اس حقیقت سے تو خیر کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا کہ جو عادتیں ایک زمانے میں یعنی مختلف حالات و مراحل سے گزرتے ہوئے پروان چڑھی ہوں وہ راتوں رات ختم نہیں ہوتیں۔ کسی بھی معاشرے میں پائی جانے والی پختہ عادتوں، خامیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کے لیے طویل جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ انفرادی سطح پر بھی معاملہ یہی ہے۔ اگر کسی انسان نے اپنے اندر کسی عادت کو ایک زمانے تک پروان چڑھایا ہو تو اُسے راتوں رات ختم نہیں کر پاتا۔ اگرچہ خال خال ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کسی نے چاہا کہ اپنی کسی پختہ عادت کو ترک کرے اور وہ راتوں رات متروکات کے زمرے میں داخل بھی ہو جاتی ہے مگر یہ انتہائی نوعیت کی قوتِ ارادی کا کیس ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی کسی عادت کو ترک کرنے کا سوچے اور کچھ کیے بغیر اُسے ترک کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
ہمارا معاشرہ بہت سی خرابیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ ذہنی الجھنوں کا گراف اِن خرابیوں کے باعث بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ بُری عادتوں کو پروان تو بخوشی چڑھایا جاتا ہے مگر جب اُن کے ہاتھوں زندگی انتہائی نوعیت کی پریشانی اور الجھن سے دوچار ہوتی ہے تب بھی اُن سے جان چھڑانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ پس ماندہ ترین معاشروں کی سب سے نمایاں خصوصیت یا علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہوتے۔ ہمارے معاشرے کا بھی انتہائی بنیادی المیہ یہ ہے کہ بہت سی خرابیوں کے تمام ممکنہ نتائج سامنے آجانے پر بھی اصلاح کا نہیں سوچا جارہا۔ سوا سال کے دوران کورونا کی وبا نے قیامت سی ڈھادی ہے۔ کوئی بھی ملک، کوئی بھی معاشرہ اِس وبا کے سنگین منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ پایا۔ پاکستان جیسے معاشرے تو بالخصوص نشانے پر ہیں کیونکہ معاشرتی اور معاشی خرابیاں پہلے ہی کم نہ تھیں۔ لاک ڈاؤن کے ہاتھوں مزید الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کے سکڑتے ہوئے دائرے نے حالات کو ناقابلِ قبول سطح تک پہنچادیا ہے۔
معاملات کو درست کرنے میں ناکامی اور حکومتی سطح پر برتی جانے والی بے حِسی و بے اعتنائی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جی ہاں! بھارت کی صورتِ حال ہمیں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی تحریک دے رہی ہے۔ مودی سرکار صرف باتیں کرتی رہی اور بہبودِ عامہ کے حوالے سے کچھ بھی ایسا نہ کیا جس کو کافی سمجھا جاتا اور سراہا جاتا۔ بھارت میں کورونا کی وبا کو بھی مذہبی بنیاد پر تعصب پھیلانے کے لیے بروئے کار لایا گیا۔ گزشتہ برس نئی دہلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو اس وائرس کے پھیلانے کا ذریعہ بتاکر انتہا پسند ہندو میڈیا نے مسلمانوں کو مطعون کرکے پورے ملک میں اُن کے لیے فضا مزید بگاڑ دی۔ انتہا پسند اینکرز نے یہ کہتے ہوئے آگ لگائی کہ تبلیغیوں کا ''جماؤڑا‘‘ (اجتماع) کورونا ایٹم بم تھا!
مودی سرکار کا مخمصہ بھی عجیب طرح کی جہالت پر مبنی تھا۔ ایک طرف تو وہ یہ کہہ رہی تھی کہ تبلیغی مسلمان کورونا کی وبا پھیلانے کا باعث بنے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی سمجھ رہی تھی کہ یہ وبا ہندوؤں میں نہیں پھیلے گی۔ جہالت پر مبنی زعم کا یہ عالم تھا کہ کنبھ کا میلہ منعقد کرنے کی اجازت دی گئی اور محض بیس دن میں اتر پردیش کے چند شہروں میں تھوڑے سے فاصلے پر واقع گنگا گھاٹوں پر بیس لاکھ سے زائد ہندوؤں کا ''جماؤڑا‘‘ ہوا۔ یہ جماؤڑا کس نوعیت کا بم ثابت ہوا ہے یہ تو دنیا نے دیکھ ہی لیا ہے۔ وبا تو صرف وبا ہوتی ہے۔ یہ مذہب، رنگ، نسل، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتتی۔ جس نے احتیاط کا دامن چھوڑا وہ اس کا شکار ہوا۔ بھارت میں یہی تو ہوا۔
