائزہ لیتا رہے، اپنی خامیاں دور کرنے پر متوجہ رہے اور معاملات میں لچک کو نمایاں مقام دے۔ مستحسن تو یہ ہے کہ بچوں میں بھی خیالات پر نظرِ ثانی کی عادت پروان چڑھائی جائے۔ اُنہیں بتایا جائے کہ دنیا ہر آن بدل رہی ہے‘ ایسے میں ساکت و جامد قسم کے خیالات کی رسّی تھام کر زیادہ دور تک چلا نہیں جاسکتا۔ اپنے خیالات، تصورات اور نظریات کا جائزہ لیتے رہیے۔ جہاں بھی جھول دکھائی دے، دور کرنے کی کوشش کیجیے۔ اِسی طور آپ اپنے خیالات کو درست اور تازہ دم رکھ پائیں گے۔ یہ سب کچھ خود بخود ہوتا ہے نہ راتوں رات۔ جتنا گُڑ ڈالیے اُتنا میٹھا ہو گا یعنی ذہن کو زرخیز رکھنے پر جتنی محنت کیجیے گا ذہن اُتنا ہی زرخیز رہے گا۔ دنیا ہمیشہ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ ایسے میں اگر آپ تبدیل نہ ہوئے تو بنتی بات بھی بگڑ جائے گی اور آپ کے نصیب میں صرف خرابیاں رہ جائیں گی۔