علم و فن کی دنیا بہت کچھ بتانے پر تُلی ہوئی ہے۔ ماہرین دن رات اِس کوشش میں جتے رہتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ثابت کرکے داد سمیٹیں۔ تحقیق کا شعبہ دن رات کوشاں ہے کہ جو کچھ نقصان دہ ہے اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بتائے اور لوگوں کو طرزِ زندگی بدلنے کی تحریک دے۔ جب تک انسان کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تب تک تو وہ اندھیرے میں رہتا ہے، نقصان اٹھاتا رہتا ہے۔ جب کچھ معلوم ہو جائے تب روشنی کی طرف آنے کی راہ ملتی ہے، نقصان سے بچنے کا سامان ہوتا ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اہلِ علم و فن نے دنیا کو اپنی محنت سے بہت کچھ دیا ہے اور اِس سے دنیا کا معیار بلند ہوتا گیا ہے۔ علم و فن کی دنیا عام آدمی کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی کوشش کرنے سے گریزاں نہیں رہتی۔ اہلِ علم و فن کا بنیادی کام یہی تو ہے کہ جو کچھ بھی غلط اور نقصان دہ ہے اُس کے بارے میں لوگوں کو بتائیں، اُنہیں درست راہ پر گامزن ہونے میں مدد دیں۔ ہر دور کے حقیقی اہلِ علم و فن نے یہی کیا ہے۔ آج اگرچہ ہر معاملہ تجارت کے پیمانے سے دیکھا، جانچا اور تولا جارہا ہے مگر اِس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ محققین اور ماہرین میں ایسے بھی ہیں جو حقیقی معنوں میں غیر جانبدار ہوکر لوگوں کا صرف بھلا سوچتے ہیں اور جو کچھ اُن کے نزدیک درست ہوتا ہے اُسے بے جھجک بیان کردیتے ہیں۔
ایک زمانے سے ماہرین اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ لوگوں کو کھانے پینے کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ باخبر رکھیں، شعور بلند کریں تاکہ صحتِ عامہ کا معیار بلند ہو۔ اس حوالے سے تحقیق کا بازار گرم رہا۔ تجربے کیے جاتے رہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے ذریعے بھی بہت کچھ جاننے کی کوشش کی جاتی رہی تاکہ اُس کے تجزیے کی بنیاد پر لوگوں کی راہ نمائی کی جاسکے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ کھانے پینے کا معاملہ یومیہ معمول ہے اور انسان کے لیے انتہائی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ چین کے شیزن انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹڈیز کے ماہرین نے برسوں کی تحقیق کے بعد ایک خصوصی قلم تیار کیا ہے۔ اس قلم کی نوک باریک، شفاف سُوئی پر مشتمل ہے۔ اس سُوئی میں خصوصی کیمیکلز ڈالے گئے ہیں۔ یہ قلم باسی پھل، باسی کھانے اور اعصاب شکن گیس کی نشاندہی کرتا ہے۔ سڑتے ہوئے پھلوں اور کھانوں سے ایسے بخارات اُڑتے ہیں جو بدبو پھیلانے کے ساتھ ساتھ خرابی کا پتا بھی دیتے ہیں۔ یہ بخارات گلنے سڑنے کے عمل کے ابتدائی مرحلے میں اِتنے نازک ہوتے ہیں کہ انسان کے لیے سُونگھنا ممکن نہیں ہوتا۔ چینی ماہرین کا تیار کردہ قلم جیسے ہی کسی گلے سڑے پھل یا باسی ہوکر بدبو مارتے ہوئے کھانے پر رکھا جاتا ہے، سُوئی پر مشتمل اِس کی نوک سُرخ ہوکر خرابی کا پتا دیتی ہے۔ اعصاب شکن گیس کی بُو براہِ راست محسوس نہیں کی جاسکتی۔ انسانی ناک اِس کی موجودگی محسوس کرنے میں بالعموم ناکام رہتی ہے۔ چینی ماہرین کا تیار کردہ قلم اعصاب شکن گیس کی موجودگی بھی محسوس کرلیتا ہے اور بروقت نشاندہی کردیتا ہے۔
آج کے انسان کو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جدید علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت نے ڈھنگ سے جینا کس قدر آسان کردیا ہے۔ آج ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو انسان کو خرابی کی طرف جانے سے روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ ماہرین جو کچھ سوچتے اور عملی طور پر دنیا کے سامنے رکھتے ہیں اُس سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد مستفید ہوکر زندگی کا معیار کسی نہ کسی حد تک بلند کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب لوگوں کو ماہرین کی آرا سے مستفید ہونے کی تربیت فراہم کی جائے۔ یہ کام میڈیا کے ذریعے بھی ہوتا ہے اور سیاسی و سماجی قائدین کے ذریعے بھی۔ نمایاں شخصیات جب عوام کو کچھ بتاتی ہیں تو وہ تیزی سے متوجہ ہوکر اپنی اصلاح پر مائل ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں بہت سے معاملات میں اچھے اور بُرے کا فرق بتادیا گیا ہے مگر پھر بھی ہم اپنی اصلاح پر مائل ہوتے ہیں نہ دوسروں کے کام آنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں خرابی کا علم ہو جانے پر بھی ہم راہ بدلنے کا نہیں سوچتے۔ عادات پختہ ہوکر ثقافت و روایت کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ یہ سب کچھ افسوسناک ہی نہیں، شرمناک بھی ہے۔ کھانے پینے کے معاملات میں لاپروائی ہمارے عمومی قومی مزاج کا اہم ترین جُز ہوکر رہ گئی ہے۔ ایک ہی نشست میں مختلف النوع اشیائے خور و نوش سے مستفید ہونا آج ہمارے لیے عام بات ہے۔ لوگ خرابی اور اس کے نتائج جاننے کے باوجود خود پر قابو رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ابھی کچھ کھایا ہے اور تھوڑی دیر کے بعد کچھ ایسا کھایا جاتا ہے جو یکسر معکوس اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ کسی وقفے کے بغیر ٹھنڈے اور گرم مشروبات پینا بالکل عام بات ہے۔ دعوت میں اگر چار پانچ طرح کے کھانے ہوں تو ہر ایک پر طبع آزمائی کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ چینی ماہرین باسی پھلوں اور کھانوں کے اثرات سے بچنے کی بات کر رہے ہیں اور یہاں معاملہ یہ ہے کہ تازہ کھانوں کو بھی نقصان پہنچانے کی منزل تک پہنچایا جارہا ہے۔
ضرورت سے زیادہ کھانا بھی عمومی چلن کا حصہ ہے۔ لوگ یہ اندازہ لگانے میں بالعموم ناکام رہتے ہیں کہ پیٹ کی طلب کب اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ پیٹ بھرچکا ہو اور زبان چٹخارا چاہتی ہو تو کھانے پینے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ کھانے کے اثرات فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتے۔ کچھ دیر بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پیٹ تو کب کا خاموش ہوچکا تھا، صرف زبان ہی مزید مانگ رہی تھی۔ ماہرین اگر ایسا کوئی آلہ ایجاد کر بھی لیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ پیٹ بھرچکا ہے، اب مزید نہ کھایا جائے تب بھی لوگ کہاں باز رہنے والے ہیں۔ جو عادات عشروں کے دوران پروان چڑھی ہوں وہ آسانی سے کہاں جان چھوڑتی ہیں؟ ماہرین اشیائے خور و نوش کے گلنے سڑنے کی نشاندہی کرنے والے آلات بناکر صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ ندی نالوں کے کنارے کھڑے ہوئے ٹھیلوں سے بریانی کھانے اور شربت پینے سے باز نہیں آتے۔ علاقے کی سب سے بڑی کچرا کنڈی کے پہلو میں کھڑے ہوئے ٹھیلوں سے بھی لوگ آلو چھولے، چاٹ، دہی بڑے، گول گپے اور دیگر آئٹمز سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ زبان چٹخارے مانگتی ہے اور زبان کی طلب پوری کرنے کی دُھن میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ کہاں اور کیا کھایا جارہا ہے۔ سڑک پر جہاں دُھول ہی دھول ہو، ٹریفک جام رہنے سے گاڑیوں کا دھواں بھی ماحول میں جذب ہو رہا ہو اور ہزاروں مکھیاں پائی جاتی ہوں وہاں کھڑے ہوئے ٹھیلوں سے بھی لوگ مختلف آئٹمز یوں کھارہے ہوتے ہیں جیسے گھر کے صاف ستھرے ماحول میں معیاری طریقے سے پکا ہوا کھانا کھارہے ہوں۔ دنیا بھر میں چلن یہ ہے کہ اگر سڑک کے کنارے کیبن یا ٹھیے پر کوئی چیز فروخت کی جاتی ہے تو حفظانِ صحت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جس آؤٹ لیٹ پر چیز تیار کرکے بیچی جارہی ہے وہ بالکل صاف ہو اور ارد گرد بھی کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ماحول کو گندا کرکے صحتِ عامہ کے لیے نقصان کا باعث بنے۔ لوگ بھی سرِعام کھانے سے گریز کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ سوچ ناپید ہے۔ لوگ شدّتِ شوق کے ہاتھوں جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ ماہرین گلی سڑی چیزوں سے بچنے کی تدبیر کر رہے ہیں اور یہاں تازہ اور کچھ ہی دیر قبل تیار کی گئی اشیا کو نقصان دہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ کھانے پینے کے معاملات میں جس توازن اور استحکامِ نظر کی ضرورت ہے وہ آج ہم میں برائے نام بھی نہیں۔ ہم ایسی بہت سی اشیائے خور و نوش کے شوقین ہیں جو پیٹ کی نہیں، زبان کی ضرورت ہیں۔ زبان کو چٹخارا پسند ہے اور ہم اس معاملے میں زبان کے غلام ہوکر رہ گئے ہیں۔ دیکھیے، یہ غلامی ترک کرنے کی توفیق کب نصیب ہوتی ہے۔