زندگی چاہے جتنی بھی شکلیں بدل لے، اُس کی اصلیت تو وہی رہتی ہے جو واقع ہوئی ہے۔ زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہی زندہ تصور کیا جاتا ہے جو کچھ کرتا ہے۔ معیاری انداز سے جینے کا واضح ترین مفہوم ہے عمل سے بے پناہ محبت اور قابلِ ستائش انداز سے اس کا اظہار! جو اس دنیا کو کچھ دینے پر یقین نہیں رکھتا ہے‘ اُسے کچھ لینا بھی نہیں چاہیے۔ ہر دور میں وہی لوگ محترم ٹھہرائے گئے ہیں جنہوں نے جہدِ مسلسل کے ذریعے اپنی زندگی کا معیار بلند کیا ہے، اپنے وجود کی معنویت ثابت کی ہے۔ جینے کے سو ڈھنگ ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں مگر ہر وہ ڈھنگ اچھا ہے جو انسان کو دوسروں سے ممتاز اور زیادہ مفید ثابت کرے۔ اس دنیا میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد ایسے ہیں جنہیں کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے کچھ خاص محنت نہیں کرنا پڑتی۔ انہیں بہت کچھ کسی خاص جدوجہد کے بغیر مل جاتا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیجیے گا تو اندازہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کی زندگی خالی ڈبے کے مانند یعنی کھوکھلی ہوتی ہے۔ جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو زندگی میں ادھورا پن نمایاں ہونے لگتا ہے۔ ایسے لوگ کسی کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے کیونکہ ان میں کام کرنے اور دوسروں کے لیے مفید ثابت ہونے کی یا تو لگن پائی ہی نہیں جاتی یا پھر بہت نچلی سطح پر ہوتی ہے۔
اپنے ماحول پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے یا کسی بھی دور کے اور کسی بھی معاشرے کے انسانوں کے بارے میں پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ حقیقی پُرلطف زندگی اُن کی ہوتی ہے جو جہدِ مسلسل کے ذریعے زندگی میں معنویت کا تناسب بڑھانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ محنت و مشقت سے جان چھوٹ جائے اور سب کچھ آسانی سے دستیاب ہو۔ جو لوگ دن جسم و جاں کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں وہ کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ بیٹھے بیٹھے سبھی کچھ مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ وہ غیر معمولی دولت کے حامل افراد اور گھرانوں کی طرف رشک کی نظر سے دیکھتے اور اُن کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی معاملات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے۔ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے معاملات کو شدید الجھن والا اور دوسروں کے معاملات کو آسان سمجھتا ہے مگر جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا ہے تب لگ پتا جاتا ہے۔ اہلِ دانش نے اس نکتے پر بہت زور دیا ہے کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد اور معنی خیز بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے پر یقین رکھنا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان نے جو کچھ اس دنیا سے پایا ہے اس کے بدلے میں اِسے بھی کچھ دے، کچھ ایسا کرے جو زندگی کی معنویت بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔ اس طرف کم ہی لوگ متوجہ ہوتے ہیں اور جو ہوتے ہیں انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
مصروفیت انسان کو ذہنی سطح پر بھی متوازن رکھتی ہے اور جسم کو بھی استحکام بخشتی ہے۔ محنت کرنے سے جی نہ چُرانے والوں کو حتمی تجزیے میں خوش اور ضمیر سے مطمئن ہی دیکھا گیا ہے۔ یہ اس کائنات کا ایک بنیادی اصول ہے کہ یہاں آئے ہیں تو کچھ کرکے جائیں۔ دنیا کو بہتر بنانے کی لگن اور اُس سے مطابقت رکھنے والی محنت زندگی کو ایسی معنویت بخشتی ہے جو کسی بازار میں نہیں ملتی۔ قدرت نے چند معاملات کو قدر و قیمت سے بلند رکھا ہے۔ بازار میں بہت کچھ دستیاب ہے مگر سب کچھ نہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے وجود کو معنویت اور تقویت بخشنے کے لیے ناگزیر ہے مگر بازار میں نہیں ملتا۔ محنت کرنے کی لگن اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کی جانے والی ہر کوشش بھی اِسی ذیل میں آتی ہے۔ کچھ نہ کچھ کرنے کی لگن ہی انسان کو مرتے دم تک مقصدیت اور معنویت سے ہم کنار رکھتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ یہ دنیا صرف اور صرف لیاقت و محنت سے عبارت ہے۔ وہی لوگ عظیم کہلانے کے مستحق ہیں جو اپنے اندر کسی بھی حوالے سے قابلیت پیدا کرتے ہیں اور پھر اُس قابلیت کو بروئے کار لانے کی خاطر بھرپور محنت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ صلاحیت کو پروان چڑھاکر لیاقت پیدا کرنے اور پھر اُس سے مطابقت رکھنے والی لگن کے ساتھ محنت کو شعار بنانے والوں کو آپ ہمیشہ روحانی طور پر مطمئن اور دُنیاوی طور پر کامیاب پائیں گے۔
