جب تک دم میں دم ہے، انسان ہے اور محنت و مشقّت ہے۔ ہر انسان کو مرتے دم تک کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ محنت سبھی کرتے ہیں اور اُس کا معاوضہ یا اجر بھی پاتے ہیں مگر محنت کے ساتھ ساتھ توقیر بھی ملے تو کیا بات ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بھرپور محنت کے صلے، معاوضے یا اجر کے ساتھ ساتھ توقیر اور نیک نامی بھی کس کے حصے میں آتی ہے، کسے یاد رکھا جاتا ہے؟ ہر اس انسان کو یاد رکھا جاتا ہے، کچھ زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو دوسروں کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے زیادہ مفید ہونے کی ایک اچھی صورت یہ بھی ہے کہ اِس دنیا کی خوبصورتی میں اضافہ کیا جائے۔ دنیا کی خوبصورتی بڑھتی ہے تنوع سے یعنی دوسروں سے ہٹ کر، کچھ مختلف کرنے سے۔ ہر اُس انسان کو غیر معمولی احترام ملتا ہے جو اس دنیا کی رنگینی میں تنوع کے ذریعے اضافہ کرتا ہے۔ یہ تنوع ہی تو ہے جو اس دنیا کو، آج کی اصطلاح میں، زیادہ ''قابلِ رہائش‘‘ بناتا ہے۔ جو لوگ تنوع ممکن بنانے پر یقین رکھتے ہیں وہ ہمیشہ دوسروں کی نظر میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ ہر دور میں اُنہی لوگوں کو بلند مقام ملا ہے جنہوں نے اِس دنیا کو کچھ نیا دینے کی کوشش کی ہے، معمول سے ہٹ کر کچھ کیا ہے۔ ہر شعبے میں وہی لوگ نمایاں ہوتے ہیں جو دوسروں سے ہٹ کر مختلف انداز سے کچھ کرتے ہیں۔ اگر کوئی بھرپور محنت کرے مگر تنوع پر توجہ نہ دے یعنی جیسا سب کر رہے ہیں ویسا ہی کچھ کرے تو داد ملتی ضرور ہے مگر صرف محنت کی۔ کچھ الگ سے کرنے والوں کو زیادہ داد ملتی ہے کیونکہ اُنہوں نے دنیا کو تھوڑا سا تو آگے ضرور بڑھایا ہوتا ہے۔
جو لوگ اپنے شعبے میں کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل جمود توڑنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جن شعبوں پر لوگوں کی توجہ زیادہ ہو اُن میں کچھ نیا کرنے والے تیزی سے مقبولیت اور قبولیت پاتے ہیں۔ 1970 کی دہائی کے آنے تک بالی ووڈ میں گھسی پٹی کہانیوں کی بھرمار تھی۔ فلمیں تو بہت بنتی تھیں مگر اُن میں کچھ خاص نہیں ہوتا تھا۔ لگے بندھے موضوعات پر فلمیں بنائی جاتی تھیں اور اداکاری بھی ایک خاص سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی تھی۔ سکرپٹس میں اس بات کی گنجائش برائے نام ہوتی تھی کہ کوئی اداکار کچھ ہٹ کر کچھ کرسکے۔ ایسے میں سلیم‘ جاوید یعنی سلیم خان اور جاوید اختر نے انٹری دی۔ انہوں نے سکرین رائٹنگ کا نیا انداز متعارف کرایا۔ کوشش یہ تھی کہ لوگوں کو بھرپور تفریح بھی ملے اور کچھ نیا بھی ہو۔ سلیم خان کہتے ہیں کہ جب وہ اور جاوید اختر سکرین رائٹنگ کی طرف آئے تب تک کہانی فلمائی جاتی تھی اور ایڈیٹنگ بھی اُسی کے مطابق ہوتی تھی۔ سلیم خان اور جاوید اختر نے مناظر کی بنیاد پر فلمیں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر منظر کو فلم کے سے انداز سے فلمایا جانے لگا یعنی ہر منظر کا ایک نقطۂ عروج بھی ہوتا تھا اور پھر اُس کا اختتام بھی اِس طور ہوتا تھا کہ اگلے منظر کی معنویت بڑھ جاتی تھی۔ سلیم‘ جاوید نے مکالمہ نگاری کو بھی نقطۂ عروج تک پہنچایا۔ زنجیر، دیوار، شعلے، ترشول، ڈان، کالا پتھر، دوستانہ، شان اور شکتی کے مکالنے لوگوں کو آج تک یاد ہیں۔ سلیم ‘جاوید کا اصل فن یہ تھا کہ انہوں نے پانسہ پلٹ دیا یعنی بالی ووڈ میں فلم میکنگ کا رجحان ہی بدل ڈالا۔ امیتابھ کو اینگری ینگ مین کے روپ میں پیش کرکے انہوں نے خود بھی لازوال کامیابی حاصل کی اور امیتابھ کو بھی انڈسٹری کے سپر سٹار کی حیثیت بخشی۔ایک زمانہ تھا جب کرکٹ بہت سست رفتار تھی۔ ڈھیلی ڈھالی بیٹنگ عام تھی اور تماشائی بھی اِس کے عادی تھے۔ تب بھارتی کرکٹ ٹیم میں سلیم دُرانی اور پاکستانی ٹیم میں وسیم راجا اور ظہیر عباس نمایاں تھے۔ 1980 کی دہائی میں بھی کرکٹ مجموعی طور پر خاصی سست رفتار تھی۔ چند ایک کھلاڑیوں نے تیزی دکھانے کی کوشش کی اور نمایاں ہوئے۔ ایک روزہ کرکٹ میں سعید انور، سنتھ جے سوریا اور عامر سہیل نے ابتدائی پندرہ اوورز میں تیزی سے رنز سکور کرنے کا رجحان متعارف کرایا۔ پہلے پندرہ اوورز بیشتر فیلڈرز دائرے کے اندر ہوتے تھے اور باقی میدان خالی پڑا رہتا تھا اس لیے ان کرکٹرز نے دائرے کا فائدہ اٹھانے کو ترجیح دی۔ 1980 کی دہائی کے ایک روزہ میچوں میں ابتدائی پندرہ اورز میں تیس پینتیس رن بنا کرتے تھے۔ سعید انور، جے سوریا، عامر سہیل اور اُنہی کے سے مزاج کے دوسرے کرکٹرز نے ابتدائی پندرہ اوورز میں مجموعی سکور کو 100 تا 125 رن تک لے جانے کے رجحان کی داغ بیل ڈالی۔ یہ رجحان پانسہ پلٹنے والا ثابت ہوا کیونکہ جن ٹیموں کے پاس ہارڈ ہٹر ہوتے تھے وہی میچ آسانی سے جیت پاتی تھیں۔
