ہمارا قومی مزاج نمایاں طور پر جن چند باتوں کا مرکب ہے اُن میں معاملات کو ٹالتے رہنا بھی شامل ہے۔ اب یہ خصلت اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ کسی کو بری بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ٹال مٹول کی عادت مزاج کا حصہ بن کر زندگی کے کم و بیش ہر معاملے پر محیط ہوچکی ہے۔ معاملات یا کام کو ٹالتے رہنا کس حد تک مفید ہے؟ ہوسکتا ہے کسی کام کو ٹالنے کی صورت میں وقتی طور پر کچھ فائدہ پہنچ جائے اور وہ بھی معمولی سا مگر حتمی تجزیے میں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ٹال مٹول سے معاملات محض خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ معاملت اُسی وقت بارآور ثابت ہوتی ہے جب اُس کے تمام اجزا بروقت اور جامع ہوں۔ کوئی بھی معاملہ فائدہ تبھی دیتا ہے جب ہم اُسے وقت پر مکمل کرتے ہوئے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹال مٹول سے معاملات صرف خراب ہوتے ہیں مگر پھر بھی ہم زندگی بھر ٹال مٹول کو اپنے مزاج کا حصہ بنائے رکھتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ ٹال مٹول سے نجات پانے میں ناکامی کا بنیادی سبب کیا ہے؟
کسی بھی بُری عادت کے پنپنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ ٹال مٹول سے کام لینے کی عادت کے پروان چڑھنے کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک طرف تو ہم عمومی معاملات میں تھوڑی بہت گنجائش چاہتے ہیں۔ مطلب تھوڑی سی راحت یا مہلت یعنی کسی بھی کام کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہمیں تھوڑا سا وقت مزید مل جائے۔ یہ ''تھوڑا سا وقت‘‘ ہی اصل ذہنی الجھن ہے۔ ہم مزید وقت کے فراق میں رہتے ہیں اور معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی
کام کو عمدگی سے اور دیے ہوئے نظام الاوقات کے مطابق مکمل کرنے کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ اُسے وقت پر شروع کیا جائے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں کون سا کام کب شروع کرنا چاہیے مگر پھر بھی ہم ایسا کرنے سے گریز کرتے رہتے ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ ہماری سہل انگاری یعنی سستی ہمیں ایسا کرنے سے روکتی ہے۔ ٹال مٹول کی عادت اصلاً سستی کے بطن میں پنپتی ہے۔ اگر روکنے کی کوشش نہ کی جائے تو سستی اور کاہلی کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والی ٹال مٹول کی عادت پورے وجود کو زنگ آلود کردیتی ہے۔ اپنے ماحول پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ لوگ ٹال مٹول کی عادت کے ساتھ جیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا جھیلتے اور بھگتتے ہیں۔ اگر پوری دیانت اور غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو اچھی خاصی سستی اور سہل پسندی ہمارے مزاج کا بنیادی حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہم سبھی کسی نہ کسی شکل میں یہ چاہتے ہیں کہ زیادہ کام نہ کرنا پڑے اور مطلوب نتائج بھی حاصل ہو جائیں۔ مزاج کے اِس پہلو کو ایک خاص حد تک رکھا جائے تو ٹھیک ورنہ معاملات آپس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی کام کو وقت پر کرنے سے گریزپا رہنے کی صورت میں کوئی بھی معاملہ سلامت یا اپنے ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ ہم بالعموم اِس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ ہمارے تمام معاملات کسی نہ کسی طور باہم پیوست ہوتے ہیں۔ کسی ایک معاملے کو ادھورا چھوڑنے سے بہت کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی ایک معاملے میں ٹال مٹول سے کئی معاملات ادھورے رہ جاتے ہیں اور اگر وہ مکمل ہو بھی جائیں تو ہمیں وہ فائدہ نہیں پہنچا پاتے جو پہنچانا چاہیے۔
