ایک زمانہ لگتا ہے تب کوئی کچھ بن پاتا ہے۔ اور جب بات بن جائے، کیریئر مستحکم ہوجائے تب کام کے پیچھے بھاگنا نہیں پڑتا بلکہ کام خود تلاش کرتا ہوا آتا ہے۔ ایک زمانہ لگتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ بقولِ دلاور فگارؔ مرحوم ؎
جادۂ فن میں کئی سخت مقام آتے ہیں
مٹ کے رہ جاتا ہے فنکار اَمر ہونے تک
جس نے کچھ سوچا اور پھر اُس کے لیے خود کو مٹادیا وہی زندہ رہ پایا۔ دنیا اُسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، سلام کرتی ہے جو اپنے مقصد یا ہدف کے لیے باقی سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ جس سے گزرتے ہوئے روح فنا ہوتی ہے، دل و دماغ میں ہلچل سی مچتی ہے اور جسم و جاں پر قیامت سی گزرتی ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمیں بہت کچھ کرنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ قدم قدم پر ایسے معاملات ہیں جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے مگر کیا ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا کرتے ہیں؟ کم ہی لوگ ہیں جو کچھ سوچیں اور پھر اُس کا حصول یقینی بنانے کے لیے اپنے آپ کو عمل کی چوکھٹ پر قربان کردیں۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ دوسروں سے منفرد اور بلند دکھائی دیتے ہیں۔
سمندر میں تیرنے کا لطف لینا ہے تو سمندر میں کودنا پڑے گا۔ ساحل پر کھڑے ہوکر سمندر میں تیرنے کا مزا لینے کا سوچنے والوں کی سادہ لوحی پر صرف ہنسا جاسکتا ہے۔ محض سوچنے سے کسی بھی معاملے کا لطف لیا جاسکتا تو آج دنیا میں ہر طرف کامران و شادمان لوگ دکھائی دے رہے ہوتے۔ انسان کا ایک بنیادی المیہ یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہونے کے باوجود اُس سے چشم پوشی برتتے ہوئے محض خیالی دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے اور اس بات کا خواہش مند رہتا ہے کہ بہت کچھ بیٹھے بٹھائے حاصل ہوجائے، ہاتھ پیر ہلائے بغیر زندگی اُس مقام تک پہنچ جائے جو دل و دماغ میں بسی ہوئی ہے۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ ہو تو کیسے ہو کہ عمل کی دنیا تو کچھ اور کہتی ہے۔ عملی زندگی ہم سے عزمِ مصمم چاہتی ہے۔ جس کا عزم پختہ ہو وہی محنتِ شاقّہ کے لیے خود کو تیار کر پاتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں بہت سوں کو محنت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ دن رات ایک کیے بغیر دوسروں سے ہٹ کر یعنی زیادہ اور نمایاں کامیابی مل سکی ہے نہ ملے گی مگر پھر بھی طبیعت اِس طرف نہیں آتی یعنی محنت کے تصور ہی سے دل و دماغ پر وحشت سی طاری ہونے لگتی ہے، جسم و جاں گھبراہٹ کی نذر ہونے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت افسوس ناک ضرور ہے، حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ انسان کے مزاج میں تساہل کا تناسب محنت پسندی سے کہیں زیادہ ہے۔ زندگی کو عمل سے ہم کنار رکھنے کا جذبہ آرام طلبی کے مقابلے میں ہمیشہ کمزور رہا ہے۔ عمل پسندی کی طرف کوئی بھی خود بخود نہیں جاتا، طبیعت کو اِس طرف خاصی طویل اور صبر آزما تگ و دَو کے ذریعے لانا پڑتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں نام کمانا آسان نہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اداکاری، گلوکاری، نغمہ نگاری، موسیقی، تصنیف و تالیف، خطابت، مصوری، مینا کاری اور دیگر فنونِ لطیفہ ہی ہم سے محنتِ شاقّہ کے طالب ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی پلمبر ہے اور اپنے ہنر سے محبت کرتا ہے تو یہ بات اُس کے ہنر میں ضرور جھلکے گی مگر اُسے کچھ سوچنا اور کرکے دکھانا پڑے گا۔ دو الیکٹریشنز سے کام کروائیے، فرق نظر آجائے گا۔ گھروں کو رنگنے والے کاری گر فن کے اعتبار سے یکساں نہیں ہوتے۔ جو اپنے کام سے محبت کرتا ہے اُس کا برش مختلف انداز سے چلتا ہے۔ بڑھئی ہو یا مستری، درزی ہو یا رنگریز‘وہی نمایاں ہوگا جو خود کو نمایاں حیثیت میں پیش کرنے پر متوجہ ہوگا۔ کسی کو باؤلنگ کا شوق ہو تو گیند ہاتھ میں لیتے ہی عمران خان، وسیم اکرم یا شعیب اختر نہیں بن جاتا۔ بلے بازی میں نام کمانے کا خواہشمند کوئی بھی نوجوان بلا تھامتے ہی جاوید میانداد، انضمام الحق یا یونس خان نہیں بن سکتا۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر کوئی اپنے کیریئر کی ابتدا میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اِس کی پُشت پر اُس کی برسوں کی لگن اور محنت ہی کارفرما ہوتی ہے۔ جو کھیلوں کی دنیا میں نام کمانا چاہتے ہیں وہ اگر کھلاڑیوں کی یومیہ مشق و مشقت دیکھ لیں تو اندازہ ہو کہ میر تقی میرؔ نے کیوں کہا تھا ؎