سعید انور، جے سوریا اور اُنہی جیسا مزاج رکھنے والے کرکٹرز نے گیم چینجرز کی حیثیت اختیار کی۔ اُن کی ''دھانسو‘‘ بیٹنگ مخالف کے گیند بازوں کو لائن اور لینتھ بھول جانے پر مجبور کردیتی تھی۔ اِس رجحان کو مزید مضبوط بنانے میں شاہد آفریدی، عبدالرزاق، عامر نذیر، شعیب ملک، ایم ایس دھونی، رکی پونٹنگ، لانس کلوزنر اور دوسرے بہت سے بلے بازوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اب کوئی بھی کرکٹ ٹیم بڑی اُسی وقت بن پاتی ہے جب اُس کے پاس میچ کا پانسہ پلٹنے والے گیند باز اور بلے باز ہوں۔ شاہد آفریدی نے بہت سے میچوں کو محض چند گیندوں پر زوردار بیٹنگ کے ذریعے کچھ کا کچھ بنا ڈالا۔ وہ کریز پر زیادہ دیر نہیں رہتے تھے مگر جب تک رہتے تھے تب تک مخالف ٹیم کے گیند باز پریشان رہتے تھے۔ بارہ‘ پندرہ گیندوں پر پینتیس چالیس رن بناکر شاہد آفریدی پویلین میں واپس پہنچ جاتے تھے مگر میدان میں تب تک سب کچھ الٹ‘ پلٹ ہو چکا ہوتا تھا!
ڈیڑھ دو عشروں کے دوران تمام بڑی کرکٹ ٹیموں میں ایسے کھلاڑی پائے گئے ہیں جو کرکٹ کے نام پر کچھ اور کھیلتے ہیں، جی داری سے کام لیتے ہیں اور انجام کی پروا کیے بغیر اپنے جوش و خروش کو بروئے کار لاتے ہوئے میچ کا پانسہ پلٹنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے کھلاڑیوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وکٹ پر زیادہ دیر ٹِکے رہنا اِن کے بس میں نہیں ہوتا مگر ہاں! یہ وکٹ پر آدھے پونے گھنٹے کے قیام کو بھی یادگار بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کو لوگ اس وقت یاد رکھیں گے جب آپ اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور وہ بھی تھوڑے مختلف انداز سے۔ ہر شعبے میں حقیقی کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو اُس شعبے کو بہتر بناتے ہیں، دوسروں سے کئی قدم آگے جاکر کچھ کر دکھاتے ہیں۔ ہر معاملے میں اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کس حد تک گیم چینجر ثابت ہوتے ہیں۔ گیم چینجر ثابت ہونے کے لیے آپ کو پانسہ پلٹنے کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔ یہ ہنر مشکل ضرور ہے‘ ناممکن نہیں! اگر ناممکن ہوتا تو گیم چینجرز کی آمد رک چکی ہوتی۔ ہر شعبے میں آج بھی ایسے لوگ آرہے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے دوسروں سے ہٹ کر بہت کچھ کرتے ہیں اور معاملات کو الٹ‘ پلٹ دیتے ہیں۔بہت کچھ ہے جو نئی نسل کو سیکھنا ہے۔ آج کے نوجوانوں میں جوش و جذبہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اُن میں تیزی کے ساتھ ساتھ عیاری بھی ہے۔ اس عیاری کو ذہانت اور متانت میں تبدیل کرنا ہے۔ جوش و خروش کو درست راہ دکھاکر زیادہ کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔ لاحاصل سرگرمیوں میں وقت اور توانائی ضائع کرنے والے نوجوانوں کو بتایا جاسکتا ہے کہ دنیا اُنہیں اُس وقت مانے گی جب وہ کچھ ایسا کر دکھائیں گے جو دوسروں نے نہ کیا ہو یا کرنے کا حق ادا نہ کیا ہو۔
آج ہر شعبے میں طرح طرح کے تجربے کیے جارہے ہیں۔ یہ ناگزیر ہے کیونکہ مسابقت کا دائرہ بہت پھیل چکا ہے۔ ایسے میں جو لگے بندھے انداز سے کام کرے گا وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ کامیاب وہی ہوگا جو پانسہ پلٹ سکتا ہو۔ کھیلوں کی دنیا اور شوبز سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے مثلاً یہ کہ کس طور دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنے کی صورت میں غیر معمولی کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ وہی کھلاڑی، اداکار، گلوکار اور اہلِ قلم زیادہ نام اور دام کماتے ہیں جو کچھ نیا کرکے معاملات کو پلٹنے کے ہنر میں مہارت رکھتے ہیں۔ تو پھر کیا ارادے ہیں آپ کے؟