صد شکر کہ جو کچھ بھارت میں ہوا وہ ہمارے ہاں نہیں ہوا۔ یہ اللہ ہی کا کرم ہے ورنہ ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی شکار ہونے میں۔ ملک بھر میں جس نوعیت کی احتیاط درکار ہے وہ اب بھی مفقود ہے۔ حکومت خوفزدہ ہے کہ اگر بے احتیاطی کے عالم میں کہیں بھارت جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی تو کیا ہوگا۔ یہ خوف یا خدشہ درست اور فطری ہے۔ بھارت کو اپنی معیشت کے مضبوط ہونے پر ناز ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھارتی ہنر مند ملک کے لیے خطیر زرِ مبادلہ کے حصول کا مضبوط ذریعہ ہیں۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت کورونا کی وبا کے شدید منفی اثرات سے اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے کچھ خاص نہیں کر پائی۔ حد یہ ہے کہ ملک میں آکسیجن کے بحران نے ایسی شدت اختیار کی کہ حکومت ایک طرف ہٹ گئی اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ مودی سرکار کی اِس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوسکتی ہے؟ بھارت میں صحتِ عامہ کے بنیادی ڈھانچے کی دُھوم مچی ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے ناشکرے دانشور بھارت اور بنگلہ دیش کے عام کو میسر ''خوش حالی‘‘ کی مثالیں دے دے کر اپنی حکومت کو مطعون کرنے کا کوئی بھی سنہرا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب اُن کے ہونٹوں پر بھی چُپ کی مہر لگی ہوئی ہے۔
بہر کیف! بھارت میں کورونا کے ہاتھوں واقع ہونے والی شدید بحرانی کیفیت سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوال صرف صحت کے حوالے سے محتاط رہنے کا نہیں ہے۔ اہلِ پاکستان کو معاشرتی اور معاشی سطح پر بھی بہت کچھ سیکھنا ہے اور سیکھنا ہی چاہیے۔ سب سے پہلے تو اِسی بات کو لیجیے کہ حکومت کے جاری کردہ کورونا ایس او پیز کی پابندی کرنے پر اب تک پوری توجہ نہیں دی جارہی۔ ماسک لگانے کو اہمیت دی جارہی ہے نہ فاصلہ رکھنے کو۔ بازاروں میں جو ہجوم اب تک رہا ہے وہ اِس کی زندہ مثال ہے۔ بازار تو خیر اب بند کردیے گئے ہیں مگر بعض دوسرے اجتماعات کی راہ مسدود نہیں کی جاسکی ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں غریبوں کیلئے خیراتی دستر خوان عام ہیں۔ سَحری اور افطار کے وقت خیراتی کھانا کھانے والوں کی بھیڑ دیکھ کر کوئی بھی بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں شاید کورونا کی وبا نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی! بالخصوص افطار کے اوقات میں ایسے دستر خوانوں پر ایسی ہڑبونگ دکھائی دیتی ہے کہ عزتِ نفس رکھنے والوں کے سَر شرم سے نہ جھکیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں ابھی اور بہت کچھ ہونا ہے جو بڑی تبدیلیاں یقینی بنانے کی خاطر ہوگا۔ پاکستان کا شمار ایسے معاشروں میں نہیں ہوتا جو کسی بھی سطح پر مزاحمت کرنے کے قابل ہوں۔ ہمیں تو قدم قدم پر ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
والی کیفیت کا سامنا ہے۔ یہی ہماری موجودہ تقدیر ہے۔ اگر ہم اپنے لیے امکانات چاہتے ہیں، اپنی تقدیر کا معیار بہتر بنانا چاہتے ہیں تو کچھ ایسا کرنا پڑے گا جو دنیا کو دکھادے کہ ہم مثبت تبدیلیوں کے حق میں ہیں اور اُنہیں گلے لگانے کے لیے تیار بھی ہیں۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے والدین، اساتذہ، اہلِ دانش، اہلِ قلم، اہلِ فن سبھی کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے۔
عوام کو بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری تو ذرائع ابلاغ پر عائد ہوتی ہے۔ مثبت باتوں کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ اب منفی معاملات کو پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ رپورٹنگ ہو، تجزیہ یا تبصرہ ... ہر معاملے میں خالص مثبت سوچ اپنانا لازم ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات تو نہیں ہوسکتی۔ ہر بڑی تبدیلی مرحلہ وار آتی ہے۔ بنیادی شرط ہے نیت کا اخلاص اور بے لوث انداز سے ابتدا۔ اس رکاوٹ کو عبور کرلیا تو سفر کو جاری رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر کی کمزور اقوام کی طرح پاکستان کے لیے بھی یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ عوام کو سوچنا پڑے گا۔ معاشرتی اور معاشی سطح پر بہت کچھ نیا درکار ہے۔ زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ تو پھر کیوں نہ سوچ سمجھ کر کچھ کیا جائے؟ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی زندگی ہم سے شدید نوعیت کی سنجیدگی چاہتی ہے۔ اور ہم ہیں کہ شدید بے ذہنی کے گڑھے میں لڑھکتے جارہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب رکنا چاہیے۔ حکومت اور عوام دونوں سنجیدگی دکھائیں تاکہ ہوش میں نہ آنے کی وبا کا خاتمہ ہو اور نئی زندگی کی طرف سفر شروع ہو۔