خان صاحب پھر مشکل میں ہیں۔ جب سے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں‘ وہ پریشان ہی رہے ہیں، مشکلات ہی کی شکایت کرتے آئے ہیں۔ اُن کے لیے ایک مسئلہ تو بہت بڑا تھا ... مسائل کو سمجھنا۔ سات عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران جو مسائل پنپ چکے ہیں وہ کسی ایسے انسان کی سمجھ میں آسانی سے کیسے آسکتے ہیں جو خیال و خواب کی دنیا میں بستا ہو؟ وہ آدرشوں پر یقین رکھتے ہیں اور آدرشوں ہی کی بات کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ حقیقت کی دنیا کچھ اور کہتی ہے۔
محض وزیراعظم کو قصور وار کیوں گردانیے، ہمارا نظام تو ایسا ہے کہ دنیا کے بڑے ذہن جمع کرکے لائے جائیں تو وہ بھی سمجھ نہ پائیں، چکرا جائیں۔ جس طور طیاروں کو آٹو پائلٹ پر چلایا جاتا ہے یعنی سمت اور رفتار مقرر کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ ''از خود‘‘ یعنی خود کار نظام کے تحت اُڑتا چلا جاتا ہے بالکل اُسی طرح ہمارے نظام میں بھی بہت کچھ ہے جو آٹو پائلٹ کے طور پر کام کرتا آیا ہے۔ لوگوں نے سات عشروں کے دوران بہت سی خرابیوں کو اپنی ''لیاقت و محنت‘‘ سے پروان چڑھایا ہے اور اب وہ خرابیاں گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہیں تو دن رات اُن کا رونا رویا جارہا ہے۔ مگر خیر! یہ حیرت کی جا نہیں کہ پس ماندہ معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ آدرشوں کی دنیا میں رہتے ہیں‘ بڑوں کی بڑی باتیں اُنہیں خوب یاد رہتی ہیں مگر زمینی حقیقتوں پر غور کرنے کے بجائے ان سے گریز اُن کے مزاج کا حصہ ہے۔ کسی بھی سیاست دان کو اگر پنپنا ہے، کچھ سیکھنا ہے تو اُس کے مزاج میں لچک کا پایا جانا لازم ہے۔ ان کے یہاں کتنی لچک ہے یہ پوری قوم بخوبی جان چکی ہے۔ اگر اُن کے مزاج میں کہیں لچک ہوگی بھی تو ہمیں آج تک دکھائی نہیں دی۔ یہ مزاج میں لچک کی کمی ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ نظام کو سمجھ نہیں پارہے۔ جس نظام کے آغوش میں وہ ایوانِ اقتدار تک آئے ہیں اُسے سمجھے بغیر اُس میں کسی تبدیلی کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ڈھائی سال سے زائد مدت گزر چکی ہے۔ کچھ کر دکھانے کے لیے یہ مدت کم نہیں ہوتی۔ اگر ڈھائی سال میں کسی حکومت کے لیے کچھ زیادہ کر دکھانا ممکن نہ بھی ہو تو وہ اپنے ارادوں کے بارے میں واضح اشارے تو دے ہی سکتی ہے۔ قوم اب تک یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ تحریکِ انصاف درحقیقت چاہتی کیا ہے۔ کسی بھی نظام کو بدلنے سے بہت پہلے اپنے آپ کو بدلنا ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف نے اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ اُس میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں یقینی بنانے کی صلاحیت تو دور کی بات‘ اس حوالے سے ذہنی تیاری بھی پائی جاتی ہے۔ محض دعوے کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ اور ہاں! دوسروں کی خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کا رونا بھی ایک خاص حد تک ہی رویا جاسکتا ہے۔ اگر خود کو منوانا ہو تو ہزار خرابیوں کے باوجود کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کا اب تک بنیادی وصف یہ رہا ہے کہ گزشتہ حکومتوں کی پیدا کردہ مشکلات کا رونا روکر وقت گزارا جائے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ ملک کو چلانے سے متعلق اپنی صلاحیت و سکت کا گراف بلند کرے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب حکومت کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دینے کا سوچنے کے بجائے وہ سب کچھ کرنے پر متوجہ ہو جو وہ آسانی سے کرسکتی ہے۔ قوم کچھ دیکھنا چاہتی ہے۔ عام آدمی بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ تحریکِ انصاف کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکتی۔ نظام کی درستی کے حوالے سے کوئی بڑا کارنامہ انجام دینا بھی بظاہر اُس کے بس کی بات نہیں۔ ایسے میں لوگ بہت چھوٹے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
عام آدمی کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آکر نظام کو پلٹنے کے لیے کچھ کرتی ہے یا نہیں۔ وہ بے چارہ تو اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہتا ہے۔ بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوں اور روزی روٹی چلتی رہے، اِس سے بڑھ کر عام آدمی کی خواہش کیا ہو سکتی ہے؟ اگر اتنا بھی حاصل نہ ہو پائے تو پھر جمہوریت اور انتخابات کی افادیت پر سے اُس کا اعتماد اٹھتا جاتا ہے۔ کسی حکومت کے لیے اس سے زیادہ خطرناک بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ عوام مایوس ہوجائیں اور اُن کا اعتماد حاصل نہ رہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت غیر متعلق معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ ضمنی انتخابات، سینیٹ کے انتخابات اور پھر چیئرمین سینیٹ اور نائب چیئرمین کا انتخاب ... یہ سب وہ پھندے ہیں جو حکومت کی گردن میں آ پڑے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے پر توجہ دینی ہے اور یہی کام وہ نہیں کر پارہی۔ جس نظام کو وہ روتی آئی ہے اُسی نظام کی مہربانی سے وہ آج مسندِ اقتدار پر براجمان ہے!
