"MIK" (space) message & send to 7575

ناگزیر تو کوئی بھی نہیں

کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ میلے کی ساری رونق اُس کے دم سے ہے۔ حتمی تجزیے میں کوئی بھی حقیقی فیصلہ کن عامل ہے نہ ہی ناگزیر حیثیت کا حامل۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ناگزیر ہے وہ ذرا قبرستان کا چکر لگائے۔ جو لوگ قبور میں ابدی نیند سو رہے ہیں اُن میں اکثریت اُن کی ہے جو خود کو ناگزیر سمجھا کرتے تھے!
غیر معمولی صلاحیت اور اوصاف کی بنیاد پر کوئی اگر ڈٹ کر محنت کرے‘ حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو زیادہ معنی خیز وجود بنانے پر متوجہ ہو تو بھرپور کامیابی ملتی ہے۔ ایسا ہر انسان غیر معمولی ستائش کا مستحق ہے۔ فی زمانہ کسی بھی شعبے میں اپنی الگ پہچان قائم کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ پہچان بنانا تو کسی بھی دور میں آسان نہ تھا۔ جب مواقع کم تھے تب ابھرنے کا موقع کم کم ملتا تھا۔ کسی بھی انسان کو نمایاں کرنے والے پلیٹ فارم خال خال تھے۔ ایسے میں کوئی بڑا موقع مشکل سے ہاتھ آتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع بے شمار ہیں اور ایسے پلیٹ فارم بڑی تعداد میں ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی اپنی صلاحیت کا لوہا آسانی سے منوا سکتا ہے۔ یہی تو مشکل ہے۔ صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ سبھی کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کر دکھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں نمایاں ہونا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ جب مواقع کم تھے تب بھی الگ سے پہچان بنانا مشکل تھا اور اب جبکہ قدم قدم پر صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع موجود ہیں تب بھی الگ سے پہچان بنانا دشوار ہے‘ بلکہ دشوار تر ہے۔ ایک دور تھا جو قِلّت سے عبارت تھا اور ایک یہ دور ہے کہ بہتات کا نمونہ ہے۔ ماحول جب بہتات سے دوچار ہو تب کچھ کر دکھانا زیادہ دشوار ہوتا ہے۔
کسی بھی معاشرے یا ماحول میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خود کو بیشتر معاملات میں ناگزیر سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنا شدید نوعیت کا ذہنی مرض ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو انسان کے مزاج میں کجی پیدا کرتا جاتا ہے۔ جب یہ کجی حد سے بڑھتی ہے تب انسان دوسروں کی نظر میں کھٹکتا ہے اور اپنے وجود کی راہ میں بھی دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ذہن کو متوازن اور معتدل رکھنا انتہائی ضروری اور انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بعض معیاری اور منافع بخش ادارے بہت تیزی سے زوال کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کسی کامیاب ادارے میں اچانک خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دیکھتے دیکھتے کاروباری دنیا میں اُس کی ساکھ خراب ہوتی چلی جاتی ہے؟ کسی بھی کامیاب ادارے کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں جن لوگوں نے جاندار و شاندار کردار ادا کیا ہو وہی اُس کی تباہی کا باعث بھی ثابت ہوتے ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب کوئی اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے کسی ادارے کی کامیابی یقینی بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے تب ذہن میں تھوڑی سی کجی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس کجی کا تعلق مغالطے سے ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کی ذہنی ساخت میں پیدا ہونے والا ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ اُس کے بغیر ڈھنگ سے کچھ ہو نہیں پائے گا!
اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے کا مغالطہ انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ کسی بھی کاروباری ماحول میں بہت سوں کی محنت مل کر مطلوب نتائج پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی صنعتی یونٹ کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ صرف ماہرین‘ انچارج اور انجینئرز ہی اہم نہیں بلکہ نچلی سطح پر کام کرنے والے بھی اہم ہیں اور بھرپور کامیابی میں اُن کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی ماحول میں چھوٹوں کا کردار نظر انداز کرنے سے تال میل بگڑتا ہے۔ اداروں کو چلانے میں تمام ہی ملازمین کی محنت کا ملا جلا کردار ہوتا ہے۔ اگر چند انتہائی باصلاحیت افراد یہ سمجھ بیٹھیں کہ ادارہ صرف اُن کے دم سے چل رہا ہے تو پھر وہ ادارہ چل چکا۔ کسی بھی ٹیم میں چند کھلاڑی زیادہ باصلاحیت ہوتے ہیں اور دوسروں سے زیادہ محنت کرنے اُنہوں نے اپنی مہارت کا گراف بھی بلند کیا ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ٹیم کے دیگر ارکان کو کمتر سمجھتے ہوئے اُنہیں نظر انداز کیا جائے‘ اُن کی تذلیل کی جائے۔ ایسی حالت میں پوری ٹیم کا مورال گرتا ہے۔
اپنے ماحول کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بہت سوں نے اپنے وجود کو محض اس مغالطے کے ہاتھوں برباد کرلیا کہ وہ ناگزیر ہیں اور دوسروں کی مدد کے بغیر بھی کوئی بڑا نتیجہ پیدا کرسکتے ہیں۔ ٹھوس اور ناقابلِ تردید زمینی حقیقت یہ ہے کہ حتمی تجزیے میں کوئی بھی تنِ تنہا کوئی بہت بڑی کامیابی یقینی نہیں بناسکتا۔ جس طور کسی معاملے میں متعدد عوامل مل کر کوئی بڑا‘ موافق نتیجہ یقینی بناتے ہیں بالکل اُسی طرح کسی بھی ٹیم کے تمام ارکان کی اجتماعی کارکردگی قابلِ رشک نتائج کی راہ ہموار کرتی ہے۔ کون کتنا ناگزیر ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ کسی بھی ٹیم سے سینئر کھلاڑی عمر زیادہ ہونے پر نکلتے جاتے ہیں‘ نئے اور باصلاحیت کھلاڑی آتے جاتے ہیں‘ مختلف مراحل سے گزر کر وہ اپنی مہارت کا گراف بلند کرتے جاتے ہیں اور ٹیم چلتی رہتی ہے۔ کسی بھی کھلاڑی کی ریٹائرمنٹ سے ٹیم ختم نہیں ہو جاتی۔ ہاں‘ منصوبہ سازی نہ کی گئی ہو‘ منظّم سوچ نہ اپنائی گئی ہو تو کسی بڑے کے جانے سے کوئی بھی ادارہ کچھ دیر کے لیے کمزور ضرور پڑ جاتا ہے۔ تھوڑی اضافی محنت یا درست بھرتی کے ذریعے اس کمزوری کو دور کیا جاسکتا ہے۔
ادارے یا ٹیمیں اجتماعی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں‘ کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہیں۔ کسی بھی ادارے یا ٹیم سے وابستہ تمام افراد جب مل کر اپنی بہترین کارکردگی یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تب مطلوب نتائج یقینی بنانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے جب کسی ادارے یا ٹیم میں کچھ لوگ تمام معاملات میں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں تب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ خود کو برتر سمجھنا بھی ذہنی مرض ہے مگر یہ پھر بھی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر زیادہ خرابیاں پیدا کرنے والی بُرائی یہ ہے کہ کوئی دوسروں کو کمتر سمجھے اور اس کے اظہار میں ہچکچاہٹ بھی محسوس نہ کرے۔ یہی وہ خرابی ہے جو کسی بھی ادارے یا ٹیم کا ماحول خراب کرکے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے۔
کسی بھی گھر کا ماحول اُسی وقت تک خوشگوار رہ سکتا ہے جب اُس گھر کے تمام افراد اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے گھر کی مجموعی بھلائی کے لیے بھرپور محنت کرتے ہوئے اپنا حصہ ڈالیں۔ اگر کوئی خود کو ناگزیر سمجھتے ہوئے دوسروں کو نظر انداز کرنے یا نیچا دکھانے کی روش پر گامزن ہو تو گھر کا سکون غارت ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یہی اصول ایسے کسی بھی ماحول پر منطبق ہوتا ہے جس میں حتمی کارکردگی کا مدار چند یا بہت سے افراد کی اجتماعی کاوشوں پر ہو۔ جب سب مل کر کچھ کرتے ہیں تب کچھ ہوتا ہے۔
یہ نظام قدرت کا طے کردہ ہے کہ روئے ارض پر کوئی بھی بے مصرف نہیں۔ کسی بھی جاندار کو کسی خاص کردار کے بغیر پیدا نہیں کیا گیا۔ انسان چونکہ ہر مخلوق سے افضل ہے اس لیے اُس کی صلاحیتیں بھی زیادہ ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔ صرف انسان کو یہ ذمہ داری سونپی گی ہے کہ اِس دنیا کا معیار بلند کرے‘ اِس کی رونق میں اضافہ کرے اور سطحِ ارض کو رہنے کے زیادہ قابل بنانے میں اپنا حصہ ڈالے۔ یہ سب کچھ صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب ہر انسان اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں کو بھی اہم گردانے۔ اپنے آپ کو ناگزیر سمجھ کر کچھ کرتے ہوئے دوسروں کو کمتر سمجھنے کی صورت میں ماحول مکدّر ہوتا ہے۔ کامیابی کا مدار بہت حد تک اس امر پر ہے کہ ماحول کو خراب نہ ہونے دیا جائے۔ ماحول کے تکدّر سے کام کرنے کی صلاحیت و سکت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کسی بھی ماحول میں مجموعی کارکردگی اُسی وقت مطلوب نتائج کی ضمانت فراہم کرتی ہے جب سب اِس حقیقت کو تسلیم کریں کہ زیادہ باصلاحیت اور محنتی ہونے پر بھی کوئی حتمی تجزیے میں ناگزیر نہیں۔ جب یہ سوچ پنپتی ہے تب اداروں اور ٹیموں کے پنپنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں