"MIK" (space) message & send to 7575

مزید خرابی کی گنجائش نہیں!

پاکستان مجبوریوں اور مصلحتوں کا ستایا ہوا ہے۔ ایک طرف غیروں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تو رہی سہی کسر خود ہم نے پوری کردی۔ ہم نے کبھی قومی سلامتی اور بھرپور ترقی و خوش حالی یقینی بنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ کام چلاؤ ذہنیت ہمیں وہیں پہنچا سکتی تھی جہاں اِس وقت ہم کھڑے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لیے کام چلاؤ ذہنیت سلامتی کی ضامن ہوسکتی ہے اور نہ ہی ترقی و خوش حالی یقینی بنانے میں کوئی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایک زمانے سے ہم دوسروں کی بندوق کے لیے اپنا کاندھا پیش کرتے آئے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر ہمیں سات عشروں سے مختلف معاملات میں الجھایا ہوا ہے۔ سفارتی سطح پر ہماری مشکلات بڑھتی ہی گئی ہیں۔ کسی بھی قوم کے لیے مختلف النوع مشکلات اُسی وقت پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہیں جب معاملات پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جائے۔ ہمارے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم نے جب قومی معاملات کو عدم توجہ کی نذر کیا اور اپنے مفادات کو بھول کر لایعنی معاملات کو بلا جواز طور پر توجہ دینے کی روش اپنائی تب معاملات بگڑتے گئے۔ ہم نے دوسروں کی جنگ کے لیے اپنے سرزمین کو میدان کے طور پر پیش کرنے سے بھی احتراز نہیں کیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب ملک کے سیاہ و سفید کے مالک اپنی ذمہ داریاں بھول جائیں اور معمولی نوعیت کے ذاتی، انفرادی یا گروہی مفادات کی خاطر ملک و قوم کو گروی رکھنے سے بھی گریز نہ کریں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلم دنیا کو گھیرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا تب ہم ''نگاہِ انتخاب‘‘ کے لیے پسندیدہ ٹھہرے۔ افغانستان سے قربت نے ہمیں اُس مقام پر لا کھڑا کیا کہ اگر ہم امریکا اور اتحادی افواج کا ساتھ دینے سے انکار کرتے تو ہمیں ناپسندیدہ ملک کا درجہ دیے جانے میں ذرا دیر نہ لگائی جاتی اور ایسی صورت میں کیا ہوتا‘ اِس کا اندازہ ہر اُس انسان کو ہوسکتا ہے جو علاقائی و عالمی سیاست کے نشیب و فراز پر نظر رکھنے کا شوقین ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا اور یورپ کی بندوق کو اپنا کاندھا دیا۔ بس یہی وہ غلطی تھی جس نے قوم کو بربادی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ امریکا کو ہوائی اڈوں تک رسائی بھی دی گئی‘ نیٹو سپلائی کے نام پر پاکستان کی سرزمین استعمال ہوئی۔ اس کا جو بھیانک نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا وہ برآمد ہوا اور ہم نے وہ نتیجہ خوب بھگتا۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ پاکستان اپنی راہ بدلے؟ یقینا اب اس بات کی گنجائش نہیں کہ پاکستان دوسروں کی لڑائی میں حصہ دار بنے۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں فوجی اڈوں کے حوالے سے جو دوٹوک بیانات دیے ہیں وہ ہر اعتبار سے قوم کی امنگوں کے ترجمان ہیں۔ پہلے ایک انٹرویو میں انہوں نے امریکا کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کیا اور اب انہوں نے امریکا کے معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکا کو ہوائی اڈے دیے تو پاکستان میں دہشت گردی بڑھے گی اور ملک کی اندرونی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔ وزیر اعظم نے لکھا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کے دوران پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا۔ 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانیں گئیں اور اس کے عوض امریکا نے پاکستان کو صرف 20 ارب ڈالر کی امداد دی جبکہ پاکستانی معیشت کو کم و بیش 150 ارب ڈالر کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔
