ہم زندگی بھر مختلف النوع خیالات کا جھولا جُھولتے رہتے ہیں۔ کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو سوچ بچار کے نام پر پیدا ہونے والی الجھنوں سے آزاد ہو۔ جب تک سانسوں کا تسلسل قائم ہے تب تک خیالات سے نجات ممکن نہیں۔ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ سوچ ہی سے تو انسان کو انسانیت کا مقام ملا ہے۔ دیگر حیوانات فکر و نظر سے عاری ہیں۔ انسان کو دیگر حیوانات سے ممتاز کرنے والی صفت ہے تفکر‘ یعنی جس میں فکر و نظر کی صفت نہیں وہ انسان ہوتے ہوئے بھی انسان ہرگز نہیں۔
ہر دور کے انسان کو مختلف النوع خیالات کا سامنا رہا ہے۔ خیالات کے بطن سے سوال جنم لیتے ہیں۔ سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش انسان کے ذہنی یا فکری سفر کو آگے بڑھاتی ہے۔ یہ تفکر ہی تو ہے جو انسان کی ذہنی سطح بلند کرتا ہے۔ ہر دور کے انسان کو سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش نے بہت کچھ دیا ہے اور یہ سب کچھ آج اجتماعی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ ڈیوڈ روتھکوف نے اپنی کتاب ''دی گریٹ کویسچنز آف ٹومارو‘‘ میں سوالوں کی اہمیت پر بحث کی ہے۔ اُس کا استدلال ہے کہ سوالوں کی نوعیت ہی اس امر کا تعین کرتی ہے کہ ہمارا ذہن کس سمت سفر جاری رکھے گا اور ہم بالآخر کہاں پہنچیں گے۔ ڈیوڈ روتھکوف مذہباً یہودی ہے‘ والدین کے سوا اُس کے تمام رشتہ دار دوسری جنگِ عظیم کے دوران آسٹریا اور جرمنی میں نازیوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے تھے۔ روتھکوف کے والد نے بھی پولینڈ کے ایک ''مرکزِ اذیت‘‘ میں خاصا کٹھن وقت گزارا۔ اس مرکز میں گزارے وقت کو روتھکوف کے والد نے خاصے مثبت انداز سے بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ ان مراکز میں حالات انتہائی حوصلہ شکن تھے‘ بیشتر کا حوصلہ جواب دے گیا‘ بہت سے ایسے تھے جو ان مراکز سے جان چھوٹنے پر بھی نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل نہ ہوسکے اور مرتے دم تک ذہنی الجھنوں کا شکار رہے۔ روتھکوف کے والد مختلف تھے۔ بقول مصنف‘ اُن کے والد نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ انسان کو کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہمیشہ اچھے دنوں کے انتظار میں جینا چاہیے۔ یہ سب کچھ کہنے کی حد تک بہت آسان ہے مگر جب عمل کی راہ پر گامزن ہونے کی باری آتی ہے تب اعصاب جواب دے جاتے ہیں، حواس مختل ہونے لگتے ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو کہنے میں اچھا لگتا ہے مگر کرنے کا سوچیے تو بے حواسی دل و دماغ کو اپنے شکنجے میں جکڑنے لگتی ہے۔ جن لوگوں نے نازیوں کے ہاتھوں انسانیت سوز مظالم کا سامنا کیا اُن میں سے بیشتر مرتے دم تک ذہنی الجھنوں کا شکار رہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ تھا کہ اُن کے رشتہ داروں کی اکثریت کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ یہ ایسی حقیقت تھی جس نے تادمِ مرگ پریشان رکھا اور وہ اپنے پیاروں کو یاد کرکے روتے رہے۔
ڈیوڈ روتھکوف لکھتے ہیں کہ شدید نوعیت کی ذہنی الجھنیں پیدا کرنے والے حالات کا سامنا کرنے پر بھی اُن میں زندہ رہنے اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ جوان رہا جو سوچنے کے عادی تھے۔ جن کے ذہنوں میں سوال ابھرتے تھے وہ مختلف حوالوں سے امکانات کے بارے میں سوچتے تھے اور یوں اُن کے ذہنوں کو آگے بڑھنے کی راہ ملتی تھی۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سی پیچیدگیاں لاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے اور بعد کا زمانہ بھی اپنے جِلو میں بہت سی الجھنیں لے کر نمودار ہوا۔ اِن الجھنوں نے ایک طرف بہت سوں کو مزید الجھادیا اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل نہ رہے جبکہ دوسری طرف اِنہی الجھنوں نے دوسرے بہت سے لوگوں کو زندہ رہنے کی نئی لگن سے ہمکنار کیا۔ یہ نئی لگن اُن میں پیدا ہوئی جنہوں نے حالات کے آگے سِپر ڈالنے سے انکار کردیا تھا اور مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ ہر طرح کے حالات میں پوری طرح پُرامید رہتے ہوئے جئیں گے۔ مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں انسان کو پُرامید رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی راہ صرف درست سوالوں کی مدد سے دکھائی دیتی ہے۔ ہر دور بہت سی الجھنیں لاتا ہے۔ یہ الجھنیں ہمیں سوچنے کی تحریک دیتی ہیں۔ دل چاہے یا نہ چاہے، سوچنا پڑتا ہے۔ جو سوچتے ہیں وہی پاتے ہیں، اُنہی کو آگے بڑھنے کی راہ اور تحریک عطا کی جاتی ہے۔ بدترین حالات کا سامنا کرنے والوں میں مایوسی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ قدرت کا انتظام بھی عجیب ہے۔ جو حالات مایوسی پیدا کرتے ہیں اُنہی کی مدد سے انسان آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی پاتا ہے۔ حواس کو مختل کردینے والے معاملات سوچنے اور سمجھنے کی تحریک بھی عطا کرتے ہیں۔ یہ تحریک ادراک تک لے جاکر انسان کو حقیقی راہِ عمل سُجھاتی ہے۔