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
عام آدمی کا حال یہ ہے کہ برش تھامتے ہی خود کو ایک بڑے، عالمی شہرت یافتہ مصور کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ جنہیں اداکاری کا شوق ہے وہ کسی ڈرامے میں محض چند سیکنڈز کا کردار ادا کرنے کے بعد منتظر رہتے ہیں کہ کسی بڑے ڈراما نگار یا ہدایت کار کی کال آئے۔ جن کا ایک آدھ گانا مقبولیت سے ہم کنار ہو جائے وہ اگر خود کو محمد رفیع مرحوم کے درجے پر فائز کرکے یہ چاہیں کہ موسیقار اُن کے دروازے پر قطار بند ہوجائیں تو اِسے سادہ لوحی سے کہیں بڑھ کر حماقت بلکہ جہالت کہا جائے گا۔ فن کی دنیا میں کچھ بننے کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ جن سے کام مل سکتا ہے اُن سے رابطہ رکھنا، کام طلب کرنا بھی پاپڑ بیلنے ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ اور اِس میں قباحت کیا ہے؟ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں یہ کسی کو اُسی وقت معلوم ہو پائے گا جب آپ اُس پر اپنی خواہشات اور ارادے آشکار کریں گے۔ اگر کسی کو تھوڑی بہت اداکاری آتی بھی ہے تو کوئی کیوں رابطہ کرے گا؟ ایسے تو بہت سے ہیں اور اُن کی خدمات آسانی سے دستیاب ہیں۔ ہاں! کوئی اگر کچھ کرنا چاہتا ہے تو آگے بڑھے، رابطے تیز کرے، اپنی خدمات پیش کرے، اپنی خواہشات سے متعلقہ شخصیات کو آگاہ کرے تو کچھ ہوسکتا ہے۔ اگر آپ اداکاری سے شغف رکھتے ہیں اور تھوڑا بہت کام کر بھی چکے ہیں تو آپ کے لیے ''بریک‘‘ اُسی وقت آئے گا جب آپ فلم یا ٹی وی کے ہدایت کاروں سے رابطے میں رہیں گے۔ کیا آپ دلیپ کمار ہیں کہ کوئی آپ سے خود رابطہ کرے گا، کوئی بڑا کردار پیش کرے گا؟ اور یہ بات آپ کیوں بھول رہے ہیں کہ یوسف خان کو دلیپ کمار اور پھر دلیپ صاحب بننے کے لیے طویل مدت تک محنت کرنا پڑی تھی، کئی جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ اور یہ سب کچھ بھی رابطوں میں رہے بغیر ممکن نہ تھا۔ کسی بھی دور میں کسی کو بھرپور کامیابی، شناخت اور مقبولیت راستے میں پڑی ہوئی نہیں ملی۔ جس نے خود کو کھپایا ہے اُسی نے کچھ پایا ہے۔ آپ کے لیے کائنات اپنا اصول کیوں بدلے گی؟
کام کی بات یہی ہے کہ اپنے کام سے کام رکھا جائے۔ آپ جس شعبے میں ہیں اُس کے بڑوں تک رسائی کے لیے کوشاں بھی رہیں۔ آپ کے شعبے میں ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں جو کچھ بننے اور بہت کچھ کر دکھانے کے آرزو مند ہیں۔ تاریخی شواہد کی روشنی میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ اِن میں چند ہی کو کامیابی سے ہم کنار ہونا ہے۔ اُن میں آپ بھی ہوسکتے ہیں مگر ایسا اُس وقت ہوگا جب آپ اپنے شعبے میں مطلوب لیاقت پیدا کرنے پر پوری توجہ دیں گے اور مواقع تلاش کرنے سے ہچکچائیں گے نہ گھبرائیں گے۔ فن کی دنیا میں اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ کس کے رابطے زیادہ اور مؤثر ہیں۔ کسی کو کیا خبر کہ آپ کتنا اور کیسا کام کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی خدمات پیش کریں گے تو متعلقہ شخصیات کو کچھ اندازہ ہوگا۔ یہ مقام تو بہت بعد میں آئے گا کہ وہ آپ سے رابطہ کریں۔ تب تک آپ کو پیش قدمی کرتے رہنا ہے۔ یہ دنیا ویسے تو کسی کی نہیں مگر اُس کی ضرور ہے جو اِسے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس دنیا کو آپ بھی پاسکتے ہیں مگر اِس کے لیے پہلے اپنا آپ دنیا کے حوالے کرنا پڑے گا۔ جو اپنے فن میں طاق ہونے اور دنیا کو کچھ دینے کے لیے خود کو کھپا دیتا ہے اُسی کو پھل ملتا ہے اور وہ بھی میٹھا۔