آج بہت کچھ ہے جو حاصل کرکے زندگی کی معنویت بڑھائی جاسکتی ہے مگر انسان کا ایک بڑا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاطر خواہ محنت کے بغیر ہی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر دور کے انسان کو کچھ پانے کے لیے کچھ کرنا پڑا ہے۔ آج کا انسان چاہتا ہے کہ کم سے کم محنت میں بہت کچھ حاصل ہو جائے اور زندگی آسان ہو جائے۔ کچھ زیادہ کیے بغیر بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش انسان کو بربادی کی طرف لے گئی ہے۔ آج کے انسان میں نفسی اور روحانی سطح پر خلا پایا جاتا ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ قدرت کے طے کردہ راستے سے ہٹ کر چلنا چاہتا ہے اور اِس بات کی چنداں پروا نہیں کرتا کہ ایسی حالت میں زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔ قدرت نے ہر انسان کے لیے وہی اصول رکھا ہے جو برتن کی تہہ میں موجود پانی نکالنے والے کوے کے لیے طے کیا ہے ؎
یہ قصہ تو سب کا ہے / برتن، پانی، کنکر، کاگ
پوری توجہ، سنجیدگی اور دیانت سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر انسان کو برتن، پانی، کنکر اور کاگ (کوا) والا مرحلہ قدم قدم پر درپیش رہتا ہے۔ جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں اُنہیں بھی زندگی کی معنویت بڑھانے اور مقصدیت ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ اپنے حالات کو خندہ پیشانی سے قبول نہیں کرتے وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہتے ہیں کہ زندگی نے اُن پر رحم نہیں کیا یعنی نصیب میں صرف تگ و دَو لکھ دی گئی ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنے حالات سے توجہ ہٹاکر دوسروں کے مسائل کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ آسانی کسی کے لیے نہیں رکھی گئی۔ ہاں! سب کے نصیب کی پریشانیاں الگ الگ نوعیت کی ہیں۔ جن کی جیب خالی ہے وہ مطمئن رہیں کہ جن کی تجوریاں سونے چاندی سے بھری ہیں اُن کی پریشانیاں بھی کم نہیں۔ زندگی کا حقیقی حُسن اس حقیقت میں مضمر ہے کہ انسان کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہو۔ جنہیں والدین کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر دولت ترکے میں ملتی ہے اُن میں سے بیشتر کو کھوکھلی زندگی بسر کرتے اور بہت سوں کو جلد یا بدیر بربادی کے گڑھے میں گرتے دیکھا گیا ہے۔ جب انسان یہ سوچ لے کہ کھانے پینے، رہنے سہنے کا بھرپور انتظام ہوگیا ہے، اب کرنے کے لیے کچھ نہیں رہا تب زندگی اُس گنّے کی سی ہو جاتی ہے جس سے سارا رس نچوڑ لیا گیا ہو۔ جب کچھ نہ کچھ کرتے رہنا لازم ہو تب انسان خاصی اطمینان بخش زندگی بسر کرتا ہے۔ کرنے کے لیے کچھ ہو تو زندہ رہنے میں دلکشی باقی رہتی ہے۔ وہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جو خاصی چھوٹی عمر میں یہ نکتہ سمجھ لیتے ہیں کہ جہدِ پیہم کے ذریعے زندگی کو زیادہ سے زیادہ دلکشی عطا کی جاسکتی ہے۔ کرنے کے لیے کچھ نہ رہے یا کچھ کرنے کی لگن ہی باقی نہ رہے تو سمجھ لیجیے اطمینان بخش زندگی کی منزل آپ سے دور ہوگئی۔
نئی نسل کو یہ نکتہ بہت چھوٹی عمر سے بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہی زندگی حقیقی معنوں میں زندگی ہے جو جہدِ مسلسل سے عبارت ہو۔ جو لوگ زندگی بھر مصروفِ عمل رہتے ہیں اُن کی روحانی بالیدگی اور نفسی اطمینان کا عالم کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اُن کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ بھرپور اطمینانِ قلب کے ساتھ جیتے ہیں اور کم و بیش ہر معاملے سے حقیقی لطف پاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی بھی مشکل صورتِ حال اُنہیں زیادہ پریشان نہیں کرتی۔ زندگی کے حُسن کی سطح بلند کرتے رہنے کی کوشش کیجیے۔ اس کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ چند واضح اہداف و مقاصد کا تعین کیا جائے اور پھر اُن کا حصول یقینی بنانے کی جدوجہد بھی کی جائے۔ حقیقی اطمینان برتن، پانی، کنکر، کاگ والی صورتِ حال کے برقرار رہنے میں پوشیدہ ہے۔