قوم دیکھ رہی ہے کہ مخالفین بھی سُکون کا سانس نہیں لینے دے رہے۔ وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کی کمی نہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وہ وفاقی حکومت کے لیے اچھا خاصا دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ دو بڑی جماعتوں کی لڑائی میں کراچی پِس کر رہ گیا ہے۔ اندرونِ سندھ کی بات ہم اِس لیے نہیں کر رہے کہ وہ غریب تو کسی گنتی ہی میں نہیں۔ منتخب ایوانوں کی حدود میں لڑی جانے والی لڑائی نے پوری قوم کو خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کوئی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ حکومت اس کیفیت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو بھی سکے گی یا نہیں۔ حزبِ اختلاف میں بظاہر پُھوٹ پڑی ہوئی ہے مگر پھر بھی حکومت کے لیے راہ آسان نہیں ہو پائی ہے۔ ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
کے مصداق جہاں بھی دوسرے کم پڑتے ہیں یا کوئی کسر چھوڑتے ہیں وہاں اپنے کسر پوری کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ حزبِ اختلاف بھی نِچلی بیٹھنے والی نہیں اور رہی سہی کسر اُن چند لوگوں نے پوری کردی ہے جو وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔ ٹیم تشکیل دینے کے معاملے میں وزیراعظم صاحب اپنا کرکٹ کا زمانہ بھول گئے اور اُنہیں بھی ٹیم میں شامل کر لیا جو بیٹنگ یا باؤلنگ تو کیا ‘ڈھنگ سے فیلڈنگ بھی نہیں کر سکتے! انہیں صرف اتنا یاد رکھنا ہے کہ جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے وہ کرکے جانا ہے۔ بھرپور مقابلے والے پانچ میچ ہارنے کی صورت میں اُتنی ستائش نہیں ہوگی جتنی ایک میچ جیتنے پر ہوگی۔ عوام اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ رہائش بھی بنیادی مسئلہ ہے اور معاشی سرگرمیوں کے لیے موافق ماحول بھی مگر اِس سے بہت پہلے پانی و بجلی اور تعلیم و صحتِ عامہ کے نظام کی درستی درپیش ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے کے لیے حکومت بنیادی طور پر کچھ کرے تو یاد رکھی جائے گی۔ طفل تسلیوں سے وہ اپنی کچھ کر دکھانے کا موقع ضائع کر رہی ہے۔ روایتی سیاست تحریک انصاف کو الجھارہی ہے‘ اسے الجھنے سے بچنا ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، ناممکن ہرگز نہیں۔ گزشتہ برس اگست میں موسلا دھار بارشوں کے دوران کراچی پر قیامت گزر گئی تھی‘ تب وزیر اعظم نے خصوصی طور پر کراچی آکر یقین دلایا تھا کہ شہرِ قائد کے مکینوں کے تمام مسائل حل کیے جائیں گے اور اس حوالے سے کاروباری برادری کو اعتماد میں لیتے ہوئے 1100 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ شہرِ قائد کے مکین اُس پیکیج کا انتظار کر رہے ہیں۔ سات ماہ گزر گئے، اب تک عام نالوں اور برساتی نالوں کی صفائی نہیں کی جاسکی ہے۔ دوسرے بڑے شہروں کے باشندے بھی سراپا انتظار ہیں۔ ؎
ہائے یہ انتظار کے لمحے / جیسے سگنل پہ رُک گئی ہو ریل
کوئی بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ یہ انتظار لاحاصل رہا تو حکومت عوام کی نظر میں کہاں کھڑی ہوگی۔