امریکا کی پالیسیوں کو قبول کرنے کی پاداش میں ہمیں ایسا بہت کچھ کرنا پڑا جو کسی بھی اعتبار سے ہمارے مفاد میں نہ تھا۔ پاکستان نے چونکہ امریکا کے ''نان نیٹو اتحادی‘‘ کا کردار ادا کیا تھا اس لیے اس کے دشمنوں کی نظر میں پاکستان بھی دشمن تھا۔ امریکا نے افغانستان میں جنگ کے نام پر خطے کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں پاکستان کو استعمال کیا۔ چین اور روس کو دباؤ میں رکھنے کی خاطر افغانستان میں امریکی و یورپی افواج کا موجود رہنا لازم تھا۔ اب چونکہ یہ ضرورت بہت حد تک پوری ہوچکی ہے اس لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بوریا بستر لپیٹ لیا ہے۔ وار آن ٹیرر میں پاکستان کے کردار نے ہی اسے افغانوں کی نظر میں معتوب ٹھہرایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایک بار پھر وہی غلطی دہرائیں گے جس نے ہمیں دو عشروں تک تباہی سے دوچار رکھا؟
امریکا نے افغانستان میں لڑی جانے والی نام نہاد جنگ کو وہیں تک محدود نہیں رکھا بلکہ پاک افغان سرحدی علاقوں کو بھی تاراج کیا۔ پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ سرحدی علاقوں میں فوج بھیجی جائے۔ اس کے نتیجے میں وزیرستان اور اس سے ملحق علاقوں میں دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے، پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ وزیر اعظم نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان نے مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والی جنگ کے معاملے میں بہت کچھ جھیلا ہے۔ مزید کچھ برداشت کرنے کی گنجائش نہیں! مزید یہ کہ افغان پورے ملک کو فتح نہیں کرسکتے یعنی افغانستان کا فوجی حل ممکن نہیں۔ معاملات بات چیت ہی کے ذریعے طے کیے جاسکتے ہیں۔ افغانستان میں چند جماعتوں کو پسند یا منتخب کرکے غلطی کی گئی۔ اس غلطی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب وہاں ہمارا پسندیدہ گروپ کوئی نہیں۔ افغانستان میں عوام کی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا کے فوجی انخلا کے بعد پاکستان کے لیے بہترین آپشن یہ ہے کہ وہاں مزید تنازعات میں الجھنے سے دامن کش رہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کسی بھی اعتبار سے افغانستان کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ہاں! سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کے نام پر وہاں طاقت کے محاذ پر مہم جوئی کی اب زیادہ گنجائش نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کے بہت سے علاقے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔امریکا کو فوجی اڈوں کی ضرورت ہے مگر سوال یہ ہے ان اڈوں کی مدد سے وہ کون سے مقاصد حاصل کرسکے گا۔ افغانستان کی سرزمین پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج دو عشروں تک رہی ہیں مگر اس کے باوجود مطلوب نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ امریکا کسی نہ کسی بہانے اب بھی اس خطے میں رہنا چاہتا ہے۔ ایک طرف تو وہ پاکستان اور افغانستان پر نظر رکھے گا۔ دوسری طرف وہ چین اور روس کے لیے بھی دیوار چُننے کی کوشش کرے گا۔ بھارتی قیادت اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ امریکا اُس کا طرف دار ہے تو یہ محض خوش فہمی ہے۔ امریکا کو جنوبی ایشیا پر نظر رکھنی ہے اور اس کے لیے وہ افغانستان اور پاکستان کو سٹیشن کے طور پر بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ افغانستان کسی بھی طور دوبارہ انتہا پسندوں کا گڑھ نہ بنے۔ افغان سرزمین سے پاکستان کو بھی نقصان کا سامنا رہا ہے۔ امریکی ڈرون حملوں نے پہلے بھی ہمارے معاملات خراب کیے ہیں اور اگر اب پھر نرمی یا مصلحت پسندی دکھائی گئی تو نتیجہ خرابی ہی کی صورت میں برآمد ہوگا۔ افغانستان میں خانہ جنگی سے پاکستان کو ایک بار پھر پناہ گزینوں کا بوجھ سہنا پڑے گا۔
وزیراعظم کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ امریکا کو فوجی اڈے فراہم کرنے کا امکان مسترد کرکے انہوں نے قوم کی ترجمانی کی ہے۔ افغانستان کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ وہاں کی آگ ہمارے آنگن تک نہ پہنچے۔ 1979ء میں سوویت افواج کی لشکر کشی کے بعد سے اب امریکی افواج کے انخلا تک پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں بہت کچھ جھیلا ہے۔ اب ہمیں اپنے مفادات سے ہم آہنگ پالیسیاں اپنانا ہیں۔ وزیراعظم کو کوئی بھی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔ امریکا کو اڈے دینے سے انکار پر مبنی مؤقف انہیں ہر حال میں برقرار رکھنا ہے۔ یہ معاملہ ان کے سیاسی کیریئر کو بھی مضبوط کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں