ماضی پرستی ہر دور میں انسانی مزاج کا حصہ رہی ہے۔ آج بھی ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ اب ماضی پرستی مرض کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ کروڑوں نہیں‘ اربوں انسان گزرے ہوئے زمانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس کیوں کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ ماضی میں کھوئے رہنا، گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے دل کو تسلّیاں دیتے رہنا بھی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار ہی کی ایک صورت ہے۔ زندگی کا ہر پہلو چند تقاضوں کا حامل ہوتا ہے۔ ان تقاضوں کو پورا کرنا ہمارے لیے لازم ہوتا ہے۔ اگر ہم حقیقت کی دنیا سے نظر چرائیں اور کسی نہ کسی طور وقت گزارنے کی کوشش کریں تو وقت ہمیں گزارنے لگتا ہے۔ ہر دور کے انسان کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہا ہے اپنے عہد کی سچائیوں کا سامنا کرنا اور اُن سے مطابقت رکھنے والی حکمتِ عملی کے تحت زندگی بسر کرنا۔ جس نے عصری تقاضوں کو نظر انداز کرنے کی روش اپنائی اُس نے منہ کی کھائی۔
ہزاروں سال کے تعامل میں انسان نے بہت کچھ سیکھا ہے، بہت کچھ پایا ہے۔ دوسری طرف بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ جب کسی بھی شعبے میں پیش رفت ہوتی ہے تو بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ قدرت کے اِس اصول سے کسی بھی قوم، نسل یا معاشرے کو استثنا نہیں ملتا۔ ہر ناگزیر معاملہ ہوکر رہتا ہے۔ نافرمانی کرنے والوں کو سزا ملتی ہے اور جن پر ظلم ڈھایا جاتا رہا ہو اُنہیں اللہ کی طرف سے جزا عطا ہوتی ہے۔ اِسی کو مکافاتِ عمل بھی کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اجتماعی ہی نہیں‘ انفرادی سطح پر بھی ہوکر رہتا ہے۔ گزرتے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے دل کو سکون بخشنے کی کوشش کرنا انسانی مزاج کا لازمی جز ہے۔ ذہن یہی یقین دلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ ہر گزرا ہوا زمانہ بہتر تھا، بہت کچھ میسر تھا، بہت کچھ ہاتھ میں تھا۔ اور یہ کہ موجودہ زمانہ صرف خرابیوں سے عبارت ہے جسے گلے نہیں لگایا جاسکتا۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں فکشن رائٹرز اور اہلِ دانش بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ بیشتر لکھاری عوام کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھتے ہیں یعنی انہیں باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ (قارئین) قصور وار نہیں، یہ دور ہی خراب ہے۔ کہانیوں، ناولوں اور تجزیوں کے ذریعے عام آدمی کو یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اُس کی زندگی میں پائی جانے والی خرابیاں ناگزیر ہیں کیونکہ وہ غلط عہد میں غلط مقام پر پیدا ہوا ہے۔ فکشن لکھنے والوں کا تو کام ہی یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو ایک خیالی دنیا کی سیر کرائیں جس میں ناممکن کو ممکن بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ زندگی کے بنیادی مسائل سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کرنے پر متوجہ ہونے کے بجائے بیشتر فکشن رائٹرز خیالی دنیائیں آباد کرکے پڑھنے والوں کو اُن کی سیر کراتے ہیں۔ یہ خیالی دنیائیں سرکاری ٹی وی کے خبرناموں کی طرح ہوتی ہیں جن میں ہر طرف سب کچھ اچھا ہی اچھا چل رہا ہوتا ہے۔
ماضی پرستی کے رجحان کو لکھاری اپنے حق میں خوب استعمال کرتے ہیں۔ عام قارئین بھی ایسا فکشن پڑھنا چاہتے ہیں جس میں مسائل سے لڑنا نہ پڑے بلکہ کوئی سُپر مین ٹائپ کا کردار تمام مسائل حل کردے۔ ایسا کردار پیدا کرنا فکشن رائٹرز کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ یہی تو اُن کا دھندا ہے یعنی پڑھنے والوں کو حقیقی دنیا کی تلخیوں سے دور لے جاکر ایک خیالی جنت کی سیر کرانا جس میں تمام معاملات اپنے مرضی کے ہوں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں گزرے ہوئے ادوار کا اچھا لگنا فطری امر ہے۔ ویسے یہ لازم نہیں کہ ہر گزرا ہوا زمانہ اچھا ہو۔ ماضی میں عام آدمی کو بہت کچھ میسر نہ تھا۔ آج اُس کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جس کا کل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ مقامِ شکر ہے۔ اللہ نے ہمیں جن نعمتوں سے نوازا ہے اُن کا شکر ادا کرنے ہی میں ہمارے لیے خیر کا سامان ہے۔دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ بدلتی ہوئی دنیا ہم سے بھی بدلنے کا تقاضا کرتی ہے۔ کامیاب وہی رہتے ہیں جو اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے اور اُن کے مطابق تبدیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ تبدیلی ہی وہ حقیقت ہے جو انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتی ہے۔ آج ہم دنیا میں جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ تبدیلی کے رجحان کا ثمر ہے۔ ہر دور کے بہت سے انسانوں نے ماحول کے مطابق تبدیل ہونے کا سوچا اور پھر عمل کی راہ پر چل پڑے۔ اس کے نتیجے میں بہت کچھ ایجاد اور دریافت ہوا۔ اگر ہر دور کے لوگ آج کے عام آدمی کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے اور گزرتے ہوئے زمانوں کو یاد کر کرکے ہلکان ہوتے رہتے۔ یوں آج ہمیں زیادہ تبدیلیاں دکھائی نہ دے رہی ہوتیں، ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے والی بہت سی اشیا نہ ہوتیں۔
زندگی کا انتہائی بنیادی تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ ہے اُسے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ہر دور اپنے ساتھ چند مسائل لے کر آتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے ہی سے بات بنتی ہے، زندگی کے نئے اور خوش نما پہلو سامنے آتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جو صرف تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ تمام معاملات آپس میں جڑے ہوئے ہیں اس لیے کسی ایک معاملے کی خرابی بہت سے معاملات میں خرابی پیدا کردیتی ہے۔ ہر دور میں خرابیاں زیادہ رہی ہیں اور اچھائیاں کم۔ یہ انتظام کی قدرت کی طرف سے ہے تاکہ انسان تگ و دَو کے ذریعے زندگی کا معیار بلند کرنے پر متوجہ رہے۔ماضی میں گم رہنا خوش کُن تصور ہے مگر یہ زندگی کے مسائل کا حتمی اور پائیدار حل نہیں۔ کسی بھی گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرنے میں بھی قباحت نہیں مگر اُس میں گم ہوکر رہ جانا زندگی کو داؤ پر لگانے جیسا ہے۔ ہر دور کی چند حسین یادیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے ایک خاص حد تک دل بہلایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی دور کی حسین یادوں میں گم رہیں تو زندگی کی حقیقتوں کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا اور یوں مسائل بڑھتے جائیں گے۔
ماضی پرستی کے حوالے سے اپنی زندگی کو پیچیدہ تر بنانے والے یہ نکتہ ذہن نشین رکھیں کہ ہر دور کی چند اچھائیاں اور چند برائیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں اچھائیوں کے چھوٹ جانے کا غم تو ہوتا ہے مگر بُرائیوں سے نجات پانے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ یوں گزرا ہوا زمانہ ہمیں خواہ مخواہ جکڑے رہتا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ زندگی ہم سے بھرپور توجہ چاہتی ہے۔ ایسا ہم اُسی وقت کرسکتے ہیں جب گزرے ہوئے زمانے میں غیر ضروری طور پر گم رہنے سے گریز اور پرہیز کریں۔ ہمیں یہ بات کسی طور نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور یہ صدی غضب ناک حد تک حقیقت پسندی کی صدی ہے۔ دو تین صدیوں پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ کوئی گِرتا تھا تو سنبھل بھی جاتا تھا، اٹھ بھی جاتا تھا۔ آج معاملہ یہ ہے کہ جس نے حقیقت پسندی سے کام نہ لیا اور زندگی کے عملی تقاضے نبھانے سے گریزاں رہا وہ بہت پیچھے رہ گیا۔ آج گِر کر اٹھنے اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا انتہائی دشوار ہے۔ ماضی میں گم رہنا محض رجحان نہیں، نفسی پیچیدگی بھی ہے۔ یہ پیچیدگی خود بخود دور نہیں ہوتی بلکہ کرنا پڑتی ہے۔ نفسی امور کے ماہرین سے مشاورت کے ذریعے ''ناسٹیلجیا‘‘ (ماضی پرستی) پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ کہنے کی حد تک آسان ہے۔ ماضی سے جان چھڑانے کی راہ پر سفر شروع کیجیے تب آٹے دال کے بھاؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔
آج کا انسان غیر معمولی ذہنی الجھنوں کا شکار ہے۔ بہت سے معاملات ذہن کو ہر وقت گھیرے رہتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے ہمارے وقت کا اچھا خاصا حصہ ڈکار جاتے ہیں۔ لوگ اچھی اور بُری یادوں میں کھوئے رہتے ہیں اور عمل کا وقت گزر جاتا ہے۔ وقت کی دولت ہمیں اِس لیے عطا نہیں کی گئی کہ گزرتے ہوئے زمانوں کی یادوں میں گم ہوکر اِسے ضائع کردیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ زمانے کی سچائیوں کو سمجھ کر اُن سے مطابقت رکھنے والے اعمال یقینی بنائے جائیں۔ یہی رویہ ہمیں ''مگر وہ پہلے جیسی بات نہیں‘‘ کے دائرے سے نکال سکتا ہے۔