اپنی کتاب میں روتھکوف نے جن حوصلہ شکن حالات کا ذکر کیا‘ اُن کا سامنا برِصغیر کے مسلمان، ہندو اور سِکھ بھی کرچکے ہیں۔ 1947 میں پاکستان کے قیام اور انگریزوں کے رخصت ہونے کے وقت جو فسادات رونما ہوئے تھے اُنہوں نے لاکھوں انسانوں کو ہمیشہ کی اذیت سے دوچار کیا۔ ہزاروں گھرانوں کو اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ جھیلنا پڑا۔ بھارت سے ہجرت کرکے نوزائیدہ پاکستان آنے والوں میں بہت سے ایسے تھے جن کے گھر کا کوئی اور فرد نہیں بچا تھا۔ شدید دُکھ اور ذہنی اذیت کی گھڑی میں بھی ایسے لوگوں نے مایوسی کو اپنے حواس پر سوار نہیں ہونے دیا اور پوری تابندگی و توانائی کے ساتھ زندہ رہنے کو ترجیح دی۔ جب پاکستان قائم ہوا تھا تب کچھ بھی ٹھکانے پر نہ تھا۔ ترقی کی بات تو رہنے ہی دیجیے، معمول کی زندگی یقینی بنانا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ایسے میں دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا ہی اولین ترجیح تھی اور لوگ اِس سے آگے کا کچھ سوچتے بھی نہیں تھے۔ اس کے باوجود زندہ رہنے کی لگن نہ صرف یہ کہ برقرار رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تواناتر ہوتی گئی۔ آج معاشرہ پنپ چکا ہے مگر انفرادی سطح پر عمومی ذہنی حالت یہ ہے کہ (اپنی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں کے ہاتھوں) تھوڑی بہت مالی پریشانی گھیر لے تو لوگ مایوسی ہوکر خود کشی تک کرلیتے ہیں! مذکورہ کتاب میں اِس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ انسان کو عصری تقاضوں سے منہ نہیں موڑنا چاہیے اور جن معاملات پر سوچنا لازم ہے اُن کے بارے میں سوچتے رہنا چاہیے۔ وہ سوچنے کے لیے سوالوں کو غیر معمولی مقام دیتے ہیں۔ مصنف کا استدلال ہے کہ ذہن کے پردے پر سوالوں کے ابھرنے ہی سے سوچنے کی راہ سُوجھتی ہے، کسی نتیجے تک پہنچنے کی تحریک ملتی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ انسان جب سوچنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو عمل کی طرف لے جانے والی راہ بھی سُوجھتی ہے۔ محض پریشان ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی کا معیار سوچنے کے عمل سے بلند ہوتا ہے۔
صاحبِ کتاب کی فکری کاوش کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم ایک انتہائی پیچیدہ دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور کی پیچیدگیاں ہمیں فکر و نظر سے دور لے جارہی ہیں جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سوچنے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن کے لیے الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ الجھنیں قدم قدم پر ہمارے لیے راہِ عمل میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ایسے میں کامیاب وہی ہوسکتا ہے جو مایوس ہونے کے آپشن کو ترک کرکے پُرامید رہے اور مثبت سوچ کے ساتھ سوال تلاش کرتا رہے۔ ہر شعبے میں نئی سوچ درکار ہے اور یہ نئی سوچ سوالوں کے ابھرنے ہی سے پنپ سکتی ہے۔ سوال ہوں گے تو اُن کے جواب بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ہر کوشش نئی سوچ کی طرف لے جاتی ہے، راہِ عمل کو آسان بناتی ہے۔ کسی بھی بحرانی کیفیت کے بطن سے محض الجھنیں نہیں، سوال بھی جنم لیتے ہیں۔ سوالوں کے جواب تلاش کرنے سے پورے عہد کو سمجھنا ممکن ہو پاتا ہے۔ روتھکوف نے اِس نکتے پر بھی زور دیا ہے کہ کسی بھی صورتِ حال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کو متعلقہ تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔ ہماری خواہشات اور اُمیدوں کا معاملہ کچھ اور ہے اور زمینی حقیقت کچھ اور شے ہے۔ سوچنے کے عمل میں مصروف رہتے ہوئے زمینی حقیقتوں کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ حقیقی بصیرت اور دانش کا یہی تقاضا ہے۔