ہمیں اپنے ماحول اور دیگر معاشروں میں جو کچھ بھی دلکش اور مفید دکھائی دے رہا ہے وہ کچھ نیا سوچنے کا نتیجہ ہے۔ ساری کاری گری ہی اس حقیقت میں مضمر ہے کہ جو کچھ بھی پیش کرنا ہے‘ نئے اور منفرد انداز سے پیش کیجیے۔ ہم جتنی بھی کہانیاں پڑھتے ہیں وہ سب کی سب پُرانے موضوعات کی حامل ہیں۔ کہانیوں کا ڈھانچا بھی لگا بندھا ہوتا ہے۔ ہر فسانہ کسی نہ کسی فرسودہ موضوع ہی پر محیط ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر سب کچھ پرانا ہے تو پھر نیا کیا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نیا صرف انداز ہے۔ پیش کش کا انداز طے کرتا ہے کہ کوئی بھی چیز قبول کی جائے گی یا نہیں۔ ہر عہد میں نیا پن ابتدا میں تحسین کی نظر ہی سے دیکھا گیا ہے۔ جدت اگر پیدا ہوتی ہے تو نئے انداز سے، دوسروں کی روش سے ہٹ کر چلنے سے۔ ندرت کا بازار اگر گرم ہے تو صرف اس حقیقت سے کہ بہت سوں کی تسلی و تشفی صرف اس بات سے ہوتی ہے کہ دوسروں سے ہٹ کر کچھ کیا جائے۔ جب کسی بھی معاملے کو نئے زاویے سے دیکھا اور دِکھایا جاتا ہے تب کچھ نیا جنم لیتا ہے۔ سیف الدین سیفؔ کہتے ہیں ؎
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
یہ زمین نئی ہے نہ آسمان ہی کچھ نیا ہے۔ پہاڑ بھی وہی ہیں اور میدان بھی سدا سے وہی کے وہی ہیں۔ دریاؤں کی روانی بھی وہی ہے اور سمندروں کو تموج بھی نیا نہیں۔ بادی النظر میں تو کچھ بھی نیا نہیں۔ کچھ بھی نیا اُسی وقت منظرِ عام پر آتا ہے جب نئی سوچ پروان چڑھتی ہے، کچھ نیا کرنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔ اس دنیا کی معنویت اور مقصدیت میں اضافہ اگر کیا ہے تو اُن لوگوں نے جن کی روش عمومی راہ سے ہٹ کر تھی اور جو دوسروں کی اندھی تقلید کے بجائے اپنے طور پر کچھ نیا کرنے کے خواہش مند تھے۔
کبھی اس حقیقت پر غور کیجیے کہ اس دنیا میں زیادہ کامیاب کون ہوتے ہیں۔ کسی بھی ماحول یا معاشرے کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ حقیقی اور بھرپور کامیابی صرف اُنہیں نہیں ملتی جو دوسروں سے کچھ زیادہ کرتے ہیں بلکہ یہ بھی لازم ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے وہ نئے انداز کو اپناتے ہوئے کیا جائے۔ جب کسی بھی چیز میں لوگوں کو کچھ نیا دکھائی دیتا ہے تب وہ اُس کی طرف زیادہ تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں۔ دنیا کو وہی لوگ راس آتے ہیں جو کچھ نیا کر دکھاتے ہیں۔ نئے رنگ اور نئی چمک دمک کے ساتھ پیش کی جانے والی ہر چیز تیزی سے توجہ پانے میں کامیاب رہتی ہے۔ پُرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے کا ہنر سبھی کو پسند آتا ہے۔ معاشرے کی مجموعی کیفیت چاہے کچھ ہو، کچھ نیا کرنے والوں کے لیے پنپنے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ہر شعبے میں ایسے لوگوں کو قبول کرنے کی گنجائش پائی جاتی ہے جو دوسروں سے ہٹ کر کسی راہ پر گامزن ہوں۔ لوگ یکسانیت کو کسی بھی درجے میں پسند نہیں کرتے۔ اگر کسی معاملے میں غیر معمولی سطح کا اعلیٰ معیار بھی قائم کرلیا جائے تو اُس کے برقرار رہنے سے محض یکسانیت پیدا ہوتی ہے، اور کچھ نہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اگر کوئی موضوع مقبول ہو جائے تو اُس پر فلمیں زیادہ اور تیزی سے بنائی جانے لگتی ہیں؟ کوئی بھی نیا موضوع فلموں کے شائقین کو ایک خاص حد تک ہی اچھا لگتا ہے۔ یہ سلسلہ طول پکڑ لے تو شدید نوعیت کی یکسانیت پیدا ہوتی ہے جو جمود کو راہ دیتی ہے۔ تب معاملات رُک سے جاتے ہیں۔
1970ء کی دہائی کے آنے تک بالی ووڈ میں شدید نوعیت کی یکسانیت عام تھی۔ فلمیں گھسے پٹے موضوعات پر فرسودہ انداز سے بنائی جارہی تھیں۔ مناظر میں جان تھی نہ مکالموں میں۔ منظر نامے بھی کمزور اور پست تر تھے۔ موسیقی میں تھوڑا بہت دم ضرور تھا مگر کوئی بھی فلم محض موسیقی کی بنیاد پر زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتی۔ کہانی میں بھی دم ہونا چاہیے۔ منظر نامہ اچھی طرح لکھا ہوا ہونا چاہیے۔ بالکل اِسی طور مکالموں میں جان ہونی چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فلم کی مجموعی رفتار متوازن رہنی چاہیے۔ یہ سب کچھ نہیں تھا۔ جب معاملات تبدیل نہ ہوئے تو فلمیں بے جان ہوتی چلی گئیں۔ بالی ووڈ کی فلموں میں تھوڑی بہت جان پیدا ہوئی تو راجیش کھنہ کی آمد سے۔ وہ ایک نیا انداز لائے۔ اُن کی اداکاری زیادہ جاندار نہیں تھی۔ ہاں! انداز اچھوتا تھا۔ وہ گانوں کی فلم بندی انوکھے انداز سے کراتے تھے۔ ڈائیلاگ ڈلیوری بھی مختلف تھی۔ یہ چیز لوگوں کو بھاگئی۔ راجیش کھنہ کو لوگوں نے اصلاً رومانی فلموں میں گانوں کے ذریعے پسند کیا۔ خیر، یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا کیونکہ اُن کی اداکاری میں یکسانیت نمایاں تھی اور وہ آگے بڑھنے کے حوالے سے مطلوب جوش و جذبہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں سلیم خان اور جاوید اختر نے مل کر سلیم جاوید کے نام سے سکرین رائٹنگ شروع کی اور بالی ووڈ کا عمومی رجحان تبدیل کردیا۔ اُن سے پہلے فلمی کہانیاں پُھسپھسی ہوا کرتی تھیں۔ مکالموں کو جاندار بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ سلیم جاوید نے پرانی کہانیوں کو نئے انداز سے پیش کرکے اپنی الگ شناخت قائم کی اور نام کے ساتھ ساتھ غیر معمولی معاوضہ بھی پایا۔ سلیم خان اور جاوید اختر سکرین رائٹنگ کے حوالے سے غیر معمولی مہارت کے حامل تھے اور ایک ہی بات کو مختلف انداز سے بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ''وہ مر گیا‘‘ عام سا جملہ ہے۔ اِسے کئی زاویوں سے ادا کیا جاسکتا ہے مثلاً اُسے موت نے آلیا، وہ موت کے منہ میں جا گِرا، موت نے اُسے دبوچ لیا، موت نے اُسے پالیا وغیرہ وغیرہ۔ سلیم جاوید میں بات کو اچھوتے انداز سے کہنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم تھی۔ ان کی آمد سے فلموں میں سب کچھ بدل گیا۔ اُنہوں نے زنجیر، دیوار، شعلے، ایمان دھرم، مجبور، ڈان، کالا پتھر، دوستانہ، ترشول، شان اور شکتی جیسی معیاری اور کامیاب فلمیں دیں۔ یہ تمام فلمیں اصلاً اپنے چونکانے والے انداز کی بدولت کامیاب رہیں۔
کھیلوں کی دنیا پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ کچھ کھلاڑیوں نے دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہا تو کامیابی نے قدم چومے۔ کسی زمانے میں صرف ویسٹ انڈیز کی ٹیم ''دھانسو‘‘ قسم کی کرکٹ کھیلنے کے لیے مشہور تھی۔ اُس کے سامنے کوئی بھی ٹیم ٹِک نہیں پاتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ دنیا بھر میں کرکٹ نئے انداز سے کھیلی جانے لگی۔ کھیل میں تیزی آئی تو نیا انداز بھی آیا۔ شعوری کوشش کے ساتھ اپنائی جانے والی تیزی نے بیٹنگ کو نئے انداز سے رُو شناس کرایا۔ آج کرکٹ میں اگر تیزی سے ہے تو منفرد انداز ہی کی بدولت ہے۔ جب نئے انداز سے بیٹنگ کرنے کا چلن عام ہوا تو سست رفتاری سے کھیلنے کی گنجائش ہی نہ رہی۔ اب پانچ روزہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی خاصی دل نشیں اور فیصلہ کن تیزی نمایاں ہے۔
انفرادی سطح پر بھی کچھ نیا کرنے ہی سے بات بنتی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی یہی اصول کارگر ثابت ہوتا ہے۔ ہر عہد میں وہی لوگ اپنے اپنے شعبے کے کامیاب ترین افراد میں شمار کیے گئے ہیں جنہوں نے اس دنیا کی معنویت اور دلکشی میں اضافہ کرنے پر یقین رکھا اور ایسا کر گزرے۔ یکسانیت کی زنجیریں توڑ کر دوسروں سے مختلف ڈگر پر چلنا بچوں کا کھیل نہیں۔ ایسے کسی بھی تجربے میں بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ فطری علوم و فنون میں بھی وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے دنیا کو نئے تصورات و نظریات سے ہم کنار کرنے کی شعوری کوشش کی۔ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہی کچھ کرتے رہنے سے دنیا کی دل کشی میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں ہوتا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا آپ کو خصوصی طور پر پہچانے اور داد و تحسین سے نوازے تو لازم ہے کہ دوسروں سے ہٹ کر کچھ کیجیے، کچھ ایسا کیجیے جو انفرادیت کا حامل ہو۔ زندگی کا حُسن ندرت و جدّت ہی میں تو پوشیدہ ہے۔ کسی بھی شعبے میں پیش رفت کی تاریخ کھنگالیے تو اندازہ ہوگا کہ کچھ نیا کرنے ہی سے معیار بلند ہوا، بھرپور کامیابی کی راہ ہموار ہو پائی۔ اگر ستائش کی تمنا ہے تو دوسروں کی روش سے ہٹ کر کچھ نیا اور مثبت کر دکھائیے۔