زندگی بسر کرنے کا معاملہ دریا پار کرنے جیسا ہے۔ کسی بھی دریا کو پار کرنے کے لیے آپ کے پاس کشتی ہونی چاہیے یا پھر آپ کو تیرنا بھی آنا چاہیے۔ تیرنا آتا ہو تب بھی بہاؤ کی تیزی تو دیکھنا ہی پڑتی ہے اور دیگر خطرات پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے مثلاً یہ کہ دریا میں مگر مچھ یا دیگر خطرناک جانورتو نہیں پائے جاتے! اگر اندازہ غلط ہو جائے تو جان بھی جاسکتی ہے۔ کشتی کا اہتمام کرنے یا تیرنا سیکھنے کے بجائے ہم زندگی بھر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ دریا رک جائے تو اُسے پار کریں۔ دریا رک نہیں سکتا‘ اگر اس کے رکنے کا انتظار کرنا ہے تو تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر معاملات میں ہم کنارے پر کھڑے سوچتے رہ جاتے ہیں اور وقت یعنی موقع گزر جاتا ہے۔ ٹال مٹول کی عادت کسی ایک معاملے کو بھی درست نہیں رہنے دیتی۔ اس بری عادت کا سب سے بڑا نقصان کیریئر کے حوالے سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹے معاملات میں ٹال مٹول سے کام لینے والے رفتہ رفتہ اس بُری عادت کا دائرہ غیر محسوس طور پر بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب بڑے اور اہم معاملات بھی ٹال مٹول کی نذر ہونے لگتے ہیں۔ اہم اور غیر اہم‘ ہر طرح کے کاموں کو ٹالتے رہنے کی عادت انسان کو رفتہ رفتہ ڈکارنے لگتی ہے۔ کسی بھی کام کو اچھے طریقے سے انجام تک پہنچانے کے لیے سب سے اہم چیز ہے ٹائمنگ۔ کام موزوں ترین وقت پر شروع کیا جانا چاہیے اور اُس کا اختتام بھی موزوں ترین وقت پر ہونا چاہیے۔ دورانیے کے معاملے میں بھی معقولیت ہی نمایاں ہونی چاہیے۔ یہ سب کچھ صرف اُس وقت ممکن ہے جب انسان کسی بھی درجے میں ٹال مٹول سے کام لینے کا شوقین ہو نہ عادی۔ بہت سے معاملات کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ ٹائمنگ پر منحصر ہوتے ہیں۔ آغاز میں ذرا سی تاخیر کام بگاڑ دیتی ہے۔ کیریئر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ امتحان کی تیاری میں ٹال مٹول سے کام لینے والے بھی بالآخر تیاری ہی سے جاتے ہیں۔ ٹال مٹول سے صرف کاروباری یا پیشہ ورانہ معاملات ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ رشتے اور تعلقات بھی اِس کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ رشتہ ہو یا کوئی تعلق، محنت کرنے یا تکلیف برداشت کرنے سے بچنے کے لیے کی جانے والی ٹال مٹول سے بات یوں بگڑتی ہے کہ اُسے بنانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
اپنے ماحول اور باقی کائنات کا جائزہ لیجیے تو یہ بات پوری شدت سے محسوس ہوگی کہ یہ کائنات ایک خاص نظم و ضبط کی پابند ہے۔ کائنات یا ماحول میں ہر کام ایک خاص وقت پر ہوتا ہے۔ قدرت نے یہ انتظام اس لیے رکھا ہے کہ ہم کچھ سیکھیں، اپنی اصلاح کریں، وقت کی اہمیت سے کماحقہٗ واقف ہوں اور جو کچھ بھی کرنا ہے وہ موزوں ترین وقت پر کریں۔ پوری کائنات ہمیں سکھارہی ہے کہ وقت کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھیں اور کسی بھی کام کو غیر ضروری طور پر موخر یا ملتوی نہ کریں۔ ٹال مٹول سے کام لینے کی صورت میں وقت یا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ جو لوگ موافق حالات کے حامل ہوں اُن کے لیے تو حالات کو برداشت کرنے کی تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہوسکتی ہے مگر حالات کے جبر کا سامنا کرنے والوں کے لیے ٹال مٹول کی گنجائش برائے نام بھی نہیں ہوتی۔ جو موقع ضائع کردے اُسے بہت سے مضمرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زمانہ اُسی کا ہے جو وقت کی نوعیت، اہمیت اور نزاکت کو سمجھتا ہے۔ سارا کھیل وقت کی اہمیت کو سمجھنے کا ہے۔ ہر کام اُسی وقت ہونا چاہیے جو اس کا وقت ہو۔ ٹال مٹول کرنے سے بہت سے معاملات کا ڈبّا گول ہو جاتا ہے۔ وقت نکل جائے تو پھر ہاتھ نہیں آتا یعنی سانپ کے نکل جانے کے بعد صرف لکیر پیٹنے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے کسی بھی آپشن کو آپشن نہیں کہا جاسکتا۔ کوئی آپشن اگر ہے تو صرف یہ کہ وقت کی اہمیت کو سمجھیے اور اُس کے تقاضے نبھاتے ہوئے زندگی بسر کیجیے۔ ہمارے جیسے معاشروں کے پاس اب وقت ضائع کرنے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں رہی۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم نے ابھی تک کچھ بھی ایسا نہیں کیا جسے سفر کی ابتدا قرار دیا جاسکے۔ صلاحیت و سکت کے ہوتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لینا نری حماقت ہے۔ اگر کسی میں صلاحیت نہ ہو یا سکت نہ پائی جائے تو اور بات بھی ہے‘ یہ کیا بات ہوئی کہ قدرت نے کام کرنے کی صلاحیت بھی بخشی ہو اور توانائی سے بھی محروم نہ رکھا ہو مگر انسان خود کو بروئے کار لانے سے گریزاں رہے۔